0
Friday 13 Jun 2014 12:48

بحران سے نکلتا ہوا شام

بحران سے نکلتا ہوا شام
تحریر: ثاقب اکبر

3 جون 2014ء کو شام میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے، جن میں 3 امیدوار حصہ لے رہے تھے۔ ایک صدر بشار الاسد، دوسرے پارلیمینٹ کے رکن حسان نوری اور تیسرے ماہر عبدالحفیظ حجار۔ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اہل افراد کی تعداد 1 کروڑ 58 لاکھ 40 ہزار 575 تھی۔ ان میں سے 1 کروڑ 16 لاکھ 434 افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس طرح اہل افراد کی تقریباً 73% تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ ڈالے گئے ووٹوں میں سے پانچ لاکھ 279 ووٹ حسان النوری کو پڑے، جبکہ دوسرے رکن پارلیمان ماہر عبدالحفیظ حجار کو 3 لاکھ 72 ہزار 301 ووٹ پڑے۔ کل ڈالے گئے ووٹوں کا تقریباً 88%بشار الاسد کے حق میں کاسٹ کیا گیا۔ یہی وہ انتخابات ہیں جن پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات بے کار ہیں اور جمہوریت سے مذاق کے مترادف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جہاں کئی ملین افراد ووٹ نہیں ڈال سکتے، وہاں انتخابات منعقد نہیں کیے جاسکتے۔ اگر شام میں ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب کا تقابل امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں سے کیا جائے تو جان کیری کا یہ تبصرہ امریکی انتخابات پر زیادہ پورا اترنا چاہیے، کیونکہ وہاں 2012ء کے صدارتی انتخابات میں 57.5 % افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ نیز ان ڈالے گئے ووٹوں میں سے تقریباً 51 % ووٹ صدر اوباما کے انتخاب کا باعث بنے۔ گویا اس وقت امریکی قیادت پر براجمان شخص کو عملی طور پر 29 % امریکی عوام کا نمائندہ کہا جانا چاہیے۔ اگر ان اعداد و شمار کی روشنی میں امریکی انتخابات قانونی قرار پاتے ہیں تو پھر شام کے صدارتی انتخابات کو کہیں زیادہ قانونی قرار دیا جانا چاہیے، لیکن جان کیری کا مسئلہ کچھ اور ہے۔

امریکی انتظامیہ کی مشکل سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی بے دریغ اور بے پناہ سیاسی، فوجی اور تبلیغاتی و تزویراتی حمایت کے باوجود شامی حکومت کے خلاف نبرد آزما دہشت گرد بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں اور صدر بشار الاسد کو آج بھی شامی عوام کی بھاری اکثریت میں مقبولیت و محبوبیت حاصل ہے۔ خود امریکا میں موجود شامیوں نے بشار الاسد کی حمایت میں جلوس نکالے اور اپنے ملک کے خلاف امریکی مداخلت کی مخالفت کی، اگرچہ آزادی اظہار کے علمبردار امریکی میڈیا نے ان جلوسوں کی خبر نشر نہیں کی۔ امریکی عوام بھی شام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ 2013ء میں ایک امریکی ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق 70 فیصد امریکیوں نے شام میں حکومت کے مخالفین کو مسلح کرنے کی مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود امریکی حکومت کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

شام میں حکومت کے خلاف نبردآزما گروہ آپس میں منقسم ہوچکے ہیں۔ بہت سے اہم کمانڈر ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ کئی گروہ اور ان کے سربراہ بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ مل چکے ہیں۔ کئی ایک توبہ کرچکے ہیں۔ ترکی کے عوام نے شام میں حکومت کے مخالفین کی سرپرستی کرنے والی اپنی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں، جس کی وجہ سے ترک حکومت کا طرز عمل بہت حد تک تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شام کے مسئلے پر قطر اور سعودی عرب کے مابین بھی اختلافات سامنے آچکے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے گروہوں کو آگے بڑھانے کی کوششوں کے نتیجے میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے الجھ پڑے ہیں۔ مصر میں فوجی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد دونوں حکومتوں کے مابین منقطع سفارتی روابط پھر سے بحال ہوچکے ہیں۔ حماس جو شامی حکومت کے حوالے سے کسی اور راستے پر چل پڑی تھی، اب پھر سے شام اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ اب شام میں صرف ایک بڑا شہر باقی رہ گیا ہے جو مخالفین کے کنٹرول میں ہے، باقی پورے ملک پر شامی حکومت کا کنٹرول بحال ہوچکا ہے۔ انہی حالات کے پس منظر میں صدر بشار الاسد نے اپنی گذشتہ مدت صدارت کے خاتمے پر یہ محسوس کیا کہ وہ بروقت انتخابات کے ذریعے اپنی قانونی پوزیشن کو مستحکم کرسکتے ہیں اور انھوں نے یہ عمل پوری کامیابی سے انجام دے لیا ہے۔

ہمارے مذکورہ بالا نقطۂ نظر کی تائید شامی حزب اختلاف کے سابق سربراہ معاذ الخطیب نے مصر کے دورے پر مصری وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران یہ کہہ کر دی کہ فرینڈز آف سیریا دراصل شام کے دشمن ہیں۔ معاذ الخطیب آٹھ رکنی وفد کے ہمراہ مصر کے دورے پر پہنچے ہیں۔ کئی اہم نشریاتی اداروں نے 10 جون 2014ء کو اس سلسلے میں خبر دی کہ انھوں نے مصری وزیر خارجہ سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ فرینڈز آف سیریا میں سے ہر ایک شام کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے استعفے کا ایک سبب یہ تھا کہ میں شام کی تقسیم کے متعلق ترک اور عرب منصوبے پر عمل نہیں کرسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ صوبہ قنیطرہ کو شام کے سے جدا کرنے کا سعودی عرب اور اسرائیل کا منصوبہ اب بے نقاب ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ معاذ الخطیب کو امریکا، سعودی عرب اور ترکی وغیرہ جو فرینڈز آف سیریا کہلاتے ہیں، نے مل کر شامی اپوزیشن کا پہلا سربراہ منتخب کروایا تھا۔ مزید برآں سلفی جماعت حزب النور نے بھی ایک خفیہ بیان میں کہا ہے کہ شامی حکومت کو گرانے میں سلفیوں کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں اور تمام اراکین شام مخالف جنگجوؤں کی مخالفت یا حمایت سے پرہیز کریں اور ایک مناسب موقف اختیار کرکے بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔

اگرچہ منقسم فرینڈز آف سیریا ایک بڑی شکست سے دوچار ہوچکے ہیں، لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کے سینے میں بہت سے ارمان باقی ہیں اور وہ شام اور اس خطے کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، تاکہ اسرائیل کی طرف عرب اور مسلم عوام متوجہ نہ ہوسکیں اور اسرائیل کی صہیونی حکومت محفوظ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اوباما نے اپنے عوام کی منشاء کے خلاف شام میں حکومت مخالف دہشت گردوں کو جدید ٹینک شکن میزائل فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صدر اوباما نے حال ہی میں مشرق وسطٰی میں دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ کے لیے 5 ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

لہٰذا یہ سوال کہ کیا امریکہ نے شام میں اپنی پالیسیوں کی ناکامیوں سے کوئی سبق سیکھ لیا ہے، کا سب سے بہتر جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ’’چور چوری سے تو باز آجاتا لیکن ہیرا پھیری سے نہیں۔‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک امریکی نظام کی ماہیت تبدیل نہیں ہوتی، امریکی پالیسیوں میں معمولی جمع تفریق کے سوا کچھ رونما نہ ہوگا۔ ظالم اور بے رحم سرمایہ داری نظام حکمرانوں کی بصارت کو دھوکے میں مبتلا رکھتا ہے اور بصیرت سے محروم کر دیتا ہے۔ 
فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ(۵۹۔حشر:۲)
خبر کا کوڈ : 391646
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش