0
Saturday 5 Oct 2013 23:59

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا مسئلہ، حزب اللہ لبنان کیخلاف صیہونی سازشیں

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا مسئلہ، حزب اللہ لبنان کیخلاف صیہونی سازشیں
تحریر: صابر کربلائی 
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان و ریسرچ سکالر)

حال ہی میں شام پر ہونے والا امریکی حملہ صرف اس بنیاد پر ترک کیا گیا ہے کہ روس نے کیمیائی ہتھیاروں کے عنوان سے ایک منصوبہ پیش کیا جس کو عالمی برادری نے قبول کرتے ہوئے امریکہ پر دباؤ ڈالا کہ امریکہ شام پر حملے کا ارادہ ترک کر دے۔ دراصل امریکہ کی جانب سے شام پر حملہ کرنے کے مقاصد کچھ اور ہی تھے۔ امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل اس بات کے خواہاں تھے کہ جلد از جلد شام پر امریکی فوجی یلغار کی جائے تا کہ خطے میں عالمی صیہونزم کے خلاف مزاحمت کا ایک ستون کم کیا جائے، مزاحمت کے ان چند ستونوں میں ایران، شام، لبنان سرفہرست ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ امریکہ کے شام پر حملے کا بنیادی ترین مقصد صرف اور صرف شام سے بشار الاسد حکومت کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین مقصد یہ تھا کہ لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو کمزور کیا جائے اور حزب اللہ کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے تا کہ مستقبل قریب میں اسرائیل مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک پر یلغار کرے تو حزب اللہ اس پوزیشن میں نہ رہے کہ وہ اسرائیل کا راستہ روک سکے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام کے حالات کو خراب کرنے اور پھر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سمیت شام پر امریکی فوجی یلغار کرنے کی منصوبہ بندی صرف اور صرف اس لئے کی گئی تھی کہ خطے میں ایک ناجائز اور غیر انسانی صیہونی ریاست اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ساتھ ساتھ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں حزب اللہ، جہاد اسلامی اور حماس کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے اور اس حوالے سے حزب اللہ امریکہ اور اسرائیل کے پہلے نشانے پر تھی۔
 
موجودہ حالات کے تناظر میں امریکہ ایک مقصد میں تو بہت بری طرح ناکام ہو چکا ہے کہ امریکہ کے ہاتھ سے وہ موقع نکل گیا ہے جس کے اس نے خواب دیکھ رکھے تھے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے شام پر ممکنہ جارحیت کو صرف اور صرف اس لئے ترک کر دیا ہے کہ امریکہ کو یہ خدشہ بھی لاحق ہو چکا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل حزب اللہ کو ختم کرنے ک منصوبہ بندی تو کر رہے ہیں اور اگر شام پر حملہ کر دیا تو کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ حزب اللہ اپنے اتحادی شام کے ساتھ مل کر اسرائیل کو ہی صفحہ ہستی سے نابود کر دے، تاہم امریکہ کو اسرائیل کی نابودی کا خوف تھا جس کے سبب امریکہ نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا اور شام پر امریکی حملے کو موخر کر دیا۔ 

امریکی حملہ تو شام پر موخر کر دیا ہے لیکن صیہونی غاصب ریاست اسرائیل اس کے حواریوں اور ان سب کے آقا امریکہ نے ایک اور پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شام نے اپنے کیمیائی ہتھیار لبنان میں منتقل کر دئیے ہیں کیونکہ روس اور امریکہ مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے کے بعد امریکہ کی شکست بڑی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی تاہم امریکہ اور اسرائیل جو پہلے روز سے ہی لبنان میں موجود قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطینیوں کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے خلاف میدان تیار کر رہے تھے اب براہ راست لبنان کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ کسی طرح حزب اللہ لبنان کو کمزور کیا جائے تا کہ جارح اور غیر انسانی صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف قائم مزاحمتی بلاک توڑا جا سکے۔ یہ مزاحمتی بلاک جو کہ ایران، شام اور لبنان میں موجود حزب اللہ پر مشتمل ہے اور فلسطینیوں کی مدد کو نہ صرف اپنی سیاسی ذمہ داری سمجھتا ہے بلکہ یہ مزاحمتی دھڑا فلسطین کی آزادی کو نظریاتی اور عقیدتی مسئلے کے طور پر سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مزاحمتی دھڑے نے فلسطینیوں اور فلسطین کو کبھی بھی فراموش نہیں ہونے دیا ہے۔ 

چند روز قبل ہی یعنی 23 ستمبر کو حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید المجاہدین سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیار نہ تو پہلے لبنان میں تھے اور نہ ہی آج لبنان کے پاس ہیں، حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہ شام کے کیمیاوی ہتھیار، حزب اللہ لبنان کے پاس ہیں، اس قسم کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حزب اللہ لبنان، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں دین اور شریعت کی پابند ہے، شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی لبنان منتقلی کا دعویٰ خطرناک نتائج کا حامل ہے اور یہ بات لبنان کے لئے خطرے کا باعث ہے۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کی وائرلیس سروس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کا وائرلیس سسٹم دوسرے افراد کی گفتگو سننے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے شام پر حملے کے خطرناک نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام پر حملے سے سب سے پہلے متاثر ہونے والا ملک لبنان ہوگا۔ 

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ شام میں تکفیری گروہوں کی موجودگی، لبنانی عوام، دیگر ممالک اور ملتوں کے لئے خطرے کا باعث ہے اور اس خطے کے بعض دوست ممالک نے دو سال قبل ہی انقرہ کو شام میں موجود مسلح دہشتگردوں کی جانب سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب اور ترکی کی حکومتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کریں۔ لبنان کے داخلی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی عوام ملک میں امن و سلامتی کی خاطر لبنان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ انہوں نے لبنان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سلسلے میں اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اپنے اصلی فریضے پر عمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ لبنان اس بات کے خلاف ہے کہ کوئی بھی گروہ یا قبیلہ، خود ٹیم بنا کر اپنے علاقے کی حفاطت کرے کیونکہ لبنانی عوام کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیروت کے علاقے الرویس میں ہونے والے دھماکے، شام میں موجود مسلح دہشتگردوں کی سازش کا نتیجہ تھے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ عالمی استمعار امریکہ اور اسرائیل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو کمزور کیا جائے اور حزب اللہ کو لبنان کے داخلی مسائل میں الجھا دیا جائے تاکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل محفوظ رہے اور فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہے جبکہ حزب اللہ پہلے ہی اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ حزب اللہ صیہونیوں سے فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروا کر ہی دم لے گی اور اس بات کو اسرائیل 1982ء سے اب تک بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکا ہے کہ حزب اللہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے کیونکہ اسرائیل نے اس بات کا مشاہدہ حزب اللہ کی جانب سے لبنان کو 2000ء میں اسرائیل کے شکنجے سے آزاد کروانے کی صورت میں دیکھا ہے، اسی طرح ایک مرتبہ پھر 2004ء میں دو اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے میں حزب اللہ نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کروایا تھا۔ پھر 2006ء میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو حزب اللہ کے مجاہدین فلسطین میں جہاد اسلامی فلسطین اور القسام بریگیڈ کے ساتھ شانہ بشانہ دیکھے گئے تھے۔
 
اس کے بعد اسرائیل کو حزب اللہ کی مزید طاقت کا اندازہ 2008ء میں اس وقت ہوا جب دنیا بھر کی طاقت اور اسلحہ حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن 33روز کی اس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کو تاریخی شکست کا مزہ چکھایا اور اسرائیل کو بھاری مالی و جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا، جبکہ حزب اللہ اس بات کے لئے آمادہ تھی کہ اسرائیل اس جنگ کو جب تک جاری رکھنا چاہتا ہے رکھے، یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ اور اسرائیل سمیت خطے کی عرب ریاستیں جو امریکہ کی دوست اور اسرائیل کی خیر خواہ ہیں وہ یہ چاہتی ہیں کہ حزب اللہ کو کمزور کر دیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے سب شیطانوں نے مل کر شام کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جسے اب شام کے بعد عراق میں اور اب براہ راست لبنان میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 308248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش