0
Friday 25 Jan 2013 22:10

طالبان سے مذاکرات کے خواہشمند!

طالبان سے مذاکرات کے خواہشمند!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
ذاتی خواہشات کو قومی مفادات کا نام دینے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی بات آج کا معاملہ نہیں، جب سے ریاست نے دہشتگردوں کیخلاف طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، طالبان اور اسی فکری سلسلے کی دیگر کالعدم تنظیموں کے سیاسی حمایتیوں نے شور مچا رکھا ہے کہ یہ بچارے تو اسلام کی سربلندی کے لیے سر گرم ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف طاقت کے استعمال کے بجائے ان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اپنی مسلکی روایات کو عین اسلام تصور کرنے والے برداشت اور تحمل جیسی صفات سے عاری ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی بات تو کی جاتی ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان مذاکرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ میری سمجھ میں تو ایک ہی بات آتی ہے، ان سے مذاکرات کی بات کرنے والے چاہتے ہیں کہ علی الاعلان ان کی طاقت کو تسلیم کر لیا جائے۔ لیکن پاکستان کے اعتدال پسند عوام نہیں چاہتے کہ کسی سیاست کاری کے ذریعے انتہا پسندانہ سوچ کو ان پر مسلط کر دیا جائے۔ 

چند ماہ قبل صوبہ کے پی کے، کے وزیرِ اطلاعات نے کہا تھا کہ طالبان اپنے حمایتیوں کو پارلیمنٹ میں بھجوانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس وقت میں نے اپنے کالم میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ جنابِ والا،طالبان اپنے حمایتیوں کو پارلیمنٹ میں بھجوانے کی تیاری نہیں، بلکہ ان کی تعداد میں اضافے کی تیاری کر رہے ہونگے، تاکہ آئندہ وجود میں آنے والی اسمبلی میں ان کے حمایتیوں کی اتنی تعداد تو ہو کہ وہ کسی بھی ایسے بل کی مزاحمت کرسکیں جو انسدادِ دہشتگردی جیسے الفاظ سے مزین ہو۔ پارلیمنٹ کے اندر تو طالبان کے ہمدرد بہر حال موجود ہیں جو حکومت کو ہمہ وقت یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ امریکہ کی ہے اور ہمیں اس جنگ میں خواہ مخواہ کا حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔ 

یہ وہی لوگ ہیں جو ہر خودکش حملے کے بعد اسے امریکی ڈرون حملوں اور امریکی جارحیت کا ردِعمل قرار دیتے ہیں، مگر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ردِعمل اگر امریکی جارحیت کیخلاف ہے تو پھر نشانہ پاک فوج اور معصوم شہری کیوں؟ اس قتل و غارت گری کو ’’جہادی‘‘ کرامات کا نام دینے والے یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ حکومت کو جن سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، وہ بےلچک رویوں کے حامل تشدد پسند لوگ ہیں، جو ہمیشہ اپنی ہی بات کو حرفِ آخر جانتے ہیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مذاکرات اچھی اور بہترین روش ہے۔ میثاقِ مدینہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا انمول خزینہ ہے، لیکن تاریخِ انسانی کے اس اہم ترین موڑ کی مثال دینے والے اس بات کو یاد رکھیں کہ موجودہ عہد میں جب کسی تشدد پسند گروہ سے مذاکرات کی بات کی جائے گی تو اس کا میثاقِ مدینہ سے کوئی جوڑ اور ربط نہیں۔ الٰہی احکامات اور اسلامی روایات کی من پسند تشریح کے تباہ کن رویے نے تکفیری رویوں کو فروغ دیا۔ تضادات سے لتھڑے معاشرے میں اچھائی کی توقع کیونکر؟ 

دہشتگردی پاکستانی معاشرے کا ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے، جس نے پورے معاشرے کو نفسیاتی ہیجان کا شکار کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام محب وطن قوتیں اور انسان دوست افراد مل کر دہشتگردوں کو شکست دینے کے لیے یکجا ہو جائیں، مگر یہاں معاملہ اور طرح کا ہے۔ مسلکی اجارہ داری کے لیے بعض قوتیں طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی نہ صرف کھل کر حمایت کرتی نظر آتی ہیں، بلکہ حکومت پر بھی دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ طالبان کی طاقت کو تسلیم کر لے۔ طالبان سے مذاکرات کا تازہ اضطراب حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ ’’جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت اور طالبان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر دی اور کہا کہ اگر حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے مکمل اختیار دیں تو وہ طالبان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ 

ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کی مقتدر قوتیں مل کر ملک کو امن کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ مولانا کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے تمام انتظامات کر لیے ہیں اور ہم حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کروانے کے لیے تیار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ہمیں طالبان کی پیشکش کو سنجیدہ لینا چاہیے، ساتھ ہی انھوں نے یہ شرط بھی عائد کی کہ اگر طالبان سے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی جاتی ہے تو پھر ان کی جماعت اے این پی کی دہشتگردی کیخلاف ہونے والی اے پی سی میں شرکت کرسکتی ہے۔‘‘ صاف نظر آ رہا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف ہونے والی کانفرنس میں مولانا شرکت نہیں چاہتے، کیونکہ وہاں طالبان کی مذمت ہوگی اور موصوف کسی ایسی کانفرنس میں کیوں جائیں، جہاں طالبان کو آڑے ہاتھوں لیا جائے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل وہ طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈال کر انھیں ’’امن پسند‘‘ شہری کا درجہ دلوا سکیں۔ اس امر میں کلام نہیں کہ مولانا کی یہ شدید خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ ان کے ذریعے مذاکرات کرکے نہ صرف ان کی طاقت کو تسلیم کر لیا جائے، بلکہ آنے والے انتخابات میں طالبان کے بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار کو بھی مان لیا جائے۔ 

بلاشبہ ہم تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پہ کھڑے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ طالبان اور اسی فکری سلسلے کی دیگر کالعدم تنطیمیں نہ صرف دہشتگردی میں ملوث ہیں، بلکہ اس کا اعتراف بھی کرتی ہیں۔ حکومت جب ڈاکٹر طاہر القادری سے اسلام آباد میں مذاکرات کا سوچ رہی تھی تو اسی دن لاہور میں مولانا فضل الرحمن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’اگر طاہر القادری سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پھر مولوی صوفی محمد سے کیوں نہیں؟‘‘ مگر مولانا صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور امن کی بات کرتے ہیں، جبکہ مولانا صوفی محمد دہشتگردی کو فروغ دینے میں پیش پیش۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے کوئٹہ میں گورنر راج نافذ ہوا، دہشتگردوں کے ہمدرد انہیں رعایت دلوانے کے لیے زیادہ سرگرمی دکھا رہے ہیں، لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت پاکستانی شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی اور کسی بھی طرح کی’’سیاسی انتہا پسندی‘‘ کو خاطر میں نہیں لائے گی۔
خبر کا کوڈ : 234546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش