0
Tuesday 19 Feb 2013 22:08

دہشتگردی، ساری نظریں فوج کیجانب

دہشتگردی، ساری نظریں فوج کیجانب
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 
 
خطے میں بلوچستان کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر عالمی طاقتیں، بین الاقوامی کمپنیاں اپنے مفادات کی جنگ کیلئے بلوچستان کو جنگ کے میدان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے ہر قوت نے اپنی الگ پراکسی تشکیل دے رکھی ہیں جو صوبے میں عقیدہ، مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کیلئے بےگناہ انسانوں، خصوصاً ہزارہ قوم کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل عام صوبے میں فرقہ ورانہ فسادات پھیلانے کیلئے منظم اور گہری سازش کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے ذریعے صدیوں سے مذہبی رواداری اور باہمی احترام کے ساتھ زندگی گزارنے والی اقوام کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا مقصود ہے مگر صوبے کی سیاسی، مذہبی اور ملک دوست قوتوں نے عالمی طاقتوں کی جنگ اور سازشوں کو محسوس کرکے صوبے میں فرقہ واریت پھیلانے والی قوتوں کی سازشوں کو ہمیشہ ناکامی سے دوچار کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے سانحات رونما ہونے کے باوجود کسی قسم کے بڑے انتشار یا واقعہ صوبے میں رونما نہیں ہوا۔ یہ ہزارہ شیعوں کی جرات اور حوصلہ کی عمدہ مثال ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے سانحہ ہزارہ ٹاؤن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ واریت، تنگ نظری، تعصب پسندی اور مذہبی منافرت بلوچ معاشرے کا حصہ نہیں۔ ہزارہ برادری کی جانب سے فوج طلب کئے جانے کا مطالبہ اس صورت میں کیا جاتا جب بلوچستان میں فوج نہ ہوتی بلوچستان تو روز اول سے فوج کے حوالے ہے لیکن فوج کسی مسئلہ کا حل نہیں کیونکہ فرقہ واریت، انتہاء پسندی و مذہبی جنونیت تنگ نظری اور تعصب پسندی معاشرے میں انتشار و بدامنی فوج ہی کی مرہون منت ہیں، تو اس سے کیونکر یہ امید رکھی جائے کہ وہ عوام کو ان سے نجات دلائے گی۔ اسی طرح گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ہونا انٹیلیجنس اداروں کی ناکامی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یا تو یہ ادارے جرم کے مرتکب افراد کو پکڑ نہیں سکتے یا پھر وہ خود نشانہ بننے سے ڈرتے ہیں، لیکن اتنے بڑے واقعات کے باوجود جب متاثرین بار بار فوج کو مدد کے لیے بلا رہے ہیں اس کے باوجود کسی دفاعی ادارے کیطرف سے کوئی موقف سامنے نہیں آ رہا۔ فقط طالبان امور کے ماہر اور افغانستان تنازعے پر نظر رکھنے والے سابق بریگیڈئیر سعد محمد نے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انٹیلیجنس کی ناکامی ہے، درست ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں کہ اداروں کے بس کی بات نہیں یا وہ ڈر کے مارے باہر نہیں نکلتے یا انہیں پتہ نہیں ہے یہ مبالغہ آرائی ہے، ایسی کوئی بات نہیں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی توجہ افغانستان پر لگی ہوئی ہے اور کوئٹہ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ورنہ ہمارے انٹیلیجنس اداروں میں صلاحیت ہے کہ وہ کچھ کام کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ بےشک حالات خراب ہیں، وقت اور وسائل کی کمی ہے لیکن یہ افسوسناک بات ہے۔ اندرونی خطرہ زیادہ شدید ہے اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے۔ انکو یہ معلوم ہے یہ لوگ زیادہ دور نہیں ہیں کوئٹہ کے قرب و جوار میں موجود ہیں مستونگ کے علاقے میں انکی پناہ گاہیں اور اڈے ہیں اور لشکر جھنگوی نامی تنظیم جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے اسکی نشاندہی مشکل نہیں، مستونگ میں ہی ان کے مراکز ہیں اور یہی ان کا گڑھ ہے، چونکہ ان کی ترجیحات میں نہیں ہے اسی لیے یہ ان کو نہیں پکڑتے۔ ان کی ساری توجہ افغانستان پر ہے یہ سوچے بنا کہ ہمارے اپنے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ بریگیڈئیر صاحب نے اس بات کی تردید کی کہ فوج یا انٹیلیجنس کے اداروں کے افراد لشکر جھنگوی کی پشت پناہی کرتے ہیں یا ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اس میں کوئی حقیقت نہیں کیونکہ اداروں میں چھانٹی کا عمل جاری رہتا ہے، اور وہ اپنا کام بھی جانتے ہیں ان کی کلیئرنس بھی ہوتی ہے۔ ادارے دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کر رہے لیکن فارن پالیسی ابجکٹیوز حاصل کرنے کی ترجیحات کے مدنظر اندرونی خطرات پر توجہ نہ دینے کی پالیسی جس اینالسز کے نتیجے میں اپنائی گئی وہ غلط ہے۔ بریگیڈئیر صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی ریاست کے لیے یہ تاثر نہایت خطرناک ہوتا ہے جب یہ کہا جا رہا ہو کہ اس ملک کے قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور وہ دہشت گرد اپنے ملک میں تباہی مچا رہے ہیں۔

ایک رائے یہ ہے کہ ۱۰ جنوری کو علمدار روڈ پر ہونے والے سانحہ پر احتجاج کا راستہ اپنایا گیا جس کا اختتام صوبائی حکومت کے خاتمہ پر ہوا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا صرف ایک فرد کی نااہلی تھی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ رسوائی کا سہرا صرف سیاسی نمائندوں کے سر ہی کیوں جاتا ہے جبکہ اس گناہ میں تو آئی جی ایف سی اور آئی جی پولیس سمیت سب برابر کے شریک ہیں۔ گورنر راج کے نفاذ کے بعد انہوں نے فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں نہیں کیا۔ کتنے لوگوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی گئی۔ بلوچ شدت پسندوں کو تواتر کے ساتھ گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ہزارہ برادری کو مسلسل نشانہ بنانے والوں کو گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں تو چھوڑا گیا اور جیلوں سے بھگایا گیا۔ یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ انتشار و بدامنی پھیلانے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے بےگناہ قتل کئے جانے والوں کی تعداد اتنی نہیں جس تعداد میں ہزارہ برادری کے افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی میں نشانہ بنائے گئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جن پر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز خرچ کئے جا رہے ہیں وہ خود کو اس گناہ سے بری الذمہ کیوں سمجھ رہے ہیں جبکہ وہ بھی برابر کے شریک ہیں جنہوں نے امن کو تہہ و بالا کرنے والی قوتوں کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود آنکھیں موند رکھی ہیں اور عوام کو خوف، دہشت اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔

بلوچ قوم پرست رہنما سردار عطاءاللہ مینگل نے گوادر بندر گاہ کو چین کے حوالے کرنے کے سلسلے میں جاری کیے جانے والے اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ "گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنا بلوچوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے اور یہ آخری کیل ٹھونکنا انہیں مبارک ہو۔" جہاں تک گوادر پورٹ اور پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے معاہدات کا تعلق ہے انکے علاوہ بھی بلوچستان سے متعلق وفاق نے جتنے بھی معاہدات کئے ہیں بلوچ قوم ان معاہدات کی پاسداری کی پابند قطعاً نہیں کیونکہ بلوچ وسائل پر کئے جانے والے معاہدات بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے بغیر کئے گئے ہیں لیکن مینگل سردار کا یہ بیان ہزارہ قوم، بلوچ عوام کے حقوق کی ترجمانی سے زیادہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی غمازی کرتا ہے یا تو یہ کہا جائے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے ان قوتوں کا ہاتھ ہے جو مذکورہ معاہدوں کے خلاف ہیں۔ یہ بات تو کسی بھی طرح قرین قیاس نہیں کہ پی پی کی حکومت ان معاہدوں کو عملی شکل دینے کے لیے لشکر جھنگوی کے ذریعے بلوچستان کے حالات خراب کروا رہی ہے۔

دوسری جانب ہزارہ راہنماوں کا کہنا ہے کہ بات روز روشن کی طرح اپنی پوری حقیقت کے ساتھ موجود ہے کہ فرقہ واریت کے نام پر بے گناہ نوجوانوں اور ہزارہ قوم کے فرزندوں کا خون بہانے والی قوتوں کو کروڑوں روپے کی خارجی امداد موصول ہو رہی ہے جن سے وہ نہ صرف جدید اسلحہ کی خریداری کر لیتے ہیں بلکہ بھاری رقوم خرچ کرکے سرکاری اداروں کے ضمیر فروش افراد کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمران بلوچستان میں امن کے قیام اور فرقہ واریت کے خاتمہ کے سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور کراچی کے طرز پر کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کرکے صوبے سے فرقہ وارانہ دہشت گردوں اور انکے مراکز کے خاتمہ کو اپنی ترجیح بنائیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی کی حوصلہ افزائی اور ملک میں طاقت کا توازن بگڑنے کا منطقی نتیجہ ہے۔ امریکہ، سعودی عرب، ضیاء اسٹیبلشمنٹ اور تکفیری گروہوں کا چار ضلعی گٹھ جوڑ مادر وطن پاکستان کو بنگلادیش کی طرح کئی ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کی عالمی سازش ہے، جس کا عملی نتیجہ پاکستان میں بسنے والوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تبدیل کرکے ایک مرکزی عوامی قیادت کے فقدان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کچھ قوتیں امریکہ اور سعودی عرب کی ایما پر ملک میں بدامنی پھیلانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی آرمی سے متعصب دہشتگرد مولویوں کو نکال باہر کرنے سے ہی مملکت خداداد پاکستان کا امن بحال ہو سکتا ہے۔ ہمارے مسائل کا حل مسلم فوج ہے ایسی فوج نہیں جس پر کسی خاص مسلک کی اجارہ داری ہو۔

مقتدر قوتوں کو بلوچ قوم پرستوں کے ان الزامات کا دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہزارہ قبائل اور شیعہ قوم کو ان کے مطالبات کا جواب دینا چاہیئے کہ فوج بلانے کے مطالبہ پر صرف یہ کہا جاسکتا ہے یہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہو گا۔ بلوچ قوم پرستوں کا تو یہ کہنا ہے کہ اس کے تو اپنے سینگ نہتے، بےگناہ اور معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن ہزارہ کیمونٹی اور ملت جعفریہ کو اس سے اتفاق نہیں۔ البتہ پورے ملک میں دھرنے دیکر احتجاج کرنے والے بچے بچے کی زبان پر یہ مطالبہ ضرور ہے کہ صرف فوج چاہے تو دہشت گردوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ ان کی پناہ گاہیں ختم ہو سکتی ہیں، ان کی ٹریننگ بند ہو سکتی ہے، انکو روکا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں اندرونی خطرات کو بھارت سے بڑا خطرہ قرار دینے والی قوتوں کی فیصلہ کن کارروائی ہی بہتری لا سکتی ہے ورنہ دہشت گرد یونہی حوصلہ پکڑتے رہے گے اور پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات عملی صورت اختیار کرتے جائیں گے اور ایک ماہ میں دو سو لاشیں اٹھانے والے مظلوم ہزارہ قبائل کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو خارجی طاقتوں کے آلہ کار خارجی دہشت گردوں کے ہاتھوں ٹکڑے ہونے والے اپنے وطن کی میت پر ماتم اور نوحہ خوانی کرنا پڑے گی۔ بہت دیر ہو جائے گی۔ یتیم بچوں اور بوڑھی ماؤں کی آہیں علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن تک محدود رہنے والی نہیں۔ اے فرش کے خداوو ہوش کے ناخن لو ! یہ آہ و بکا عرش کو ہلا دینی والی ہے۔ تمہارے سینے میں دل ہے کہ پتھر؟ پاکستانی شیعہ ریاستی اداروں سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست نے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا جو وعدہ کیا تھا وہ کیا ہوا؟
 
حوالہ جات:
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/02/130219_reaction_on_gwader_rk.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/02/130217_brig_saad_int_rh.shtml
http://www.hazaratribe.com/?p=16342
http://www.hazaratribe.com/?p=16336
خبر کا کوڈ : 241004
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش