1
0
Tuesday 5 Feb 2013 23:26

امریکی طالبان اور پاکستانی ضامن

امریکی طالبان اور پاکستانی ضامن
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ نے جن پتھروں کو دھڑکنیں عطا کی تھیں ان کو زبان ملی تو امریکہ پر ہی برس پڑے، یہ پتھر کے زمانے کے ’’پتھر‘‘ ایسے برسے کہ امریکہ کو آخر کار ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے اور امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی پیش کش کر دی۔ امریکہ نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ وہ قید طالبان رہنماؤں کو رہا کرنے کیلئے بھی آمادہ ہے اور دوحہ میں طالبان اپنا دفتر بھی قائم کر سکتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ طالبان تقسیم در تقسیم کے اتنے مراحل سے گزر چکے ہیں کہ امریکہ کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ مذاکرات کس گروہ سے کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ کیساتھ پہلے بھی ’’ہاتھ‘‘ ہو چکا ہے جس میں کسی اور صاحب عقل نے طالبان بن کر امریکہ کیساتھ مذاکرات کئے اور کافی ساری رقم لے کر صلح کی یقین دہانی کروا کر غائب ہو گیا، بعدازاں پتہ چلا کہ مذاکرات کرنے والے صاحب کا تو طالبان کیساتھ دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ایسی صورت میں اب امریکہ کافی زیادہ محتاط ہے۔ اب افغانستان میں امن کیلئے ’’امریکی علماء ۔ ۔ ۔کانفرنس‘‘ منعقد ہونے جا رہی ہے جس میں کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا جس سے افغانستان میں امن قائم ہو سکے۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ مشروط مذاکرات کیلئے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور منور حسن کی ضمانت طلب کی اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کی جانب سے بات چیت کمیٹی کے ان تین ارکان کو رہا کیا جائے جنہیں حکومت نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔ طالبان نے الزام عائد کیا ہے کہ چونکہ ماضی میں افغان حکومت نے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی اس لئے اب وہ ثالثی کے لئے ڈاکٹر قدیر کو بھی بیچ میں لے آئے تو طالبان کو منظور ہو گا۔ ایسے وقت میں جب موجودہ حکومت کی آئینی مدت میں صرف چند ماہ باقی ہیں طالبان کا ایسے مذاکرات کے لئے شرائط پیش کرنا بڑا معنی خیز ہے، خاص طور پر جن شخصیات کو بطور ضامن یا ثالث بیچ میں ڈالنے کی شرط رکھی گئی ہے اس نے سارے معاملے کو مشکوک کر دیا ہے۔ چند ہفتوں کی مہمان حکومت کو طالبان کی مشروط مذاکرات کی پیشکش ان مجوزہ ضامنوں کی شہرت خراب کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے جو اگلے عام انتخابات سے پہلے تیار کی گئی ہے تاکہ خالص پاکستانی سوچ اور اسلامی تشخص رکھنے والی جماعتوں کو دہشت گردوں کا سرپرست ظاہر کر کے انہیں عالمی سطح پر بدنام کیا جا سکے۔

دوسرا موجودہ حکومت اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کیلئے اپنے سیاسی حریفوں کو شدت پسندوں کے سرپرست کے طور پر پیش کر کے سیاسی فائدہ حاصل کر سکے کیونکہ موجودہ حکومت کا تسلسل مبینہ طور پر پاکستان میں ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے والی طاقت کو قبول ہے اور وہ ہر صورت اِسے برقرار رکھنے پر تلی ہے، بےشک اُسے کسی بہانے اگلے انتخابات ملتوی ہی کیوں نہ کرانا پڑیں، اس کے لئے کراچی کو ہدف متعین کرنے کی خبر خود ہمارے وزیر داخلہ دے چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام محب وطن حلقوں کو اس نئی پیشرفت کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا چاہیئے۔ جماعت اسلامی اور نواز لیگ دو ایسی جماعتیں ہیں جو دو قومی نظریہ اور پاکستانیت کی قائل اور قائداعظم کے فرامین کے مطابق ملک کو دیکھنا اور بنانا چاہتی ہیں۔ 

موجودہ ’’طالبانی ہتھکنڈے‘‘ سے قبل امریکی سفیر نے جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور اُن سے قبل میاں نواز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں اور ان ملاقاتوں میں دونوں رہنماؤں کو امریکی سفیر نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ کیلئے کام کرنے پر رضامند ہو جائیں لیکن دونوں رہنماؤں نے امریکی تابعداری سے انکار کر دیا۔ انکار کی سزا کے طور پر امریکہ نے یہ شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ یہ جماعتیں ’’طالبان نواز‘‘ ہیں۔ ماضی میں جب امریکہ نے طالبان ’’تخلیق‘‘ کروائے تھے تب تو ان لوگوں نے اپنی حکومت کے ہی کہنے پر طالبان کی سپورٹ کی تھی، لیکن بعدازاں جب طالبان اپنی پوزیشن سے ہٹ کر’’ظالمان‘‘ کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا البتہ کچھ آثار ایسے ضرور ہیں کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے تعلقات کچھ ایسے طالبان کے ساتھ اب بھی ہیں جو ملک میں بدامنی کا سبب بن رہے ہیں۔ 

بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ اور رئیسانی حکومت کے خاتمے کا سب سے زیادہ دکھ مولانا فضل الرحمن کو ہوا ہے۔ اتنے آنسو تو اسلم رئیسانی نے نہیں بہائے، جتنا رونا مولانا موصوف نے رویا ہے۔ ان کو یہ دکھ تھا کہ بلوچستان سے بہت سی وزارتیں اِن سے چھوٹ گئی ہیں، وزیر داخلہ بلوچستان کے بقول جے یو آئی کے رہنما سرکاری گاڑیوں میں غیر قانونی اسلحہ اور دہشتگردوں کو لے کر پھرتے ہیں اور بلوچستان میں ان دہشتگردوں کو باقاعدہ ’’سرکاری سرپرستی‘‘ حاصل ہے جو جے یو آئی خود فراہم کرتی ہے۔ ان فرضی طالبان کی جانب سے نواز لیگ اور جماعت اسلامی سمیت ڈاکٹر قدیرخان کومذاکرات میں ضامن طلب کرنا ان کو بدنام کرنے کی کھلی سازش لگتی ہے اور امریکی احکامات تسلیم نہ کرنے کی سزا محسوس ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی ماضی کی ٹھوکروں سے کافی سبق حاصل کر چکی ہے اور اب سمجھدار ہو گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ سید منور حسن نے امریکہ کو صاف جواب دے ڈالا، اسی طرح نواز شریف نے بھی حقیقی مسلم لیگی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ایسی صورت میں عوام آگاہ ہیں کہ طالبان کا جاری ہونیوالا بیان کہاں سے آ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 237360
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
کیسی احمقانہ بات ہے۔ امریکہ کیساتھ پہلے بھی ’’ہاتھ‘‘ ہو چکا ہے، جس میں کسی اور صاحب عقل نے طالبان بن کر امریکہ کیساتھ مذاکرات کئے اور کافی ساری رقم لے کر صلح کی یقین دہانی کروا کر غائب ہو گیا، بعدازاں پتہ چلا کہ مذاکرات کرنے والے صاحب کا تو طالبان کیساتھ دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
لکھتے ہوئے آنکھیں کھول کر لکھنا چاہیے۔
ہماری پیشکش