0
Friday 24 Apr 2009 12:19

امریکا کی سرپرستی میں بھارت اور اسرائیل فوجی گٹھ جوڑ

امریکا کی سرپرستی میں بھارت اور اسرائیل فوجی گٹھ جوڑ
آصف جیلانی
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان فوجی گٹھ جوڑ پر گزشتہ ایک دہائی سے رازداری کے جو پردے پڑے ہوئے تھے وہ پچھلے پیر کو اٹھ گئے جب ہندوستان نے اسرائیل کا تیار کردہ مصنوعی جاسوس سیارہ خلا میں بھیجا۔ یہ سیارہ تصاویر لینے والے ایسے ریڈار سے لیس ہے جس کے ذریعے پاکستان سمیت ہندوستان کے دوسرے پڑوسی ملکوں اور ان کی سرحدوں پر نگاہ رکھی جاسکے گی۔ تین سو کلوگرام وزنی یہ مصنوعی سیارہ جو ری سیٹ 2 کہلاتا ہے، اسرائیل کی ایرو اسپیس انڈسٹریز نے تیار کیا ہے اور ہندوستان میں تیار کردہ راکٹ کے ذریعے ساڑھے پانچ سو کلومیٹر کی بلندی پر خلا میں چھوڑا گیا ہے۔ ری سیٹ 2 مصنوعی سیارہ دراصل ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان فوجی اور خلائی میدان میں اُس تعاون کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کارگل معرکہ کے بعد شروع ہوا تھا۔ اُس وقت ہندوستان میں ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار تھی اور اسرائیل کے ساتھ فوجی گٹھ جوڑ کا بنیادی مقصد کشمیر میں حریت پسند تحریک کو کچلنے اور لائن آف کنٹرول پار کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف اقدامات کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا تھا۔ اُس زمانے میں اسرائیل سے اسلحے کی خفیہ خریداری کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں لیزر گائیڈیڈ بم اور سرحد پر نگرانی کے لیے بلا ہوا باز طیارے شامل تھے۔ معرکہ کارگل کے بعد اسرائیل کے صدر ایزر وائزمین نے جو صدر بننے سے پہلے اسرائیل کی انٹیلی جنس کے سربراہ تھے، ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ کسی اسرائیلی صدر کا ہندوستان کا پہلا دورہ تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلقات کا نقیب ثابت ہوا۔ گو ہندوستان نے اسرائیل کو 1950ء میں تسلیم کرلیا تھا لیکن ایک طرف عرب ممالک سے وابستہ اقتصادی مفادات کے پیش نظر اور دوسری طرف سوویت یونین کے ساتھ سیاسی تعلقات کی مصلحت کے تحت ہندوستان نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے تھے، لیکن مصر اور اسرائیل کے درمیان صلح کے سمجھوتے اور سوویت یونین کی مسماری کے بعد ہندوستان نے 1992ء میں اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا سفارتی تعلقات استوار کیے جس کے بعد دونوں ملکوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور نہایت تیزی سے فوجی میدان میں تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1997ءمیں اسرائیلی صدر وائزمین کے دورے میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان پہلا فوجی سودا طے پایا جس کے تحت ہندوستان نے اسرائیل سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے براک 2 میزائل خریدے۔ یہ میزائل جہاز سے داغے جانے والے ہارپون جیسے میزائل کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ ہندوستان نے براک 2 میزائل اُس وقت خریدے جب پاکستان نے امریکا سے 27 ہارپون میزائل اور ”اورین“ نامی بحری طیارے خریدے تھے۔ ہندوستان کا اسرائیلی براک میزائل خریدنے کا اصل مقصد پاکستان کے ہارپون میزائل کا توڑ کرنا تھا۔ مارچ 2004ء میں ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ ایک ارب دس کروڑ ڈالر مالیت کا سودا کیا جس کے تحت اسرائیل نے ہندوستان کی فضائیہ کو تین فیلکن ریڈار سسٹم فروخت کیے اور ان سسٹمز کے لیے ہندوستان نے روس سے پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت کے تین بھاری پلیٹ فارم خریدے۔ پھر 2008ء میں خلا کے شعبے میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان وسیع تعاون کا سلسلہ شروع ہوا جب ہندوستان نے اسرائیل کی ایرو اسپیس انڈسٹریز کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے سودے پر دستخط کیے۔ اس سودے کے تحت اسرائیل ہندوستان میں طیارہ شکن براک 8 میزائل تیار کرے گا۔ یہ میزائل 70 کلومیٹر کے فاصلے پر طیاروں اور میزائلز کو روک سکے گا۔ ممبئی حملوں کے بعد ہندوستان نے اسرائیل سے ری سیٹ 2 جاسوس سیارہ خریدا جو پچھلے پیر کو ہندوستان نے اپنے راکٹ کے ذریعے خلا میں چھوڑا ہے۔ اس وقت ہندوستان اور اسرائیل مل کر ری سیٹ 2 سے بھی بڑا ایک نیا جاسوس سیارہ تیار کررہے ہیں۔ بین الاقوامی دفاعی مبصرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اسرائیل نے ہندوستان کو اسلحہ کی فراہمی میں اب روس کو بھی مات کردیا ہے اور اسرائیل ہندوستان کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فوجی گٹھ جوڑکا اصل مقصد دونوں ملکوں کی طرف سے پاکستان کو فوجی طور پر زیر کرنے اور ایسے شکنجے میں کسنا ہے کہ وہ بے بس ہوکر رہ جائے۔ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان اس گٹھ جوڑ کو امریکا کی نہ صرف بھرپور آشیرباد بلکہ عملی حمایت اور اعانت بھی حاصل ہے۔ اور دراصل امریکا کی سرپرستی میں اس تعاون کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اسرائیل امریکی ساخت کا ایسا بہت سا اسلحہ ہندوستان کو فراہم کررہا ہے جس کے لیے امریکا کی اجازت اور منظوری درکار ہے۔ اس لحاظ سے ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان یہ فوجی تعاون دراصل سہ فریقی نوعیت اختیار کر گیا ہے اور خاص طور پر اس صورت حال میں یہ تگڈم عجیب و غریب نظر آتی ہے جب ایک طرف امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑنے کے لیے پاکستان کو ایک ارب ڈالر سالانہ کی فوجی امداد دے رہا ہے اور دوسری طرف اس کی فوجی بیخ کنی کے لیے ہندوستان اور اسرائیل کی مدد کررہا ہے۔ اس صورت ِحال کے پیش نظر برصغیر میں امریکا کے اصلی عزائم کے بارے میں شکوک وشبہات کا جنم لینا قدرتی ہے۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک یہ ساری حکمت عملی دنیا کے واحد جوہری مسلم ملک پاکستان کو چاروں طرف سے ایسے نرغے میں لینا ہے جس میں وہ یکسر بے بس ہوکر رہ جائے۔

خبر کا کوڈ : 3555
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش