1
0
Wednesday 27 Feb 2013 12:34

سیاست کی پھرتیاں

سیاست کی پھرتیاں
تحریر: ناظر بھٹی

جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کے درمیان جہاں اتحاد بنانے کے لیے روابطہ تیز ہوگئے ہیں تو وہیں پاکستان کی سیاست کے بڑے کھلاڑی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کے عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز توڑنے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو ہر آنے والے انتخابات میں دہرایا جاتا ہے۔ 2002ء کے انتخابات می پرندوں کی طرح یہ پروازیں مسلم لیگ (ن) سے مسلم لیگ (ق) کی طرف تھی جبکہ 2008ء کے انتخابات کے بعد یہی اڑان فوجی آمر کی چھتری کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ (ق) سے مسلم لیگ (ن) کی طرف ہوئی اور اب پنجاب اسمبلی میں 34 لوٹے تیار کرکے مسلم لیگ (ن) نے اپنے ساتھ ملا لیے اور اسی بنیاد پر اب تک حکومت چلا رہے ہیں۔ 

پیپلز پارٹی کی قیادت نے میاں منظور وٹو کو پنجاب کی تنظیمی صدارت اسی لیے دی تھی کہ اگلا معرکہ پنجاب حکومت کا حصول ہوگا۔ جس کا صدر آصف علی زرداری اعلان کرچکے ہیں کہ اگلا وزیراعلٰی پنجاب جیالا ہوگا۔ اسی بنیاد پر جو بھی شکست و ریخت ہے وہ صرف پنجاب میں ہی ہو رہی ہے۔ جس مین نئے صوبے کی تشکیل، بریلوی ووٹ کو توڑنے کے لیے سنی اتحاد کونسل کا پیپلز پارٹی سے اتحاد، تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا مرکز بھی پنجاب ہی ہے تو اس طرح پیپلز پارٹی اس امید پر پرامید ہے کہ تین رخی لڑائی میں دائیں بازو کا ووٹ تقسیم ہوگا، تو اسکا فائدہ اسی کو ہوگا۔ 

جوڑ توڑ میں پیپلز پارٹی تو اتنا بڑا تیر نہیں مار سکی، صرف چند سطحی عہدیداروں کی شمولیت منظور وٹو کے ساتھ ہوئی ہے، جبکہ اصل کام تو مسلم لیگ ن نے کیا ہے کہ 8 اراکین پنجاب اسمبلی اور پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق سیکرٹری جنرل سمیع اللہ خان اپنی اہلیہ عظمٰی بخاری کے ساتھ مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کے حملوں سے الیکشن کمشن کو بچا لیا ہے، اور انہیں ان کی حیثیت بتا دی ہے کہ سب کو برا اور کرپٹ کہنے والا پہلے خود اپنی اصلاح کرے، محض بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر تقاریر کرنے سے نہیں، انتحابات  لڑنے اور پارلیمان کا حصہ بننے سے نظام بدلا جاسکتا ہے۔
 
سب کے سامنے آچکا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری بیرونی ایجنڈے پر انتخابی نظام کو روکنا چاہتے ہیں تو سپریم کورٹ نے ذاتی حملے ضرور برداشت کر لیے، مگر الیکشن کمشن کی تشکیل نو کے مطالبے سے ہوا نکال دی ہے۔ اس سے بھی فائدہ مسلم لیگ ن کی بجائے پیپلز پارٹی کو ہوا ہے کہ ایک تو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو طاہر القادری نے وہی کچھ بتا دیا، جو وفاقی حکومت پیٹتی رہتی تھی کہ موصوف نے فوجی آمر کا حلف اٹھا کر آئین کی توہین کی ہے۔ اب ڈاکٹر طاہر القادری جلسوں کے ذریعے رابطہ عوام مہم شروع کئے ہوئے ہیں۔ اس سے یقینی طور پر انتخابات کی راہ ہموار ہوگی اور سیاسی ماحول بنے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بہت جلد اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے انتخابات مین حصہ لینے کا اعلان بھی کرنے والے ہیں، اس لیے وہ ابہام بھی دور ہو جائے گا، جو ان کے کارکنوں میں اپنے قائد کی سیاست میں شمولیت اور اخراج کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ 

اسلامی تحریک پاکستان نے بھی انتخابی سیاست مین شمولیت کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ اس حوالے سے تنظیمی تربیتی کنونش اور ایک بڑے اجتماع کی بھی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس سے علامہ ساجد علی نقوی کے کارکنوں کو بھی متحرک ہونے کا موقع ملے گا۔ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین کے نوجوان سیکرٹری امور سیاسیات ناصر عباس شیرازی کی اڑان بہت تیز ہے۔ انہوں نے سیاسی سیمینارز کے ذریعے جہاں اپنے کارکنوں اور عوام میں اسلامی تصور سیاست کو اجاگر کیا ہے، وہیں مجلس وحدت مسلیمن کے امیدواروں کے باقاعدہ سیاسی رابطہ دفاتر اور نیو مسلم ٹاون لاہور مین ایک بڑا دفتر وحدت ہاوس کے نام سے کھول کر ثابت کر دیا ہے کہ اب سیاست چند ماہ یا دنوں کی نہیں مسلسل ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 242507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ap ki information k liay ..........Islami tehreek is waqt bhi aik parlimani party hay.....aur siasat mn hissa leti rhi hy...............
ہماری پیشکش