1
0
Friday 25 Apr 2014 15:42

گندم سبسڈی اور گلگت بلتستان حکومت

گندم سبسڈی اور گلگت بلتستان حکومت
تحریر: نادر بلوچ

گلگت بلتستان پاکستان کی دفاعی لائن کہلاتا ہے، جس کی سرحدیں ایک طرف بھارت سے ملتی ہیں تو دوسری جانب پاکستان کا دوست ملک چین کاشغر ہے۔ یہ خطہ اپنی جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس علاقے میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ پرامن اور جفاکش ہیں۔ اس علاقے کے عوام نے اس خطے کو ڈوگرا راج سے آزاد کراکے اپنے آپ کو غیرمشروط طور پر پاکستان کے ساتھ ملایا۔ ایک طرف نانگا پربت کی بلند و بالا پہاڑیاں ہیں تو دوسری جانب کے ٹو کی بلند پہاڑی دنیا بھر کے سیاحوں کو دعوت نظارہ بخشتی ہے۔ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالامال اس علاقے پر دنیا بھر کے ممالک کی نگاہیں ہیں۔ اس اہم علاقے کو ہمیشہ سے حکمرانوں نے نظر انداز کیا ہے، انفراسٹکچر نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ آئینی حقوق سے بھی جی بی کو محروم رکھا گیا ہے۔ ملک کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں فاٹا کے لوگوں کی تو نمائندگی موجود ہے لیکن گلگت بلتستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام گندم پر سبسڈی کے خاتمہ کے خلاف احتجاجی تحریک دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔ اسکردو کا یادگار چوک اس وقت تحریر اسکوائر کا منظر پیش کر رہا ہے اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک سڑکوں پر رہنے کی قسم کھا چکے ہے۔ شٹر ڈاون ہڑتال کے باعث گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں اس وقت نظام زندگی بالکل مفلوج ہے۔ اسکولوں اور بینکوں سمیت تمام کاروباری مراکز بند پڑے ہیں۔ ہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا۔ اس تاریخی احتجاج کی خاص بات اس کا پرامن ہونا ہے۔ تادم تحریر احتجاجی دھرنوں کا یہ گیارواں روز ہے، لیکن ساتوں اضلاع میں سے کہیں سے بھی یہ رپورٹ نہیں ملی کہ احتجاج کے دوران کسی تشدد یا قومی املاک کو جلائے جانے یا نقصان پہنچانے کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔ احتجاجی دھرنوں میں لوگ رنگ، نسل، مذہب، فقہ اور قومیت ہر چیز سے بالا تر ہوکر شریک ہیں۔ حتٰی کہ کئی مقامات پر سرکاری ملازمین بھی سراپا احتجاج ہیں۔ یوں قومی وحدت کا بے مثال مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جس کوئی نظیر نہیں ملتی۔

عوامی ایکشن کمیٹی میں شامل ستائیس جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک عوام کے مطالبات تسلیم نہیں کرلیئے جاتے، اس وقت تک ان کا احتجاج جاری رہیگا۔ حکومت کی طرف سے مذاکرات کے تین دور شروع ہوئے جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ تاہم اس دوران عوام کو تقسیم کرنیکی کوششیں بھی کی گئیں، لیکن حکومت کو اس عمل میں ناکام ہوئی ہے۔ شیعہ علماء کونسل کے دیدار علی نے دھرنوں سے اظہار لاتعلقی کیا تھا، تاہم ایس یو سی گلگت کے صدر شیخ شہادت حسین نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے دھرنوں کو کامیاب بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین اس وقت پوری قوت کے ساتھ عوامی ایکشن کمیٹی کی نا صرف تائید کر رہی ہے بلکہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں گلگت بلتستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے احتجاجی کیمپ لگا دیئے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔ لاہور میں ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات ناصر عباس شیرازی نے جماعت اسلامی، پاکستان عوامی تحریک، تحریک انصاف کے ساتھ ملکر ایک پریس کانفرنس کی اور جی بی کے عوام کیسا تھ اظہار یکجہتی کیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام مرکزی ریلی اسلام آباد پریس کلب سے نکالی گئی جو ڈی چوک پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی، جہاں مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اعلان کیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی منطوری تک ان کی جماعت جی بی کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کا احتجاج جاری رہے گا۔

دوسری جانب گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی خوفزدہ ہوکر اس وقت شہراقتدار اسلام آباد میں پڑاو ڈال چکے ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی احساس نہیں، ایسا نہیں لگتا کہ وہ یا ان کی جماعت دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہتے ہوں۔ شائد وہ آخری بار اقتدار سمجھ کر حکمرانی کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ ان کے وزراء اس وقت عجیب و غریب بیانات دے رہے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان برجیس طاہر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ گندم کی سبسڈی بحال کرنیکا اختیار صرف وزیراعلٰی گلگت بلتستان کے پاس ہے، لیکن اس بیان پر سید مہدی شاہ خاصے سیخ پا ہوئے اور وضاحتیں کرتے رہے۔ ان کے بقول برجیس طاہر نے جھوٹ بولا ہے، جس کے بارے میں وہ وزیراعظم سے شکایت کرینگے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ آنیوالے الیکشن میں عوام کے پاس جا کر ووٹ مانگیں۔

گلگت بلتستان کے عوام جن حقوق کی بازیابی کے لیے میدان عمل میں اترے درج ذیل ہیں:
1۔ گندم کی اڑھائی من کی بوری کی قیمت 820 روپے جو کہ سال 2009ء میں مقرر تھی، بحال و برقرار رکھی جائے۔
2۔ مٹی کا تیل و دیگر اشیائے خورد و نوش اور پی آئی اے کے کرایوں میں حاصل سبسڈی جو کہ حکومت نے یکطرفہ طور پر ختم کی ہے، اسے فوری بحال کیا جائے۔
3۔ گلگت بلتستان کے ہسپتالوں میں غریب مریضوں پر عائد کردہ مختلف ٹیکسوں کو ختم کیا جائے اور تمام ہسپتالوں میں ادویات اور علاج مفت فراہم کیا جائے۔
4۔ معدنیات کی خرید و فروخت نیز نقل و حمل پر پابندی ختم کی جائے اور غیر مقامی افراد کو لیز نہ دی جائے۔
5۔ دیامر بھاشا ڈیم کمیٹی کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔
6۔ گلگت بلتستان کے مختلف سرکاری محکموں میں چور دروازوں سے بھرتیاں بند کی جائیں اور تمام آسامیوں پر میرٹ کے مطابق شفاف طریقے سے بھرتیاں کی جائیں۔

7۔ لوڈشیڈنگ کا فوری طور پر خاتمہ کیا جائے اور عوام کو فوری ریلیف دینے کیلئے تمام بند پاور ہاوسسز کو فنگشنل کیا جائے۔
8۔ No Texation Without Represention کے عالمی اصول کے مطابق گلگت بلتستان حکومت اور وفاقی حکومت کی طرف سے عائد کئے جانے والے تمام ٹیکسز واپس لیے جائیں۔
9۔ گلگت بلتستان کے سرحدی تنازعات کو فوری طور پر حل کیا جائے اور جی بی کی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
10۔ کرگل لداخ روڈ اور نوبرا چھوربٹ روڈ واگذار کی جائے۔
11۔ گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے۔
 ان مطالبات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو حد اعتدال سے گری ہوئی یا اضافی ہو۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فی الفور ان مطالبات کو منظور کرے اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق مہیا کرے۔
خبر کا کوڈ : 376311
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اپ ڈیٹ کی فراہمی پر شکریہ۔
اسلام ٹائمز کا بھی اور نامہ نگار کا بھی۔
سید جواد حسینی پشاور
ہماری پیشکش