0
Tuesday 21 May 2013 23:49

طالبان کیساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں گے؟

طالبان کیساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں گے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور مستقبل کے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات بہترین آپشن ہے۔ ہمیں ان کی مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، طالبان سے بیٹھ کر بات کیوں نہ کی جائے۔ بندوق اور گولی سے مسائل حل نہیں ہوسکتے، پاکستان نے اب تک دہشت گردی کی جنگ میں چالیس ہزار جانوں کی قربانی دی ہے۔ (چیف آف آرمی اسٹاف کے مطابق دہشت گردی کی جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے) اب اگر طالبان مذاکرات کی پیشکش کر رہے ہیں تو ہمیں اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔

انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کو کھلے دل سے تسلیم کرکے کے پی کے اور سندھ میں جیتنے والی جماعتوں کے حکومت بنانے کے حق کی تائید کی اور بالخصوص پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو پیشکش کی کہ وہ کراچی کا امن واپس لانے کیلئے سندھ میں حکومت تشکیل دینے کے بعد وفاق سے جس قسم کے تعاون کی اپیل کریں گے، وفاقی حکومت مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ مگر اس کیلئے انہیں سندھ میں امن و امان کی حالت بہتر بنانا ہوگی۔ گڈ گورننس کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بالخصوص کراچی میں امن کی بحالی یقینی بنانا ہوگی۔ نواز شریف نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی کوئی تاریخ نہ دیتے ہوئے اسے بہت بڑا جن قرار دیا جسے بوتل میں بند کرنے کیلئے سخت پاپڑ بیلنے کی ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ اس عفریت سے نجات دلانے کیلئے سب سے پہلے 500 ارب کے لگ بھگ گردشی قرضے کی لعنت کو ختم کرنا ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر کے خطاب کو اندرون و بیرون ملک بڑی توجہ سے سنا گیا اور اس پر تبصرہ نگاروں کی آراء ہیں کہ ملک کے آئندہ وزیراعظم کا بیان معتدل اور پرمغز تھا، جس میں پاکستان کو درپیش اہم مسائل پر اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے خدوخال بیان کئے گئے، جس میں خاص طور پر دہشت گردی کو پاکستانی معیشت کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا، ان کے نزدیک اقتصادی بدحالی دور کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ ملک کو دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے نجات دلائی جائے، اس کیلئے انہوں نے برملا طور پر طالبان سے مذاکرات کی اہمیت کو اولیت دینے کا اظہار کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ان کے آئندہ حکومت کے ایجنڈے کا بنیادی نکتہ ہے، جسے وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ناگزیر خیال کرتے ہیں۔

بحیثیت ایک صنعتکار اور معیشت دان کے نواز شریف اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان کو معاشی مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے بیرونی دنیا سے امداد کا حصول فی الوقت مشکل مرحلہ ہوگا، اس کیلئے پاکستان کی نئی حکومت کو اپنی حکمت عملی کے تحت وسائل پیدا کرنا ہوں گے۔ گذشتہ دور حکومت میں ’’فرینڈز آف پاکستان‘‘ کی سرد مہری نے ہمیں آڑے وقت میں کوئی سہارا فراہم نہیں کیا تھا، اسی لئے زرداری حکومت نے غیر ملکی و اندرون ملک قرضوں پر زور رکھا، جو آج ایک پہاڑ بنے آنے والی حکومت کیلئے سب سے بڑا امتحان ہوں گے۔ 16 ہزار ارب کے قرضے کوئی معمولی بات نہیں، خاص طور پر ایک ایسے ملک کیلئے جہاں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ سے معاشی سرگرمیوں کا پہیہ جام ہے، کاروبار بند اور بے روزگاری بال کھولے سو رہی ہے۔ اس زبوں حال معیشت کی بحالی کار آسان نہیں۔

اس جوکھم کو اٹھانے کیلئے نواز شریف کو اندرون ملک حالات کو معمول پر لا کر امن کی بحالی کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پڑوسی ممالک اور خطے میں سرگرم بیرونی قوتوں کیساتھ اعتماد سازی کو فروغ دینا پڑے گا۔ خاص طور پر افغانستان، سعودی عرب اور بھارت کیساتھ باہمی اعتماد سازی کے ذریعے قیام امن کیلئے کوششیں کرنا ہوں گی۔ اسی لئے نواز شریف نے خطے میں امن کو لاحق خطرات کی نشاندہی کر لی ہے اور طالبان کیساتھ مذاکرات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں بات چیت کے لئے میز پر لانے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ شنید ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے عمل کو عسکری ادارے کی حمایت بھی حاصل ہے، اس ضمن میں انہوں نے طالبان میں اثر و رسوخ کی حامل ان شخصیات سے رابطے بھی کر لئے ہیں، جن کے بقول طالبان انہیں ’’باپ‘‘ کا درجہ دیتے ہیں۔

ایسے طالبان قائدین جو پاکستان میں مقیم ہیں ان کا اپنے شاگردوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں سے نہ روکنا فہم سے بالاتر ہے۔ انہی لوگوں کے ناقدین کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر اپنے زیراثر طالبان کو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی وارداتوں سے روکنے میں کیوں ناکام رہے۔ ان کا پاکستان میں بم دھماکوں، دہشت گردی کی وارداتوں کے ارتکاب پر خاموش رہنا چہ معنی دارد۔۔۔ آج اگر نواز شریف ان لوگوں کی مدد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرح ڈالتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ طالبان ان مذاکرات میں ایسی کڑی شرائط نہیں رکھیں گے جو حکومت کے لئے تسلیم کرنا مشکل ہو جائے۔ سوات امن معاہدہ طے پانے کے باوجود بھی ان لوگوں نے اس کی پابندی نہ کرکے فوج کو آخری اقدام پر مجبور کر دیا تھا، پاکستان میں مختلف الخیال لوگوں کی رائے میں طالبان کے ساتھ حکومتی سطح پر مذاکرات کا آغاز قانون شکن اور دستور پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والوں کو برابری کی حیثیت دینے کے مترادف ہوگا، جو اپنے علاقے میں حکومتی رٹ کے لئے مسلسل چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ بھی اپنی اس پیشکش میں سنجیدہ ہیں؟ اسے جانچنے کیلئے سیدھے سبھاؤ انہیں 90 دن تک ہر قسم کی عسکری کارروائیوں سے باز رہ کر پرامن ماحول برقرار رکھنے پر آمادہ کرنا چاہئے۔ اگر نواز شریف حکومت کے پہلے سو دن میں دہشت گرد عناصر اپنے رویے سے ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کی امن کی خواہش سچی اور وہ قیام امن کیلئے مخلص اور سنجیدہ ہیں تو پھر ان سے مذاکرات کرنے میں کوئی ہرج نہیں، وگرنہ پچاس ہزار انسانی جانوں کے خون کا سودا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکہ کو 2014ء میں افغانستان سے انخلاء کیلئے اپنے مقصد کے تحت پاکستان میں امن درکار ہے، جبکہ اس کے حریف اسے آسانی سے نکلنے دینے کے حق میں نہیں۔

ان حالات میں پاکستان ہر طرف سے سخت دباؤ میں ہے۔ فوج اور سول حکومت کو اس بحران سے نکلنے کے لئے آبرومندانہ حل تلاش کرنا ہوگا، جو یقیناً سخت آزمائش کا کڑا مرحلہ ہے۔ پاکستان کے فیصلہ ساز اس امتحان سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں، اس کے لئے ہمیں اگلی حکومت کے طرز عمل کا انتظار کرنا ہوگا، جب وہ پاکستانی شاہرات کو امریکی ساز و سامان کی واپسی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنے کے پالیسی وضع کرے گی۔ عالمی تناظر میں پاکستان میں قیام امن کی اہمیت دوچند ہے، کیونکہ خطے میں وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دیگر ریاستوں کے نزدیک پاکستان کے اندرونی امن کی بحالی پورے خطے کے حالات معمول پر رکھنے کے لئے ناگزیر ہے۔
خبر کا کوڈ : 266175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش