0
Friday 14 May 2010 12:55

برطانوی سیاست انجانے سمندر میں

برطانوی سیاست انجانے سمندر میں
آصف جیلانی
 برطانیہ میں 70 سال بعد ٹوری پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کی مخلوط حکومت کی تشکیل کے ساتھ برطانوی سیاست کا سفینہ انجانے سمندر میں اترا ہے۔گو مخلوط حکومت میں شامل دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے جو ایک زمانہ میں ایک دوسرے کے حریف تھے دعویٰ کیا ہے کہ یہ برطانیہ میں نئی سیاست کا آغاز ہے،لیکن تشکیک کی دھند اتنی گہری ہے کہ واضح منزل نظر آنی بہت مشکل معلوم ہوتی ہے۔برطانیہ میں پچھلی مخلوط حکومت اس وقت قائم ہوئی تھی جب ملک دوسری عالم گیر جنگ لڑ رہا تھا۔ان حالات میں یہ دراصل قومی حکومت تھی،جس میں ٹوری پارٹی اور لیبر پارٹی کے ساتھ لبرل پارٹی بھی شامل تھی۔لیکن اب حالات بھی مختلف ہیں اور یہ مخلوط حکومت جو معلق پارلیمنٹ کے نتیجہ میں بنی ہے،صرف دو جماعتوں پر مشتمل ہے۔ 
بلاشبہ برطانوی سیاست پر دو جماعتوں کی اجارہ داری کا دور ختم ہوا ہے اور تیسری جماعت لبرل ڈیموکریٹس جو پچھلے 80 برس سے اقتدار سے محروم رہی ہے اب اس مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔یوں ایک طویل عرصہ کے بعد ملک میں مخلوط حکومت کا تجربہ ہو رہا ہے مخلوط حکومت کی تشکیل کے مذاکرات کے دوران یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ٹوری پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کے درمیان پالیسی امور پر اتنے شدید اختلافات ہیں کہ یہ سمجھوتہ دیر پا ثابت نہیں ہو گا۔
اس وقت ملک کے سامنے سب سے سنگین مسئلہ مالی خسارہ کا ہے۔یہ خسارہ 153 ارب پونڈ کا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 12 فی صد ہے۔یہ خسارہ کس طرح ختم کرنا چاہیے اس پر دونوں جماعتوں میں شدید اختلاف ہے۔یورپ کے معاملہ پر بھی دونوں جماعتوں کا موقف مختلف ہے۔پھر لبرل ڈیموکریٹس انتخابی اصلاحات اور متناسب نمایندگی کا طریقہ اختیار کرنے پر اٹل تھے اور اسی پر سارا داو لگا دیا تھا۔گو 650 اراکین کے دارالعوام میں لبرل ڈیموکریٹس نے صرف 57 نشستیں حاصل کی ہیں،لیکن اسے اس لحاظ سے بادشاہ ساز پارٹی ہونے کی حیثیت حاصل ہے کہ لیبر اور ٹوری پارٹی دونوں لبرل ڈیموکریٹس کی حمایت کے بغیر اکثریتی حکومت تشکیل نہیں کر سکتیں۔لبرل ڈیموکریٹس کو اس کا پورا احساس تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اقتدار میں شراکت اور اپنے دیرینہ مطالبات منوانے کا یہ زرین موقع ہاتھ سے گنوا دیا جائے۔ 
دوسری طرف ٹوری پارٹی کے لیے بھی 13 سال تک اقتدار سے محروم رہنے کے بعد ایوان اقتدار میں واپس لوٹنے کا بہترین موقع تھا۔یہی وجہ ہے کہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے دونوں جماعتیں سخت بے تاب تھیں۔اس دوران لیبر پارٹی نے جال ڈالا اور لبرل ڈیموکرٹس کے بہت سے مطالبات تسلیم کرنے کا عندیہ دیا اور مذاکرات بھی شروع ہوئے، لیکن یہ بار آور ثابت نہیں ہوئے۔ایک تو خود لیبر پارٹی کے سینیر رہنماوں کی طرف سے لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کی سخت مخالفت کی گئی،دوسرے لبرل ڈیموکریٹس نے بھی یہ محسوس کیا کہ اگر انہوں نے ہاری ہوئی لیبر پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تو لوگ یہی کہیں گے کہ یہ دونوں شکست خوردہ جماعتوں کی حکومت ہے۔جس کی عوام میں معتبری نہیں رہے گی۔ پھر دونوں جماعتوں کو دارالعوام میں اکثریت حاصل نہ ہو سکتی۔
لیبر کے 258 اور لبرل ڈیموکریٹس کے 57 اراکین کی کل ملا کر صرف 315 اراکین بنتے۔اکثریت حاصل کرنے کے لیے انہیں اسکاٹ لینڈ اور ویلز کی قوم پرست جماعتوں کا سہارا لینا پڑا چنانچہ لبرل ڈیموکریٹس نے بالآخر ٹوری پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا،جسے 362 اراکین کی اکثریت حاصل ہے۔ٹوری پارٹی کے رہنما ڈیوڈ کیمرون اور لبرل ڈیموکریٹس کے قائد نک کلیگ دونوں کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اہم مسایل پر اتنے سخت اختلافات ہیں کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ مخلوط حکومت دیرپا ثابت نہ ہو پائے۔یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان جو سمجھوتہ ہوا ہے،اس میں اس بات کی بھر پور کوشش کی گئی ہے کہ تمام اہم امور پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت ہو اور پھر ٹوری پارٹی نے مخلوط حکومت میں لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما نک کلیگ کو نایب وزیر اعظم کا عہدہ دینے کے ساتھ کابینہ میں لبرل ڈیموکریٹس کو چار اہم وزارتیں تفویض کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ 
مخلوط حکومت کو دیرپا بنانے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی پانچ سال کی مقررہ معیاد ہو گی اور ابھی سے اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا تعین کر دیا گیا ہے۔7 مئی 2015ء۔مقصد اس غیر معمولی فیصلہ کا یہ ہے کہ اس دوران کوئی جماعت حکومت گرانے کی کوشش نہ کر سکے۔اقتدار میں شراکت کے علاوہ لبرل ڈیموکریٹس کو مخلوط حکومت کے بارے میں سمجھوتہ کے سلسلہ میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی ہے کہ اس نے انتخابی اصلاحات کے بارے میں اپنا دیرینہ مطالبہ منوا لیا ہے اور ٹوری پارٹی شدید مخالفت کے باوجود متناسب نمایندگی کے طریقہ انتخاب پر ریفرنڈم منعقد کرانے پر راضی ہو گئی ہے۔
لیبر اور ٹوری پارٹی دونوں موجودہ طریقہ انتخاب میں تبدیلی کے سخت خلاف ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ طریقہ ان کے حق میں جاتا ہے جب کہ لبرل ڈیموکریٹس کا استدلال ہے کہ موجودہ طریقہ انتخاب غیر منصفانہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں اسے 26 فی صد ووٹ ملے،لیکن نشستیں اس مناسبت سے حاصل نہیں ہوئیں۔صرف 57 نشستیں ملیں۔ان انتخابات میں جہاں لیبر پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے،وہاں ٹوری پارٹی کا بھی ایک اکثریتی جماعت کی حیثیت سے فتح حاصل کرنے کا بھی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
تاہم برطانیہ کے مسلمانوں کے لیے یہ انتخابات نہایت خوش آئیند ثابت ہوئے ہیں۔اس بار مسلم اراکین پارلیمنٹ کی تعداد دوگنی ہوئی ہے،جن میں پہلی بار تین مسلم خواتین منتخب ہوئی ہیں۔اس بار منتخب ہونے والے آٹھ مسلم اراکین میں تین ٹوری پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔اور پہلی بار ایک مسلم خاتون کو ٹوری پارٹی کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا ہے جو کابینہ کا اجلاس میں شریک ہوں گی۔یہ 39 سالہ سعیدہ وارثی ہیں،جن کے والدین کا تعلق پاکستان میں گوجر خان سے ہے۔ سعیدہ وارثی نے 2005ء میں ڈیوز برسی سے دارالعوام کے لیے عام انتخابات لڑے تھے،لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔البتہ انہیں دارالامرا کا رکن مقرر کیا گیا اور ڈیوڈ کیمرون نے انہیں پچھلے سال ٹوری پارٹی کی نایب چیئرپرسن کے عہدہ پر مقرر کیا تھا اور اب وہ پارٹی کی چیئرپرسن مقرر ہوئی ہیں۔


خبر کا کوڈ : 25848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش