0
Tuesday 15 Jun 2010 11:53

کوئٹہ میں غیرملکی باشندوں کی پراسرار سرگرمیاں،یہ پاک ایران تعلقات خراب کرنے کی سازش تو نہیں؟

کوئٹہ میں غیرملکی باشندوں کی پراسرار سرگرمیاں،یہ پاک ایران تعلقات خراب کرنے کی سازش تو نہیں؟
غیر ملکی باشندوں نے اپنے ’’اپریشنز‘‘ کیلئے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے پوش علاقوں میں کئی گھر کرائے پر لے لئے ہیں،اس سلسلہ میں قابل اعتماد ذرائع نے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ یہ غیرملکی افراد مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں،تاہم وہ ’’لو پروفائل‘‘ پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ان غیرملکیوں نے چمن ہائوسنگ سکیم، سیٹلائٹ ٹائون اور انکے مضافاتی علاقوں میں رہائش گاہیں کرائے پر لی ہوئی ہیں جبکہ گزشتہ چند ہفتے کے دوران ان غیر ملکیوں کی جانب سے کرائے پر گھر حاصل کرنے کے عمل میں تیزی آگئی ہے اور انکی رہائش گاہوں کی قلعہ بندی اور باڑ کے ساتھ ساتھ وہاں سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور نگرانی کا نظام بھی قائم ہے۔
 اس سلسلہ میں باخبر بلوچ ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان غیرملکیوں میں امریکی باشندوں کی تعداد زیادہ ہے،جن کی بلوچستان میں موجودگی کا مقصد کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کے حوالے سے خوف کے خاتمے،ایران کی مانیٹرنگ اور پاکستانی سرحد کے قریب افغان علاقوں میں اپریشن کیلئے اپنی فورسز سے ٹیکنیکل روابط قائم کرنا بھی ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے سینئر رہنماء حافظ حسین احمد نے بھی کوئٹہ میں غیرملکیوں کی موجودگی اور کرائے پر گھر لینے کی تصدیق کی ہے،جن کے بقول یہ لوگ بدنام زمانہ امریکی تنظیم بلیک واٹر کے ہو سکتے ہیں،انکے خیال میں امریکی انتظامیہ ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے متصل بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں اپنی یقینی موجودگی کی اس لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے بعد ایران امریکہ کیلئے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے جبکہ افغانستان میں بھی امریکہ کو طالبان کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
وزیر داخلہ خارجی رحمان ملک اگرچہ میڈیا اور اپوزیشن کو چیلنج دے کر یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر نامی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں ہے،وہ بلیک واٹر کی موجودگی ثابت ہونے پر اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کی بھی متعدد مواقع پر پیشکش کر چکے ہیں،تاہم حقائق و شواہد نہ صرف بلیک واٹر کے ارکان کی پاکستان کے مختلف حساس علاقوں میں موجودگی کی گواہی دے رہے ہیں،بلکہ اسلام آباد،لاہور،پشاور اور کراچی میں انکی مذموم سرگرمیاں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ممکن ہے رحمان ملک بلیک واٹر کے پاکستان میں موجود نہ ہونے کے بارے میں دعویٰ اس بنیاد پر کرتے ہوں کہ اس تنظیم نے اپنا نام تبدیل کر کے زی (ایکس ای) رکھ لیا ہے جبکہ اسکے مقاصد، کارکردگی اور کارروائیاں وہی ہیں جو بلیک واٹر کے نام پر افغانستان،عراق اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی روا رکھی جاتی رہی ہیں،جہاں انکے ظلم و بربریت کی داستانیں آج بھی زبان زد عام ہیں۔
امریکہ کا یہ نجی تحقیقاتی ادارہ اس خطہ میں امریکی مفادات کے تحفظ اور مقاصد کی تکمیل کیلئے ہی سرگرم عمل ہے،جس کے ارکان کو بالخصوص ہمارے ملک میں دندناتے پھرنے،حساس مقامات بالخصوص ایٹمی تنصیبات والے علاقوں کی جاسوسی کرنے،شہریوں کو خوفزدہ اور ہراساں کرنے اور وحشت و بربریت کا بازار گرم کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل اور پشاور کے ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں انکی پراسرار سرگرمیوں کے ردعمل میں ہی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں،جس کی تصدیق متذکرہ دونوں واقعات کی تحقیقاتی رپورٹوں میں بھی موجود ہے،اسی طرح لاہور کے ایک فائٹو سٹار ہوٹل میں بھی اس تنظیم سے متعلق امریکی باشندوں کی موجودگی تصدیق شدہ ہے،جو یہاں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث بھی پائے گئے۔مگر یہ جب بھی پولیس ناکوں پر قابو آتے ہیں تو اوپر سے موصول ہونیوالی ٹیلی فون کالز پر پولیس انہیں چھوڑنے اور کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہ لانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تو باقاعدہ اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے یہ امریکی باشندے دندناتے نظر آتے ہیں،دو ہفتے قبل انہوں نے ایڈیٹر ’’دی نیشن‘‘ ڈاکٹر شیریں مزاری کے شوہر کی گاڑی کو ٹکر مار کر زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی تھی جبکہ کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے دوران ان غیرملکی باشندوں کی موجودگی اور انکی پراسرار سرگرمیوں کی ایجنسیوں کے پاس رپورٹیں موجود ہیں۔
اس تناظر میں عین اس وقت جب ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول اور یورینیم کی افزودگی کے الزامات کے تحت یو این سلامتی کونسل نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں،جس پر ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے،ایران کی سرحدوں سے متصل بلوچستان میں غیرملکیوں بالخصوص امریکی باشندوں کی تعداد بڑھنا اور انکی پراسرار سرگرمیوں میں شدت پیدا ہونا ہماری سلامتی کے حوالے سے بھی انتہائی تشویشناک ہے۔اس سرحد کے نزدیک ایران کے علاقوں میں دہشت گردی کے بعض واقعات کے حوالے سے پہلے ہی ایران کی جانب سے ہمارے بارے میں بدگمانیوں کا اظہار کیا جا چکا ہے اور جنداللہ تنظیم کے عبدالمالک ریگی کی گرفتاری کے بعد اسکے بیان کی روشنی میں بمشکل تمام ایران کی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔تاہم اگر اب کوئٹہ میں موجود غیر ملکی باشندے اپنی پراسرار سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا کر ہماری سرزمین سے ایران کے اندر کوئی گل کھلاتے ہیں،جس کے بارے میں بلوچ ذرائع ابھی سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں،تو اس سے پاک ایران تعلقات میں پھر رخنہ پڑ سکتا ہے۔
اگرچہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کی گزشتہ روز تہران میں حتمی منظوری دی جا چکی ہے،جس کی تکمیل سے ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے،تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کوئٹہ میں مقیم غیرملکی باشندوں کی ایران میں کسی کارروائی سے پاکستان ایران تعلقات میں دراڑیں پیدا ہوئیں،تو اس صورتحال میں گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی متاثر ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ پاک ایران تعلقات خراب کرنے کیلئے ہی بلوچستان میں امریکی بلیک واٹر کی سرگرمیاں شروع کی گئی ہوں،تاکہ ایران کیخلاف افغانستان اور عراق جیسے کسی ایکشن میں پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ لی جا سکے۔
یہ صورتحال ہماری ملکی اور قومی سلامتی کے حوالے سے انتہائی سنگین ہو گی،اس خطہ میں امریکی مفادات کی جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کر کے ہم ملکی و قومی سلامتی کے حوالے سے پہلے ہی بہت کچھ کھو بیٹھے ہیں،اگر اب امریکہ ہماری سرزمین سے ایران کیخلاف بھی کوئی محاذ کھولتا ہے،جس کے ایران پر عائد کی گئی پابندیوں کے بعد واضح امکانات نظر آرہے ہیں تو اس سے ایک آزاد و خودمختار ملک ہونے کے ناطے ہمارا تشخص ہی خراب نہیں ہو گا،مسلم امہ کے اتحاد کیلئے پیدا ہونے والی سازگار فضا کو بھی دھچکا لگے گا۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ بالخصوص کوئٹہ میں مقیم غیرملکی باشندوں کی سرگرمیوں کی سختی سے مانیٹرنگ کی جائے،ان کی سرگرمیاں محدود کی جائیں اور اگر یہ ٹھوس شواہد موجود ہوں کہ وہ غیرقانونی طریقے سے بلوچستان میں مقیم ہیں اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن سے پاکستان کے مفادات اور سالمیت پر زد پڑ سکتی ہے،تو انہیں فی الفور ’’ڈی پورٹ‘‘ کر دیا جائے،کیونکہ ملکی سلامتی سے زیادہ ہمیں اور کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 28371
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش