0
Wednesday 2 Oct 2013 17:20

کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی ویڈیوز صرف ایک بہانہ ہے

کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی ویڈیوز صرف ایک بہانہ ہے
اسلام ٹائمز۔ روس کے وزیر خارجہ نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ ماسکو کے پاس مزید شواہد آئے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ شام میں 21 اگست کو کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شامی فوج کی جانب سے نہیں بلکہ شامی باغیوں کی جانب سے کیا گیا تھا۔ پچھلے ہفتے روس نے امریکی وزیر خارجہ کو اس بارے میں شواہد فراہم کیے تھے۔ ان شواہد میں شام میں گذشتہ 20 برسوں سے مقیم ایک راہبہ کی جانب سے کی گئی تفتیش بھی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق مدر ایگنس دمشق کے شمال میں واقع کیتھلک چرچ سے وابستہ ہیں۔ وہ اصل میں لبنانی ہیں لیکن گذشتہ بیس برسوں سے شام میں رہائش پذیر ہیں۔ایک  نامہ نگار نے ان کو فون کیا اور درخواست کی کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے انٹرویو کیا جائے جو انہوں نے قبول کی۔ مدر ایگنس کا کہنا ہے کہ شامی باغیوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں مرد، عورتیں اور بچوں کی ہلاکت کا ڈھونگ رچایا تھا۔ مدر ایگنس کا کہنا ہے کہ جن ویڈیوز کو دیکھ کر دنیا بھر میں شور مچ گیا ہے ان ویڈیوز کا انہوں نے بھی بغور جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ یہ سارا ڈھونگ تھا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مختلف جگہوں پر بنی ہوئی ویڈیو میں ایک بچہ بار بار آ رہا ہے۔ اس بچے کی لاش کو مختلف جگہوں پر کیوں لے جایا گیا؟ میری جان یہ شواہد ہیں۔ میں کمیشن نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ سب نقلی تھا۔ میرے باس شواہد ہیں کہ لاشوں کو جگہ جگہ گھمایا گیا ہے۔ مدر ایگنس نے جو رپورٹ لکھی ہے اس میں کئی دعوے کیے گئے ہیں۔
1۔ غوطہ، جو دمشق کے مشرق میں واقع ہے جہاں کیمیائی حملہ کیا گیا، پہلے ہی سے خالی تھا تو پھر اتنی زیادہ ہلاکتیں کیسے ہوئیں؟
2۔ ان ویڈیوز میں اتنے سارے بچے دکھائے گئے ہیں لیکن ان کے والدین کی تصاویر نہیں ہیں؟
3۔ ان ویڈیوز میں عورتوں کی تعداد بہت کم کیوں تھی اور بہت سے لوگوں کی شناخت کیوں نہیں ہوسکی؟
4۔ ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے شواہد بہت کم کیوں تھے؟
مدر ایگنس نے اپنے سب سے زیادہ حیران کن انکشاف میں کہا کہ اصل میں ہلاک ہونے والے افراد کو علوی علاقے سے شامی باغیوں نے اغوا کیا تھا اور پھر ہلاک کردیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی افراد نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ویڈیوز میں دکھائے گئے بچے ان کے تھے۔ مدر ایگنس نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر بھیجی تھی۔
خبر کا کوڈ : 307490
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش