0
Monday 6 Oct 2014 19:54

ہماری حقیقی تصویر ....

ہماری حقیقی تصویر ....
تحریر:حسن نثار
hassanhansi@hotmail.com

اس بات کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے کہ اگر صادق اور امین ہونے کو معیار بنا لیا جائے تو ساری پارلیمینٹ ہی نااہل ہو جائے گی یعنی ہماری قسمت میں جھوٹے اور خائن ہی لکھے ہیں۔ 20کروڑ پر مشتمل قوم اگر اپنے بیچ میں سے چند سو صادق اور امین بھی نہ نکال سکے تو واقعی اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ سُر کے ساتھ سُر اور تال کے ساتھ تال ملا کر گائے ...... ’’ہم زندہ قوم ہیں ‘‘۔ تب وہ بہت یاد آئے جو بہت پہلے بہت ہی کام کی یہ بات ہمیں سمجھا گئے کہ جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں یعنی زرداری میرا ’’زرعی‘‘ اور نواز شریف میرا ’’صنعتی و تجارتی ‘‘ روپ ہے، اسفند یار ولی میرا ’’قبائلی‘‘ اور مولانا فضل الرحمن میرا ’’روحانی ‘‘ چہرہ ہے ۔ ایسے میں خود اپنے آپ پر صدقے واری جانے کو جی چاہتا ہے اور وہ بھولا بسرا گیت یاد آتا ہے۔
’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘
ایسے تو کوئی کوزے میں دریا بھی بند نہ کر سکا جیسے سپریم کورٹ نے ہمیں ایک سطر میں ’’سمو‘‘ کے رکھ دیا اور حق بات یہ کہ ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘ لیکن خیر ہے کیونکہ رسوائی بھی شہرت کی آوارہ سی بہن ہے اور یہ مصرعہ نہیں مائنڈ سیٹ ہے کہ ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘۔ شہرت ہونی چاہیئے، وجہ شہرت چاہے دہشت گردی ہو، قرضے ہوں، جہالت ہو یا ایسی ہی دیگر ’’صفات‘‘

ایک بار کسی نجی ٹی وی چینل پر اپنے فرید پراچہ صاحب کے ساتھ تھوڑی سی چخ چخ ہو گئی۔ اس شام بھی میرا موڈ آج کی صبح جیسا ہی تھا یعنی خود احتسابی کا دورہ پڑا ہوا تھا سو میں نے کہا کہ ہمارے حکمران ہی پٹڑی سے اترے ہوئے نہیں، عوام بھی ان سے کئی ہاتھ آگے ہیں۔ اشرافیہ اور عوام میں برائی کا ایسا مقابلہ جاری ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس دوڑ میں آگے کون ہے اور پیچھے کون۔ فرید پراچہ صاحب نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے جوابی حملہ کیا کہ دیکھیں دیکھیں حسن نثار صاحب ایسے غیور اور باشعور عوام پر کس قسم کا تبصرہ کر رہے ہیں۔ پراچہ صاحب جب اپنے تئیں مجھے اچھی طرح کارنر کر چکے تو میں نے عرض کیا ......یہ غیوری اور باشعوری ہی تو ہے جس کی وجہ سے یہ آپ جیسے صالحین کی بجائے ہمیشہ شیاطین کو ووٹ دیتے ہیں۔

واقعی ہم خود تبدیل ہوئے بغیر باقی سب کچھ تبدیل کر دینا چاہتے ہیں جو قانون قدرت کے خلاف ہے۔ ابھی کل کی بات ہے جب ایک سینئر، نیک نام اور بیحد قابل پولیس افسر نے مجھے بتایا کہ ......
نمبر 1: زیادتی (RAPE) کی 80فیصد ایف آئی آرز بالکل بےبنیاد اور جھوٹی ہوتی ہیں۔
نمبر 2: ون ون ٹو ٹو (1122)کو موصول ہونے والی لاکھوں فون کالز شرارتاً اور شغلاً کی جاتی ہیں ۔
نمبر 3: چوری، ڈکیتی کی وارداتوں میں لوٹے یا چرائے جانے والے مال اور رقم کے بارے میں کئی سو فیصد مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے مثلاً اگر دس ہزار روپیہ کیش چوری ہوا ہو تو کئی لاکھ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ معمولی سے سوال جواب کے بعد پکڑا بھی جاتا ہے لیکن غیور باشعور پھر بھی باز نہیں آتے۔
مندرجہ بالا تین حرکتوں پر غورکریں تو تباہی کی تمام تر ’’حرکیات‘‘ فوراً سمجھ آ جائیں گی اور یہ بھی کہ سپریم کورٹ نے جو کچھ کہا، سوفیصد صحیح کہا۔

یہ ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ ایسی دو تصویریں دیکھنی پڑتی ہیں۔ دونوں تصویریں ایک ہی دن اوپر نیچے شائع ہوئی ہیں۔ ایک کا عنوان ہے ...... ’’اربوں روپے کا تاریخی پیکج‘‘ نیچے نواز شہباز کی تصویریں ہیں جن میں دونوں کھرب پتی بھائی مفلوک الحال ترین بوڑھی خواتین کے ساتھ گھل مل کر ان کی ’’دعائیں ‘‘ وصول رہے ہیں اور یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیا اربوں روپے کا یہ تاریخی پیکج جاتی عمرا اپنی ذاتی جیب سے دے رہا ہے جو کروڑوں کی مفت پبلسٹی سمیٹ رہے ہو؟ اور کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہیں کہ سیاسی قابضو! اگر یہی اربوں روپیہ دیانتداری اور سمجھداری کے ساتھ سیلاب سے پہلے اسے روکنے سنبھالنے کیلئے صحیح سمت میں لگایا جاتا تو اس نحوست کی نوبت ہی نہ آتی سو پرائے مال پر جس بات کا تم کریڈٹ لے رہے ہو وہ تمہارا ڈس کریڈٹ ہے ......خوش رہو دوسروں کے خرچے پر! دوسری تصویر میں پھر وہی یوسف ثانی بلکہ اس کی دو تصویریں۔ ایک سولو، دوسری طلباء کے ساتھ، اور مضمون کچھ یوں ہے۔’’ہمیں بھروسہ ہے اپنے نوجوانوں پر، آج لاہور سے لیپ ٹاپ کی تقسیم کا آغاز، طلباء اور طالبات کیلئے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے ایک لاکھ لیپ ٹاپ میرٹ اور صرف میرٹ پر ‘‘ کیا کسی مہذب ملک و معاشرہ میں ایسی تشہیری مہم ممکن ہے؟ لیکن پھر وہی بات کہ جیسا منہ ویسی چپیڑ......جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ بھگتو یا بدلو کہ اب تک تو ...... یہی ہماری صحیح تصویر ہے۔

(بشکریہ از جنگ)
خبر کا کوڈ : 413408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش