0
Monday 27 May 2013 22:41

طالبان سے مذاکرات، دہشتگردوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کی پالیسی

طالبان سے مذاکرات، دہشتگردوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کی پالیسی
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے جب سے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا ہے پاکستان اس وقت سے مختلف محاذوں پر اپنے آپ سے جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ صرف اْس کی روح کے لیے ہی نہیں بلکہ وجود کے لیے بھی خطرناک ہے، لیکن جب یہ تعین نہ ہوسکے کہ دشمن کون ہے اور خوف ہو کہ لڑے تو مفلوج ہوجائیں گے، سمجھو آدھی جنگ ہاری جاچکی۔ حالیہ انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کی یہی صورت حال ہے۔ مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں حقیقت میں ہتھیار پھینکنے کے معاہدے پر دستخط کے مترادف ہیں۔ کمزور سیاسی قیادت اپنے لیے سلامتی کی خریدار ہے، رہے عوام تو انہیں دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے تحریکِ طالبان پاکستان سے غیر مشروط بات چیت کی حمایت کے اعلان کو ہفتہ بھر بھی نہیں ہوا تھا کہ دہشت گردوں نے دوبارہ آگ و خون کا کھیل شروع کر دیا۔ کراچی میں نہایت شدید دھماکے سے پوری رہائشی عمارت اڑا دی گئی، ان گنت مردوں، عورتوں اور بچوں کو قہر کا نشانہ بنانے والے، کسی نے بھی اس بربریت کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن قدموں کے نشانات تحریکِ طالبان پاکستان اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے ذمہ دار گروہوں کی طرف جا رہے تھے۔ یہ واضح ہے کہ اب بھی ان کی طرف مفاہمت کے قدم بڑھے تو یہ نہ صرف اور مزید بے گناہوں کی زندگیوں پر موت کا نشان لگائیں گے بلکہ اس سے ملک کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے گا۔ 

ان کانفرنسز نے نہ صرف نام نہاد امن مذاکرات کے لیے طالبان کی پیش کردہ شرائط پر اتفاق کیا بلکہ قتل اور غارت گری کے ذمہ داروں کے لیے لفظ "دہشتگردی" کو ہی (قرارداد سے) خارج کر دیا۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہزاروں انسانوں کے قتل کو "لاقانونیت" میں تبدیل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی خودکش حملوں اور ان سکیورٹی اہلکاروں کے سرقلم کئے جانے کو بھی "ہضم" کر لیا گیا، جن کی ذمہ داری وہ خود قبول کرتے رہے وہ بھی علی الاعلانیہ۔ اس سے زیادہ کوئی اور احمقانہ بات کیا ہوسکتی ہے کہ عسکریت پسند تشدد کا سارا معاملہ سمیٹ کر، اسے صرف طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی کا نام دے دیا جائے۔ لیکن امن کے لیے نون لیگ، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی قرارداد نے قرار دیا کہ دونوں کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ 

افواج پاکستان اور عوامی طبقات اس بات پر یقین ہے کہ اس حقیقت کو پس پشت ڈال کر مذاکرات نہیں کیے جاسکتے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے اتحادیوں نے ریاستِ پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ سیاسی قیادت کے بیانات اور طالبان کی جانب جھکاو سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف فاٹا میں جاری فوجی آپریشن سے خود کو دور کرلیا ہے۔ لیکن اس کے بالکل برعکس اب تک ہزاروں فوجی اْن عسکریت پسند قوتوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کرچکے ہیں کیونکہ دہشت گردوں نے نہ صرف علاقے کو دہشت گردی کا ایک نیا مرکز بنا کر پورے ملک بلکہ خطّے کی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

اس سے بڑی غداری کیا ہوگی کہ مملکت پاکستان کے خلاف انڈیا اور امریکہ کی طرف سے پشت پناہی کے ساتھ منظم سرکشی اور اس کے اْن ذمہ داروں کو تسلیم کرلیا جائے، جو ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل ہیں۔ اس بات پر کوئی حیرانی نہیں کہ طالبان نے سیاسی قائدین کی جانب سے ایسے مذاکرات کا خیر مقدم کیا، جن میں فوج کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، جو درحقیقت اْن طالبان کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ ملک اس وقت شدید دہشت گردی کے خطرات سے نبرد آزما ہے اور ان حالات میں سبکدوش ہونے والی حکومت کیطرف سے عسکریت پسندوں سے نہ لڑنے کے ارادے نے بہت بڑے پیمانے پر ابہام پیدا کیا تھا۔ ماضی میں اگرچہ حکومت کی طرف سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری کئے جانے والے اعلامیہ کی رسمی منظوری تو نہیں دی گئی تھی، تاہم اْس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی طرف سے کانفرنس میں شرکت اس بات کی خاموش رضامندی تھی کہ وہ "امن مذاکرات" کی حمایت کرتی ہیں۔

کوئی بھی طالبان کے دفاع میں جے یو آئی (ف) اور دیگر دائیں بازو کی اسلامی جماعتوں کا موقف باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ انہوں نے ہی اس ملک میں عسکریت پسندی کی آوازیں عام کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے اس اعلامیہ کی حمایت کسی دھچکے سے کم نہ تھی۔ اگرچہ فوجی قیادت کی طرف سے ردِعمل نہ ہونے کے باعث مذاکرات تو شروع نہ ہوسکے، تاہم نظر یہ آتا ہے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے سکیورٹی ایجنسیز کے اقدامات پر برا اثر پڑا ہے۔ امن مذاکرات کی پیشکش کے بعد کراچی، پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ان کی سخت گیری اور بےرحمی کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور ان فرقہ وارانہ تنطیموں میں گٹھ جوڑ ہے جو پورے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شیعوں کے قتل کی ذمہ دار ہیں۔ 

طالبان نے نواز شریف اور سید منور حسن سے ضمانت طلب کی تھی، نواز شریف اس وقت وہ ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہیں اور ضمانت دینے کے لیے تیار بھی ہیں۔ اس طرح کی ضمانتیں یقینی طور پر ناقابلِ عمل ہیں۔ تاہم یہ عسکریت پسندوں کو ایک موقع ضرور فراہم کرتی ہیں کہ اس دوران وہ خود کو مزید توانا کرلیں۔ عسکریت پسندوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی پی کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی، بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ تینوں جے یو آئی (ف) کی کْل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کرنے والی جماعتیں ہیں۔ بلاشبہ، اے این پی خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کی پْرتشدد کارروائیوں سے بْری طرح متاثر ہوئی ہے، حقیقت میں مفاہمت کے ذریعے سلامتی حاصل کرنے کی یہ کوشش قابلِ عمل نہیں۔ اس کے بجائے، اِس عمل سے مزید عدم تحفظ پھیلے گا۔ طالبان اور ان کے اتحادی نام نہاد امن مذاکرات جیسے طریقوں سے اپنے لیے مزید وقت حاصل کرکے خود کو مستحکم اور دیگر علاقوں تک پھیلانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔

امن مذاکرات کا کوئی امکان نہیں، البتہ اس طرح سے سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان خلیج مزید بڑھے گی، جس کے تباہ کْن اور بھیانک اثرات دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف پاکستان کی جنگ پر مرتب ہوں گے، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ سکیورٹی فورسز سیاسی پشت پناہی کے بغیر، دشمن سے لڑ نہیں سکتی ہیں۔ نون لیگ اور تحریک انصاف کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے شور کی وجہ سے عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موثر حکمتِ عملی کی تشکیل میں، سیاسی اور فوجی قیادت تقسیم ہے۔ 
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں، جو بلا خوف و خطر آگے بڑھ سکتی ہیں مگر وہ بھی ہتھیار ڈالنے کی پالیسی پر چل پڑی ہیں۔ ہم کہہ سکتے کہ عسکریت پسندی کے خلاف مقتدر قوتوں کے متضاد جذبات اور شدت پسندی کے ذرائع نے اس وقت (دہشتگردی کے خلاف) پالیسی سازی کے عمل کو مفلوج کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کے سبب عسکریت اور شدت پسندی کی لعنت سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے قومی سطح پر متفقہ رائے عامہ کے قیام میں ناکامی کا سامنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 268061
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش