0
Monday 25 Nov 2013 23:30

ایران کے جوہری پروگرام پر نیا عالمی معاہدہ

ایران کے جوہری پروگرام پر نیا عالمی معاہدہ
تحریر: ثاقب اکبر

 جنیوا میں پانچ دن تک مسلسل جاری رہنے والے مذاکرات کے اختتام پر اتوار 24 نومبر 2013ء کی صبح اعلان کیا گیا کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اتوار کی صبح فیس بک پر اپنے پیغام میں لکھا: "اللہ تعالٰی کی مدد اور ایرانی قوم کی استقامت، صبر اور متانت کے نتیجے میں مذاکرات کامیابی سے اختتام پذیر ہوگئے ہیں۔ ایران کے یورینیم افزودہ کرنے کے حق کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایٹمی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور اسلامی جمہوریہ ایران پر عائد پابندیاں بتدریج کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔"

ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ اس معاہدے میں ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ایران میں ڈاکٹر حسن روحانی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ایران اور مذکورہ عالمی طاقتوں کے مابین مذاکرات کے تین دور منعقد ہوئے اور تیسرے دور کے اختتام پر یہ معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت جہاں ایران اپنی ایٹمی سرگرمیاں محدود کرے گا، وہیں اس کے بدلے میں اسے پابندیوں میں نرمی کی بدولت تقریباً سات ارب ڈالر بھی حاصل ہوسکیں گے۔ معاہدے کے مطابق چھ ماہ تک ایران پر نئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔ ایرانی تیل کی فروخت کے سلسلے میں موجودہ حد برقرار رہے گی، جس سے ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوسکے گا۔ معاہدے کی بنیادی روح یہ ہے کہ ایران کے پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام جاری رکھنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جب کہ ایران بارہا پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اس امر کا ذکر معاہدے میں بھی کیا گیا ہے۔ آئندہ چھ ماہ کے دوران اس معاہدے کے دائرہ کار میں مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لہٰذا یہ چھ ماہ معاہدے کے مستقبل کے تعین کے حوالے سے بہت اہمیت کے حامل سمجھے جا رہے ہیں۔

اس وقت عالمی سطح پر اس معاہدے پر مختلف طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے اور اس معاہدے کے مضمرات اور تاثیرات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ 
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لارووف نے معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سمجھوتے سے کسی کی شکست نہیں ہوئی بلکہ سب کی جیت ہوئی ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ معاہدے سے عالمی جوہری پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور مشرق وسطٰی میں امن و استحکام کا تحفظ ہوگا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اسے ایک نہایت اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ امریکہ نے معاہدے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف اسرائیل بلکہ مشرق وسطٰی کو مزید محفوظ خطہ بنادے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ کانگریس اس معاہدے کے فوائد کو دیکھے گی اور ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے سے گریز کرے گی۔ 

اس سمجھوتے پر سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار اسرائیل کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے معاہدے کو تاریخی غلطی قرار دیا ہے۔ مسٹر نیتن یاہو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ دنیا کی سب سے خطرناک قوم دنیا کے سب سے خطرناک ہتھیار کے حصول کی جانب اہم قدم اٹھانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لیبرمین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کی سب سے بڑی سفارتی فتح ہے، جس نے اس کے لیے یورینیم افزودہ کرنے کے نام نہادحق کو قانونی شکل دے دی ہے۔ سعودی عرب نے اگرچہ معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، تاہم بین السطور اسے قبول کرلیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی کابینہ نے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے خطے کے لیے مفید قرار دیا ہے۔
 
شام کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ مذاکرے اور سیاسی عمل کی منطق کی، دھمکیوں اور جنگوں کی منطق پر فتح ہے۔ مصر نے بھی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ فرانس نے اس معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ اس معاہدے نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حق کو تسلیم کیا ہے لیکن جوہری اسلحے کا سدباب کیا ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطٰی اور ایرانی عوام سمیت ساری دنیا کے لیے اچھا ہے۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے اس معاہدے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بہتری کی جانب ایک اچھا قدم ہے۔ امید ہے جلد ہی ایک دیرپا معاہدہ بھی طے پا جائے گا۔ پاکستان نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے ایک مثبت پیش رفت سے تعبیر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ عالمی برادری کے تمام اراکین کو اس عمل کی حمایت کرنی چاہیے، اگر اسے کامیاب ہونے دیا گیا تو یہ تمام فریقوں کے لیے دیرپا فوائد کا حامل ہوگا۔

ایران میں سرکاری سطح کے علاوہ عوامی سطح پر بھی مجموعی طور پر اس معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ تمام عالمی اداروں اور ایرانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق جنیوا سے ایرانی مذاکرات کار جب تہران میں مہر آباد کے قدیمی ہوائی اڈے پر پہنچے تو وہاں جشن کا سماں تھا۔ ایرانی پرچم اور پھول لیے لوگوں نے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا پرجوش استقبال کیا اور انھیں امن کا سفیر قرار دیا۔ بہت سے ایرانی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھی لوگوں نے اپنے ردعمل میں اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

ایرانی صدر نے اس معاہدے کے بعد روحانی قائد آیت اللہ خامنہ ای کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ ایرانی مذاکرات کاروں کی ٹیم عالمی طاقتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ یورینیم کی افزودگی ایرانی قوم کا حق ہے اور یہ معاہدہ ایران کے تکنیکی اور اقتصادی حقوق کی پیش رفت اور حفاظت کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ مذاکرات میں حالیہ کامیابی رہبر معظم کی راہنمائی اور ایرانی عوام کی استقامت کا نتیجہ ہے۔ خط میں ان کا کہنا تھا کہ اس کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی طاقتوں سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایرانی قوم کے حقوق کا احترام کریں۔ خط کے جواب میں ایران کے روحانی پیشوا نے بھی جوہری مذاکرات کاروں کی کامیابی پر تحسین پیش کی ہے اور اسے قابل تعریف قرار دیا ہے اور اسے دیگر متعلقہ حوالوں سے پیش رفت کے لیے ایک مناسب بنیاد قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کامیابی اللہ تعالٰی کی نصرت اور ایرانی عوام کی مدد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی مذاکرات میں حالیہ پیش رفت کو ایران کی مذہبی قیادت کی پوری حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ اس سے ایرانی نظام اور عوام کے مابین حسن اعتماد کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ 
بعض تجزیہ کاروں کے اندیشوں سے قطع نظر ہماری رائے یہ ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران کچھ مزید پیش رفت دیکھنے میں آئے گی، کیونکہ موجودہ معاہدے تک پہنچنے سے پہلے طرفین اس کے لیے ضروری سوچ بچار اور مشوروں کے عمل سے گزر چکے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ نے اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر اپنے حلیفوں کو قائل کرنے کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔ وگرنہ مذاکرات کے دوسرے دور میں بھی طرفین معاہدے پر پہنچ چکے تھے لیکن امریکہ نے بعض مخالفانہ آوازوں کے پیش نظر کچھ وقت اپنے حلیفوں کو مطمئن کرنے کے لیے لیا اور بالآخر تیسرے دور میں وہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے قابل ہوگیا۔ داخلی طور پر بھی اوباما حکومت کانگریس کو اس معاہدے کے حوالے سے مطمئن کر لے گی اور اسے کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ معاہدہ خود امریکہ کی کئی اپنی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ شام کے محاذ پر ایران کی سیاسی اور تزویراتی کامیابی نے ایران کو بھی نسبتاً ایک بہتر حیثیت میں مذاکرات کی پوزیشن پر لاکھڑا کیا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ معاہدے کی مخالفت بھی وہی قوتیں کر رہی ہیں جو ہر حالت میں شام میں امریکہ کی فوجی مداخلت کی حامی تھیں۔
ممکن ہے بعض مبصرین کی رائے یہ ہو کہ حالیہ معاہدے تک پہنچنے میں ایران کو روس اور چین کی نمایاں حمایت حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری رائے قدرے مختلف ہے، کیونکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی یکطرفہ پابندیوں سے زیادہ تر فائدہ روس ہی اٹھا رہا تھا اور وہ اپنی شرائط پر ایران سے تیل حاصل کر رہا تھا، جیسے بھارت اور جاپان بھی موجودہ مشکل حالات کی وجہ سے ایران سے اضافی مراعات حاصل کر رہے تھے۔ البتہ امریکہ کی نظر میں اس کے علاوہ مشرق وسطٰی میں بڑھتی ہوئی روسی مداخلت بھی اہمیت رکھتی ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے ایران کی طرف ایک دروازہ کھولنا اس کی نظر میں ضروری ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں عالمی کساد بازاری نے امریکہ اور یورپ کو جس انداز سے متاثر کیا ہے اس کے پیش نظر امریکہ کسی نئے فوجی محاذ کو کھولنے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہے۔

بعض ممالک کی خواہش ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات استوار کریں۔ ایران پر پابندیوں کے اثرات صرف ایران پر ہی نہیں ہوئے بلکہ کئی ایک یورپی ممالک بھی اس کے منفی اثرات سے گزر رہے ہیں۔ فرانس کی گذشتہ دنوں ظاہری مخالفت کے پس منظر میں بھی اس کے سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور مفادات رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ سعودی مفادات فرانس کی حکومت کے پیش نظر ہیں۔ تاہم زیر زمین پہلے ہی امریکہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے مابین اس معاہدے کی شقوں کے بارے میں ہم آہنگی ہوچکی تھی۔

موجودہ معاہدے پر اگرچہ احتیاط کے ساتھ ہی خوشی کا اظہار کرنا چاہیے، تاہم یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ قوموں کے مابین تعلقات کبھی جمود کا شکار نہیں رہ سکتے۔ نیز مذاکرات کا ہنر جاننے والے عالمی سیاست میں گاہے معجزے رونما کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ معاہدے میں ایران کے اصولی موقف کو عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے لیکن ابھی عشق کے اور بھی امتحاں باقی ہیں۔ توقع کرنی چاہیے کہ نعرہ بازی کے اثرات قبول نہ کرکے سنجیدگی سے پیش رفت کرنے والی ایرانی قیادت آئندہ بھی فکر و دانش کے امتحانات میں پورا اترے گی اور ان کی بصیرت علاقے کے علاوہ دنیا کے لیے بھی بھلائی کے پھول کھلائے گی۔
خبر کا کوڈ : 324568
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش