0
Sunday 1 Dec 2013 00:50

ڈرون حملے اور انکے اسباب!

ڈرون حملے اور انکے اسباب!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور امریکہ یہ حملے بند کرے تاکہ مزید شہریوں کی ہلاکت نہ ہو، دہشت گردی کے خلاف جنگ بین الاقوامی قوانین کے تحت لڑی جانی چاہیئے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے جنگی جرائم ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جب وزیر اعظم پاکستان وہاں گئے ہوئے تھے تو یہ بحث بڑی شد و مد کے ساتھ جاری تھی کہ وزیراعظم امریکی صدر باراک اوبامہ سے ڈرون حملوں کے حوالے سے ’’دوٹوک‘‘ بات کریں گے۔ یقیناً وزیراعظم پاکستان نے صدر اوبامہ سے بات بھی کی اور پھر اس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ اسی دوران امریکی کانگریس میں ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کی ایک رکن ایلن گریسن نے کہا کہ اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل بند ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بطورِ خاص یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کی منظوری کے بغیر اس طرح کے حملے نہیں ہو سکتے۔ جبکہ پاکستان کی وزارتِ دفاع نے سینیٹ میں ڈرون حملوں بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ " گذشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں اب تک 2160 شدت پسند جبکہ صرف 67 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جو کہ کل ہلاکتوں کا تقریباً تین فیصد بنتا ہے، اور گذشتہ دو سالوں کے دوران امریکی ڈرون حملوں میں ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا"۔

اس ہما ہمی میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز سامنے آئے اور کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران میں امریکہ ڈرون حملے نہیں کرے گا، ان کے بیان کی بازگشت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیئے گئے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں سمیت تحریک انصاف نے شدید احتجاج کیا، جبکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی امریکہ کی اس حرکت کو ناپسند کیا۔ پی ٹی آئی نے ایک ڈیڈ لائن دی کہ امریکہ کے ساتھ ڈرون حملوں کے حوالے سے حکومت کھل کر بات کرے اور یہ گارنٹی لے کہ اب ڈرون حملے نہیں ہوں گے۔ سرتاج عزیز صاحب پھر نمودار ہوئے اور کہا کہ اب ڈرون حملے نہیں ہوں گے، ان کے اس بیان کی بھی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ امریکہ نے قبائلی علاقوں سے آگے بڑھ کر، صوبہ کے پی کے، کے بندوبستی علاقے ہنگو میں حملہ کر دیا، جس میں 6افغان شدت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئیں۔ پی ٹی آئی نے جو پہلے ہی نیٹو سپلائی روک کر ڈرون حملے رکوانے پر کمر بستہ ہے، نے تھانہ ہنگو میں ڈرون حملے کیخلاف ایف آئی آر درج کرا دی۔

ڈرون حملوں کے حوالے سے ماضی قریب میں ہونے والی بحث اور حکمت عملیوں کا انتہائی مختصر احوال ذکر کرنے کا مقصد، یہی ہے کہ ابھی تک ہم اس حوالے سے خود گو مگو کیفیت کا شکار ہیں کہ ڈرون حملوں پر حکومتی اور قومی سطح پر کیا مؤقف اپنایا جائے؟ اگر وزیراعظم صاحب کے اس بیان کو لیا جائے کہ پہلے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا پڑے گا، تو ان کا یہ بیاں کوئی ایسا غلط بھی نہیں، جبکہ اگر پی ٹی آئی کے احتجاج کو دیکھا جائے تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اگر ان کا دھرنا اتنا ہی پراثر ہوتا تو امریکہ فوراً آگے بڑھ کر معافی مانگ لیتا، مگر اس نے تو الٹا ہی کام کیا، اور پی ٹی آئی کے احتجاج کو میران شاہ میں ایک اور ڈرون حملہ کر کے ہوا میں اڑا دیا۔ تازہ حملے میں زخمی ہونے والا ایک دہشت گرد اسلم عرف یاسین جی ایچ کیو پر ہونے والے حملے میں ملوث ہے جبکہ مارے گئے دو دہشت گردوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ دہشت گرد جو جی ایچ کیو میں ہونے والے حملے میں ملوث ہے اور پاکستان کو مطلوب ہے، اس پر ہونے والے حملے کے حوالے سے احتجاج کیا جائے کہ نہیں؟ دراصل نہ تو امریکہ کسی احتجاج کو خاطر میں لائے گا اور نہ ہی ہم بحثیت پاکستانی قوم سب اس حوالے سے متحد ہیں۔ نیٹو صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ لگ بھگ پچاس ممالک کی ایک’’یونین‘‘ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اور اس بنیادی وجہ کو بھی جو ڈرون حملوں کا سبب بن رہی ہے۔ میاں صاحب جب اقتدار میں نہیں تھے تو ان کی پارٹی کا ڈرون حملوں پر قریب قریب وہی مؤقف تھا جو پی ٹی آئی کا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ڈرون حملے پی پی پی حکومت کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔ مگر اقتدار میں آتے ہی وہ اس حوالے سے ’’حقیقت پسندانہ‘‘ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک گھر کو ٹھیک نہیں کیا جائے گا اس وقت ڈرون حملے ہوتے رہیں گے لیکن کیا کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے بعد ہمارا گھر ٹھیک ہو جائے گا؟

تسلیم کر لیا جائے کہ جب تک ہائی ویلیو ٹارگٹس کو ہم خود ختم نہیں کریں گے اس وقت تک امریکہ یہ کام کرتا رہے گا، اور وہ ٹارگٹس خواہ قبائلی علاقوں میں ہوں یا پھر ہنگو میں۔ ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت مصلحتوں کا شکار رہتی ہے۔ مصلحت کوش لیڈر اچھی بھلی قوم کو بھی بزدل بنا دیتے ہیں۔ شہریوں کی عزت و آبرو، اور جان و مال کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، اور ریاست یہ ذمہ داری حکومتوں کے ذریعے پوری کیا کرتی ہے۔ قومی خود مختاری اور ملی وقار جیسے الفاظ، سے قوم کے جوش میں اضافہ کرنے والوں کو اب آگے بڑھ کر اس قومی خودمختاری اور ملی وقار کا تحفظ بھی کرنا چاہیے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ذاتی و جماعتی مفادات کی اسیر ہے۔ یہ ذاتی و جماعتی مفادات ہی ہیں، جو ابھی تک ہمیں دہشت گردی کے حوالے سے کسی ایک بات پر متفق نہیں ہونے دے رہے ورنہ تاریخ میں ایسی کون سی مثال ہے کہ ریاست جن گروہوں کو ان کی ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث کالعدم قرار دیتی ہے بعد میں ان ہی سے امن مذاکرات کرنے کو بے قراریاں دکھاتی ہے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ حکومت یہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھائے گی، مگر یہ کوئی سیاسی مصلحت ہی ہے نا جو ابھی تک حکومت کو یہ کام نہیں کرنے دے رہی۔ تسلیم کہ دہشت گردی کے مسئلے سے لے کر ڈرون حملوں تک، اور ڈرون حملوں سے لے کر بلدیاتی انتخابات تک، ہم کسی ایک نقطے پر متفق ہی نہیں ہیں۔ سیاستدان ایسے مصلحت کوش کہ حقائق کا نہ خود سامنا کرتے ہیں نہ قوم کو بتاتے ہیں۔ البتہ اپنی اپنی جماعتی رنگا رنگی میں ایک دوسرے کے خوب لتے لیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 326158
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش