0
Friday 11 Jun 2010 07:39

ایران مخالف قرارداد ایک تاریخی غلطی

ایران مخالف قرارداد ایک تاریخی غلطی
 آر اے سید
جن ملکوں نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی قرارداد کی حمایت کی ہے،ایران کے عوام بہرحال ان سے حساب لیں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف سلامتی کونسل میں امریکہ کے پیش کردہ مسودہ قرارداد کی منظوری پر ایران کے حکام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے ایران مخالف یہ قرارداد ایک ایسے وقت پاس ہوئي،جب امریکہ نے اپنے ہم خیال ملکوں کےساتھ مل کر اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ مکمل اتفاق رائے سے یہ قرارداد پاس کی جائے،مگر وہ اپنے اس مقصد میں ناکام رہے۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ سلامتی کونسل کی ایران مخالف قرارداد کی اہمیت کاغذ کے چند ٹکڑوں سے زیادہ اور کچھ نہيں ہے۔انھوں نے کہا کہ اس قرارداد کی ایران کے عوام کے نزدیک کوئی اہمیت نہيں ہے۔صدر ڈاکٹر احمدی نژاد نے جو تاجیکستان کے اپنے دورے میں نامہ نگاروں سے گفتگو کر رہے تھے،کہا کہ ملت ایران پر اس کا کوئی اثر نہيں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ آج کا سیاسی میدان دھوکہ و فریب کے میدان میں تبدیل ہو گیا ہے،جہاں انسانیت اور برادری کی کوئی وقعت نہيں ہے۔صدر احمدی نژاد نے سلامتی کونسل کے اس غیرقانونی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ کونسل اپنی تباہی کی سمت بڑھ رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ منوچہر متکی نے بھی جو آئرلینڈ کے دورے پر ہيں،ڈبلن میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کے اس طرح کے اقدامات بہت ہی غلط ہيں وہ اپنے ان اقدامات سے مغرب پر دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری سعید جلیلی نے کہا کہ اقوام کے حقوق کے سلسلے میں محاذ آرائی کا راستہ ناکام اور شکست خوردہ راستہ ہے،جس کی کوئي منزل نہيں ہے۔سعید جلیلی نے کہا کہ ایران نے ایٹمی معاملے کے حوالے سے جو پیکج دو سال پہلے پیش کیا تھا،وہ معاملے کے حل کے لئے سب سے بہترین راستہ تھا،اور اگر مقابل فریق اس سلسلے میں منطقی راستہ اپناتا تو عالمی مسائل کے حل کے لئے مناسب موقع ہاتھ آسکتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ تہران ڈکلریشن بھی اسی سلسلے میں ایک اہم قدم تھا اور اس میں باہمی تعاون کے راستوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومتیں امن و مفاہمت کا راستہ اپنائيں گی، تو ایسے میں باہمی تعاون اور ترقی کا راستہ بھی ہموار ہو گا اور چونکہ ایران نے جو تجاویز دی ہیں،وہ منطقی ہيں اور عالمی مسائل کے حل کے لئے اس میں متعدد راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے،اسی لئے دنیا کے بیشتر ممالک منجملہ ناوابستہ تحریک کے ایک سو اٹھارہ ملکوں اور او آئی سی کے ستاون ملکوں نے اس کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مندوب محمد خزاعی نے بھی کہا کہ ایران مخالف جو قرارداد پاس کي گئي ہے وہ ایک تاریخی غلطی ہے،انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اقدامات اور اس کی کارکردگي اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہمیں ابھی بھی ایک بین الاقوامی غیر منصفانہ اور تفریق آمیز نظام کا سامنا ہے،جس پر تسلط پسند طاقتوں کا ہی غلبہ ہے۔انھوں نےسلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے ظالمانہ اور دوہرے معیار کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔انھوں نے ایران پر مسلط کی گئي آٹھ سالہ جنگ کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے صدام کی فوج کو کمیاوی ہتھیاروں کی فراہمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،جن کے استعمال سے حلبچہ سمیت مختلف علاقوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کو سیکنڈوں میں موت کی نیند سلا دیا گيا تھا،کہا کہ جن ملکوں نے اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کی تباہی و قتل عام کا ارتکاب کیا ہو،وہ ایک آزاد و خودمختار ملک کو اس کے مسلمہ حقوق سے کیسے محروم کر سکتے ہيں؟
ایران کے مندوب نے سلامتی کونسل میں ایران مخالف قرارداد پاس ہونے کے بعد اپنے ردعمل میں کہا کہ سلامتی کونسل کے ذریعہ دوہرے معیار کا بے انتہا استعمال سرانجام ایک دن اپنے اختتام کو پہنچے گا۔اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے کہا کہ جن ملکوں نے یہ قرارداد پیش کی ہے اور جنھوں نے اس کی حمایت کی ہے ان سب سے ملت ایران اپنا حساب لے گی۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کل کے اجلاس میں جو ایک گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا،اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد پر برزیل،ترکی اور لبنان کی سخت مخالفت کی وجہ سے ووٹنگ کے لئے پیش کی گئی اس قرارداد کے حق ميں بارہ ووٹ جبکہ اس کی مخالفت میں دو ووٹ پڑے اور لبنان نے رائے شماری میں حصہ نہيں لیا۔اس قرارداد کو پاس کرانے میں سب سے دلچسپ بات مکمل اتفاق رائےحاصل کرنے میں مغرب کی ناکامی تھی۔چنانچہ برزیل اور ترکی نے کھل کر امریکہ کی اس قرارداد کی مخالفت کی۔لبنان نے بھی جو سلامتی کونسل کا ایک غیرمستقل رکن ہے،ایران مخالف اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہيں لیا۔برزیل کی خاتون نمائندہ نے اس اجلاس کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ اور مغرب کی تجویز کردہ قرارداد کی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔برزیل کی نمائندہ نے کہا کہ ان کے ملک کو اس بات پر بہت ہی دکھ ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان نے تہران کے سہ فریقی اعلامئے کو نظرانداز کیا ہے۔
ترکی کے نمائندے نے بھی اپنے بیان میں صہیونی حکومت کے خوفناک ایٹمی ہتھیاروں کے گوداموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہيں چاہتے کہ مشرق وسطی میں کسی بھی حکومت کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہوں،ترکی کے نمائندے نے کہا کہ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ ایران کے ایٹمی معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ یورینیم کے تبادلے سے سفارتکاری کے لئے نئے مواقع فراہم ہوں گے۔
اس درمیان جو سب سے دلچسپ بات دیکھنے میں آئي یہ تھی کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ایران کے خلاف جو ووٹ دیا اس کی توقع پہلے سے ہی کی جا رہی تھی،مگر یورپ کے قلب میں واقع مسلم ریاست بوسنیا ہرزہ گوئینا نے جس کی آزادی کے بعد سے ہی ایران نے سب سے زیادہ اس کی حمایت کی ہے اور اس ملک کی خانہ جنگی کے دوران ایران وہ واحد ملک تھا،جس نے عالمی اداروں میں بوسنیا میں انسانی قتل عام کے واقعات اور سامراجی قوتوں کی ایماء پر صربوں کے ہاتھوں نسلی صفائي کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھائی تھی،آج اسی بوسنیا نے سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف ووٹ دیا۔ایران کے خلاف ووٹ دینے والوں میں افریقی ملک یوگینڈا اور گابن بھی شامل تھے۔
بنابریں جیسا کہ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ جن ملکوں نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی قرارداد کی حمایت کی ہے،ایران کے عوام بہرحال ان سے حساب لیں گے۔ دوسری طرف ترکی کے وزیرا‏عظم رجب طیب اردوغان نے ایران مخالف قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی غلطی قرار دیا۔رجب طیب اردوغان نے ترکی کے ٹیلی ویژن چینل پر اپنی براہ راست گفتگو میں کہا کہ ترکی کبھی بھی دوسروں کی اس طرح کی غلطی میں شامل نہیں ہو گا۔انھوں نے کہا کہ اگر ہم ایران کے خلاف ووٹ ڈالتے تو تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہ کرتی۔ترک وزیراعظم نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ امریکہ کی تجویز کردہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا مطلب یہ تھا،کہ ہم اپنا انکار خود ہی کر لیتے۔انھوں نے ویانا گروپ اور آئی اے ای اے کی طرف سے تہران کے سہ فریقی اعلامیے کو نظرانداز کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے ایجنسی کو خط بھی لکھا،پھر بھی فریق مقابل کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہيں دیا گيا۔ترک وزیراعظم نے کہا کہ ان تمام باتوں کے باوجود بھی ان کا ملک ایران کے ایٹمی معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھے گا۔
خبر کا کوڈ : 28060
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش