1
0
Saturday 23 Nov 2013 01:02

سانحہ راولپنڈی کے حقائق

سانحہ راولپنڈی کے حقائق
تحریر: قسور عباس برقعی

 میں گذشتہ بیس سالوں سے راولپنڈی کے جلوس عزا میں شریک ہو رہا ہوں، پہلی مرتبہ میں اس جلوس میں تب گیا جب میری عمر شاید پندرہ یا سولہ سال ہوگی۔ پھر کالج کا دور جس میں ہم نے اس جلوس میں رضاکار کے طور پر خدمات سر انجام دینا شروع کیں۔ میری زندگی میں راجہ بازار کے اس جلوس میں بھاگ دوڑ کا پہلا واقعہ 1995ء میں پیش آیا۔ اس وقت سکیورٹی اتنی سخت نہ ہوتی تھی۔ ہر خاص و عام کو جلوس میں آنے کی اجازت ہوتی تھی۔ بہت سے اہلسنت برادران اسی مدرسے تعلیم القرآن کے سامنے ہونے والی زنجیر زنی کو دیکھنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ یہ برادران اپنے خاص حلیے اور وضع قطع کے سبب آسانی سے پہچانے جا سکتے تھے۔

1995ء میں ہم عاشور کے جلوس میں رضاکار کے فرائض انجام دے رہے تھے کہ یکا یک لوگوں نے زنجیر زنی کے مقام سے پیچھے کی جانب دوڑنا شروع کر دیا۔ جلوس میں چونکہ بچے، خواتین، بزرگ اور ضعیف افراد کی بھی خاصی تعداد تھی، لہذا بہت سے افراد اس پہلی بھگدڑ کے دوران کچلے گئے۔ بچوں کی چیخ و پکار، خواتین کی آہ و بکا، سڑک پر گرے ہوئے بزرگ۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے، لوگ اچانک کیوں بھاگ پڑے۔ جب ہم زنجیر زنی کے مقام پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ اہلسنت برادران جو زنجیر زنی دیکھنے آئے ہیں، جب اچانک خون نکلتا دیکھتے ہیں یا کسی زنجیر زن کی یاحسین کی آواز کو سنتے ہیں تو گھبرا کر دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی ایک فرد کے دوڑنے سے بہت سے دیگر افراد اس کی دیکھا دیکھی یہی عمل دہراتے ہیں اور یوں یہ عمل فوراہ چوک تک چلا جاتا ہے۔ یہ معاملہ انتہائی خطرناک تھا۔ جلوس جس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، میں یوں بھگدڑ مچنا انتہائی نقصان دہ ہوسکتا تھا۔

سالہا سال یہ جلوس اسی مقام سے گزرتا رہا، بھگدڑ کے واقعات اور ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر جلوس کی سکیورٹی سخت تر ہوتی گئی۔ راجہ بازار کی گلیاں جو اس جلوس سے متصل ہوتی تھیں، ان کو آہستہ آہستہ خار دار تاروں کے ذریعے بند کیا جانے لگا۔ یوں اہل سنت برادران اب زنجیر زنی کے مشاہدے کے لیے خار دار تاروں کے پیچھے ہوتے۔ راجہ بازار کی عمارتوں کی چھتوں پر پولیس کے چاک و چوبند سپاہی ہر وقت موجود ہوتے، کسی بھی شخص کو کسی بھی عمارت کی چھت پر چڑھنے کی اجازت نہ ہوتی۔ لاؤڈ اسپیکر پر صرف اذان کی آواز بلند ہوتی، جس کے دوران میں جلوس میں ماتم اور نوحہ خوانی روک دی جاتی۔ اذان کے اختتام پر چند نعروں جن میں حسینیت زندہ باد، یزیدیت مردہ باد کے نعرے زیادہ لگتے، دوبارہ نوحہ خوانی اور ماتم داری کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔

درج بالا معروضات بیان کرنے کا مقصد عاشورہ کے روز راولپنڈی کے راجہ بازار میں ہونے والے حالیہ واقعہ کے محرکات کا جائزہ لینا ہے۔ حیرت ہے کہ پولیس کے ہوتے ہوئے کچھ نوجوان مسجد کی چھت پر کیسے چڑھے، اتنے پہرے کے باوجود کس طرح ان نوجوانوں نے چھت پر اینٹیں اور پتھر اکٹھے کیے۔ مسجد میں وعظ کرنے والے حضرت نے کس طرح نفرت بھری تقریر کا آغاز کیا اور معاملہ اس نوبت کو پہنچا کہ جس کے کچھ حقائق آپ کے سامنے ہیں۔ مسجد سے نفرت بھری اور فرقہ وارانہ تقریر، مسجد کے اندر سے تکفیری نعرے اور مسجد کی چھت سے اینٹوں کی بارش انتظامیہ کے کسی عہدیدار کی اعانت اور مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔

واقعہ کی ابتدائی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پولیس کے کئی افسران نے جلوس کی حفاظت کے معاملے میں سستی کا مظاہرہ کیا۔ انتظامیہ کی نااہلی عیاں ہوچکی ہے، لیکن نہ جانے کیوں دل اس اعتراف کو کافی نہیں سمجھتا۔ عقل کہتی ہے کہ کوئی بھی پولیس آفیسر چاہے صوبے کا آئی جی ہی کیوں نہ ہو بغیر اجازت اپنے فرائض سے غفلت کیسے کرسکتا ہے۔ وہ بھی اتنے حساس معاملے میں جہاں ذرا سی غفلت سینکڑوں جانوں کے ضیاع کا سبب بن جائے۔ ابھی حکیم اللہ محسود کو ہلاک ہوئے کتنے روز ہوئے ہیں۔ کیا پولیس افسران اور راولپنڈی کی انتظامیہ محرم کے جلوس کے حوالے سے اتنا بڑا سکیورٹی رسک مول لے سکتی تھی کہ وہ موقع پر ہی موجود نہ ہوتی۔

عموماً اس قسم کے واقعات ہونے کے بعد وزیر داخلہ یا کوئی اور حکومتی عہدیدار فوراً متاثرہ مقام پر پہنچ کر واقعہ کی تفصیلات پریس کے سامنے بیان کرتا ہے۔ اس پریس کانفرنس کا کوئی اور فائدہ ہو یا نہ ہو، ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ملک میں چہ مہ گویوں کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ حکومتی ذمہ دار یا متعلقہ ہسپتال کے مسئول کی جانب سے بتائی جانے والے جانی نقصان پر یقین کیا جاتا ہے۔ گذشتہ برس کوئٹہ دھماکوں میں نوے افراد مارے گئے فوراً میڈیا کے ذریعے معلوم ہوگیا، یہ تعداد بعد میں بڑھتی رہی لیکن ملک میں چہ مہ گوئیاں نہیں ہوئیں کہ کتنی ہلاکتیں ہوئیں۔ حیرت ہے اس معاملے میں کوئی حکومتی نمائندہ ٹی وی پر نمودار نہیں ہوا۔ ہسپتال کے کسی ذمہ دار سے انٹرویو نہیں لیا گیا بلکہ لاشوں کے تعین کو لوگوں کی قیاس آرائیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں کوئی کہتا ہے نوے افراد قتل ہوئے، کوئی کہتا ہے سارے ذبح کیے گئے، کوئی کہتا ہے کچھ جل کر مرے اور کچھ نے گولیاں کھائیں۔ بات یہیں تک نہ رہی عورتیں، ٹیکسی ڈرائیور، ریڑھی والے جو کچھ سنتے آگے پہنچا دیتے۔ میرا گذر کچھ ٹیکسی والوں کے پاس سے ہوا ان کی گفتگو پیش نظر ہے:

اک چھوٹا جیا بچا سی تے چار بندے سن۔ انہاں چار بندیاں بچے نوں پھڑ لیا تے ذبح کر دتا
(یعنی ایک چھوٹا سا بچا تھا، چار بندوں نے اس بچے کو پکڑا اور ذبح کر دیا) ایسا لگتا تھا جیسے یہ ڈرائیور صاحب موقع پر موجود تھے اور سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ جب حکومتی عہدیدار میڈیا کے سامنے حاضر ہوئے تو اس وقت تک نفرت کی شدت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ اب میڈیا پر آنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، نئی بات یہ تھی کہ ہلاکتیں زیادہ ہیں، یہ لوگ چھپا رہے ہیں۔ انھوں نے کرفیو بھی اسی لیے لگایا تھا۔ چہ مہ گوئیوں کا اثر یہ ہوا کہ ملتان، کوہاٹ اور ملک کے دیگر علاقوں میں اسی رات یا اگلے دن امام بارگاہوں اور عزاداری کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم اسے حکومتی غفلت کہوں یا ٹیسٹ کیس۔ بہرحال اس واقعے کے حقائق کی گہرائی میں جانا اور حقیقی مجرموں کی شناخت ازحد ضروری ہے، تاکہ ملک کو اس قسم کے کسی بھی فرقہ وارانہ فساد سے محفوظ رکھا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 323709
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
معلوماتی تجزیہ ہے اور ساتھ کافی فائدہ مند بھی۔ شکریہ
ہماری پیشکش