7
0
Thursday 28 Nov 2013 23:23

مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر ضد ولایت فقیہ

مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر ضد ولایت فقیہ
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com


22 بھمن 1357 شمسی (11 فروری 1979ء) کا دن امت اسلامی کیلئے ایک تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روز آیت اللہ العظمٰی امام خمینی کی قیادت میں ایرانی ملت نے شیطان بزرگ امریکہ کے چوکیدار رضا شاہ پھلوی کو اپنی قدرتمند فوج کے باوجود ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور بالآخر دنیا پر انقلاب اسلامی ایران کے نام سے ایک ایسا نیا ملک وجود میں آیا کہ جس نے نہ صرف دنیا میں موجود دو قطبی استکباری نظام کو چیلنج کیا بلکہ سیاست اور دیانت کی جدائی کے نظریہ پر بھی خط بطلان کھینچ دیا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی نئی موج ایجاد کی اور حتی غیر مسلموں کو اسلام کے حقیقی چہرے سے آشنا کیا۔
 
امام خمینی کی اس عظیم تحریک کو جہاں بیرونی سطح پر مخالفت کا سامنا تھا، وہاں داخلی سطح پر بھی مخالفت کا سامنا رہا اور اسکی بنیادی وجہ بھی یہ  تھی کہ یہ انقلاب کوئی صنعتی یا تجارتی انقلاب نہ تھا بلکہ یہ ایک نظریاتی اور آئیڈیالوجک انقلاب تھا اور اسی وجہ سے بہت اہمیت کا بھی حامل ہے۔ انتہائی سادہ زندگی گذارنے والے عارف واصل امام خمینی کی انقلابی باتیں شاید بعض خواص کو تو سمجھ نہ آئیں، لیکن عوام کے دل میں گھر کر گئیں اور اسی وجہ سے پوری دنیا کی استکباری مشینری اپنے تمام تر ھتھکنڈوں کے ساتھ امام کی آواز کو نہ دبا سکے۔ 

سب سے بڑا آئیڈیالوجک پیغام جو اس انقلاب اسلامی نے دنیا کے آزاد منش انسانوں کو دیا وہ دین اور سیاست میں جدائی کے نظریہ کا باطل ہونا تھا۔ اگر دنیا کے ایک کونے میں دین کو افیون سمجھا جا رہا تھا تو دوسری جانب دین کو فقہ و کلام کی پرانی کتابوں میں ایک انفرادی عمل کا نام دیا جاتا تھا کہ جو معاشرے کو مدیریت کرنے کے قابل نہیں ہے، لیکن امام خمینی کی اسلامی تحریک نے غلافوں میں لپٹی دھول پڑی کتابوں سے دین کے روح بخش اصولوں کو معاشرے میں نافذ کرکے اس نظریہ کے بطلان کو ثابت کر دیا اور تمام مشوش و مبھوت اذھان کو کہ جو آج کے ترقی یافتہ صنعتی دور میں دین کے نفاذ کا سوچ کر چکرا جاتے تھے، انہیں امید دلائی اور نئے راہ سے آشنا کیا۔ ولایت فقیہ کے سرمدی اصول کو معاشرے میں نافذ کیا۔ ولایت فقیہ یعنی اجتہاد کی حد تک دین مبین اسلام کے سرمدی اصولوں سے آگاہ انسان جو مدیر و مدبر ہو، انسانی معاشرے پر حکمرانی کا حق رکھتا ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کے بنیادی نعروں میں سے ایک نعرہ مرگ بر آمریکہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر ضد ولایت فقیہ ہے کہ جسکو اردو زبان میں  مردہ باد امریکہ، مردہ باد اسرائیل، مردہ باد دشمن ولایت فقیہ کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امام خمینی نے امریکہ کو شیطان بزرگ کا نام دیا اور تھران یونیورسٹی کے انقلابی طلباء کی جانب سے امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کو "لانہ جاسوسی" جاسوسی کے گڑھ پر قبضہ کے نام سے پکارا۔ پوری دنیا کے تمام شیاطین اس شیطان بزرگ امریکہ کی سرپرستی میں صدامی فوج کی شکل میں انقلاب اسلامی کے خلاف برسرپیکار ہوئے، لیکن اس مسلمان ملت کی آٹھ سالہ مزاحمت نے ان کے تمام ارادے خاک میں ملا دیئے اور جب دشمن  خارجی طاقت کے استعمال سے مایوس ہوا تو اس نے داخلی طور پر انقلاب کو کمزور کرنے کی ٹھانی اور  یہی وجہ ہے کہ آج تک  امریکہ "منافقین صدام" یعنی دہشت گرد ٹولے مجاہدین خلق کی حمایت کر رہا ہے کہ جو ایران کے اندر اور باہر  بے شمار دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ 

زمانہ گذرتا رہا یہاں تک کہ انقلاب اسلامی ایران دنیا میں ایٹمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ امریکہ اپنی پوری قدرت کے ساتھ ایران کے مقابلہ میں آیا اور اپنے پورے لاو لشکر کے ساتھ اس نے انقلاب اسلامی ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو بند کر دے۔ صدر خاتمی کے دور میں ایٹمی پروگرام کچھ سالوں کے لئے بند رہا اور مذاکرات ہوتے رہے۔ لیکن احمدی نژاد کی صدارت کے زمانے میں تمام مذاکرات کو بند کرکے یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کر دیا گیا اور ایک دن ایسا آیا کہ ایران نے یورنیم کی 20 فیصد افزودگی کا اعلان کر دیا۔ احمدی نژاد کے جانے کے بعد جناب حسن روحانی صاحب ایران کے نئے صدر کے طور پر سامنے آئے اور جب انہوں نے اقوام متحدہ کے اپنے سب سے پہلے سرکاری دورے میں باراک اوباما کی کال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ بھی خیریت سے ہوں گے تو اس بات نے پوری دنیا میں واویلا مچا دیا اور پھر ایران کے بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور شروع ہوا جو بالآخر جنیوا معاہدے پر اختتام پذیر ہوا۔ 

اس معاہدے کے تحت وہ امریکہ اور بین الاقوامی طاقتیں جو خاتمی دور میں ایران کو صرف 3 عدد سینٹری فیوجز وہ بھی مطالعاتی پروگرام کیلئے لگانے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں، اب کئی ہزار سنٹری فیوجز کی موجودگی میں 5 فیصد افزودگی کے عمل کو ماننے پر تیار ہوگئیں۔ اس بات کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ 5 فیصد افزودگی کو ماننا یعنی ایران کیلئے ایٹمی استعداد کے حق کو قبول کرنا ہے اور ایران کو ایک ایٹمی پاور کے طور پر تسلیم کیا جانا ہے کہ جو اسرائیل اور بعض دوسرے متعصب ممالک کیلئے بہت گراں گذر رہا ہے۔

اس پوری کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر  پوری تصویر کو سامنے رکھا جائے تو اس ساری تصویر میں اتار چڑھاو تو حتماً نظر آئے گا، لیکن ایران پوری تصویر میں اپنے ہدف کی جانب گامزن نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ آیا موجودہ دور میں ہونے والے مذاکرات میں ایران اپنی پوزیشن پر واپس گیا ہے یا بین الاقوامی طاقتیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹی ہیں۔ جب انقلاب اسلامی ایران میں کامیاب ہوا تو اس وقت تو ایران اپنی بجلی کی بنیادی ضروریات میں بھی خودکفیل نہ تھا اور جب ایران میں ایٹمی پروگرام شروع کیا گیا تو امریکہ کی سرپرستی میں بین الاقوامی قوتیں یہ اعلان کرتی نظر آرہی تھیں کہ کسی بھی صورت میں ہم ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں کرنے دیں گے، حتی اس میں باراک اوباما بہادر نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ "تمام آپشن ٹیبل پر موجود ہیں" یعنی ہمیں اگر فوجی آپریشن بھی کرنا پڑا تو کریں گے، لیکن ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان  مذاکرات میں آیا امریکہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹا ہے یا ایران۔ واضح ہے کہ ایران نے ان مذاکرات سے پہلے کہ دیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے ایٹمی حق سے دستبردار نہیں ہوں گے اور بالآخر مذاکرات کی میز پر بھی انہوں نے اسی بات کو تسلیم کروایا اور یہ امریکہ اور یورپی ممالک تھے کہ جنہوں نے ایران کے حق کو تسلیم کیا اور اپنی بات سے عقب نشینی اختیار کی۔

بعض لوگوں نے تو ایران کے یورپ اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو اس بات سے تعبیر کیا کہ گویا ایران نے اپنی فکری بنیادیں ہی ہلا دیں، لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیا رسول خدا (ص) نے کفار و مشرکین اور یھود و نصاریٰ کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے۔ صلح حدیبیہ جیسی کتنی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آیا خدانخواستہ خاکم بدھن یہ اسلام کی بنیادیں ہلانے کا باعث بنا۔ درحقیقت بعض دست بقلم جو استکباری تبلیغاتی نظام میں غرق ہیں، چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے مسائل کو دشمن کی عینک سے دیکھتے ہیں اور ایسی صورتحال میں انکو انقلاب کی بنیادیں ہلتی نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں، ورنہ آج بھی ایران میں موجود تمام چھوٹی بڑی مساجد میں ہر نمازی نماز کے بعد "مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر ضد ولایت فقیہ اور خدایا خدایا تا انقلاب مھدی (عج) خامنہ ای را نگھدار" کے نعرے لگا کر گویا ببانگ دھل  بتا رہا ہے کہ خمینی کا انقلاب کل بھی دشمن ستیز اور امید اسلام تھا اور آج بھی دشمن سوز اور امید اسلام ہے۔
خبر کا کوڈ : 325635
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

آپ نے اپنے کالم کے ذریعے اوریا مقبول جان جیسے استکباریوں کو عینک دکھا دی ہے۔ خدا آپ کی قلم میں تاثیر عطا کرے
Good!
بہت خوب سید میثم ہمدانی

مرگ بر دشمن ولایت فقیہ
salam,maqbool jan oyra k maqalay ka acha jawab hai.khuda aap ki tofiqat main ezafa kray.
h.j.zaidi
سلام آغا صاحب یہ کونسی منطق ہے کہ ایران 20 فیصد سے نیچے آکر 5 فیصد تک محدود ہو گیا ہے اور جواب میں تحریم کے خاتمے کے وعدہ وعید لے کر واپس آگئے ہیں، کیا اپ اس کو کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں۔؟
تنویر شیرازی
Pakistan
پاکستان ایران حقیقی برادر ملک
ایران واحد ملک ہے جس نے اس دور میں امریکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر اسے پسپا کر دیا ہے
تنویر شیرازی
Pakistan
مردہ باد امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد دشمن ولایت فقیہ
ہماری پیشکش