0
Wednesday 16 Feb 2011 12:53

خربوزے کا پیٹ

خربوزے کا پیٹ
تحریر:ڈاکٹر آر اے سید
 تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر اتنی حقیقت اور قطعیت کے ساتھ کبھی کبھی ہی ہوتا ہے جیسا 11 فروری کو ہوا۔ مشرق وسطیٰ میں 11فروری کو جہاں آب رود نیل کے فرزندوں نے استعماری قوتوں کے نمائندہ آمر سے آزادی حاصل کی، بالکل ٹھیک اسی طرح 32 برس قبل 11 فروری کو ہی مشرق وسطیٰ کے ہی ایک اور ملک ایران میں ایرانی عوام نے اپنی زبردست مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں استعماری قوتوں کے ایرانی نمائندے شاہ ایران کے وفادار فوجیوں پر فیصلہ کن فتح حاصل کی تھی۔ اس طرح انقلاب ایران کی طرح انقلاب مصر کا جنم دن (یوم تاسیس) بھی 11 فروری ہی قرار پاتا ہے۔ مصر کے 82سالہ سابق صدر اور ریٹائرڈ ایئرچیف مارشل حسنی مبارک نے 14 نومبر 1981 سے 11فروری 2011ء تک ملک پر 10ہزار 702 روز حکومت کی۔ اس دوران ان پر ملک میں اور بیرون ملک 6 بار قاتلانہ حملے ہوئے، مگر وہ محفوظ رہے، وہ مسلسل پانچ بار ملک کے صدر بنے۔ وہ مصر کی تاریخ میں محمد علی پاشا کے بعد دوسرے حکمران ہیں جنہوں نے ملک پر طویل ترین حکمرانی کی۔ رواں ماہ کے اوائل میں موٴقر برطانوی جریدے گارڈین نے رپورٹ دی تھی کہ حسنی مبارک اور ان کے خاندانی اثاثوں کی مالیت 70ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جو انہوں نے کرپشن، کک بیکس اور غیرقانونی طریقے سے کمائی ہے۔ اخبار کے مطابق سابق مصری صدر کے اثاثے مصر سمیت برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہیں۔ حسنی مبارک نے اپنے کیریئر کا آغاز مصر کی فضائیہ میں بطور پائلٹ آفیسر کیا تھا بعد میں 1972ء سے 1975ء تک وہ ایئرفورس میں کمانڈر رہے۔
ادھر عوامی احتجاج کے نتیجے میں مستعفی ہونے والے مصری صدر حسنی مبارک کی حالت تشویشناک ہے اور شدید ذہنی دباوٴ کے باعث انہیں فالج کا دورہ پڑا ہے اور وہ کوما میں چلے گئے ہیں جبکہ واشنگٹن میں مصری سفیر سمیع شوکری نے ایک انٹرویو میں حسنی مبارک کی خراب صحت کی تصدیق کی ہے لیکن فالج کے حملے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی التحریر اسکوائر میں مظاہرین کی کثیر تعداد جمع ہے، فوج نے مظاہروں اور جلسے جلوس پر پابندی لگانے پر غور شروع کر دیا، جس کا اعلان کسی بھی وقت متوقع ہے۔ مصری فوج کی جانب سے قاہرہ میں موجود مظاہرین کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ وہاں سے چلے جائیں، افراتفری پھیلانے والے کسی بھی شخص کیخلاف کارروائی کی جائے گی جبکہ عام شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں۔ دوسری جانب ہڑتال کے باعث مصر کے مرکزی بینک نے (آج) منگل تک بینک اور تمام مالیاتی ادارے بند رکھنے کا اعلان کر دیا۔ پیر کے روز بھی دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں مظاہرین کی کثیر تعداد جمع رہی جو اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دوسری جانب مظاہرین کا کہنا ہے کہ مقصد صرف حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے مطالبات میں یہ بھی شامل تھا کہ پائیدار اصلاحات کا عمل موٴثر طریقے سے آگے بڑھایا جائے اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ممکن بنایا جائے۔ مصری اپوزیشن اب تک کے فوجی حکومتی اقدامات سے خوش ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، ایمرجنسی ختم کی جائے، فوجی عدالتوں کو غیر فعال بنایا جائے اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کی جائے۔ تاکہ ملک میں سول دور حکومت کا آغاز ہو سکے۔ مصر کی فوج سرکاری ملازمین کی طرف سے کی جانے والی ہڑتالوں کے خلاف پابندی کا اعلان کرنے کی تیاری کر رہی ہے جب کہ یہ انتباہ بھی دیا جائے گا کہ فوج افراتفری اور بدنظمی روکنے کیلئے عملی اقدامات بھی کرے گی۔
یہ بات مسلم ہے کہ ایک نیا مشرق وسطی وجود میں آ رہا ہے۔ تیونس سے شروع ہونے والی عوامی تحریک اب دوسرے ممالک تک پھیلتی جا رہی ہے۔ تیونس کے ایک نوجوان نے اپنے آپ کو آگ لگا لی تھی، جس کے بعد اس ملک میں آزادی سمیت اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لۓ عوام نے وسیع سطح پر احتجاجات کا سلسلہ شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں اس ملک کے صدر زین العابدین بن علی کو فرار ہونا پڑا۔ یہ عوامی تحریک مزید وسعت اور بھرپور اسلامی تشخص کے ساتھ مصر میں شروع ہوئی، یہاں بھی تیس برسوں تک مصری عوام کی قسمت سے کھیلنے والا ڈکٹیٹر حسنی نامبارک عوامی انقلاب کا مقابلہ نہ کرسکا اور آخرکار اس نے صدارت سے استعفی دے دیا اور اختیارات فوجی کونسل کو سونپ دییۓ۔
مصر اور تیونس کے بعد اردن، یمن اور الجزائر میں بھی حالیہ دنوں میں ان ممالک کے عوام نے اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کیۓ۔ الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کے خلاف وسیع مظاہروں کی خبر ہے۔ الجزائر کے دارالحکومت الجزیرہ میں سخت حفاظتی انتظامات کرتے ہوۓ تیس ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گيا ہے۔ مصر کے ڈکٹیٹر کی حکومت کے خاتمے کے بعد الجزائر کے عوام نے مصر کے عوامی انقلاب کی حمایت میں جلوس نکالے۔ پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ مظاہرے تشدد کا رخ اختیار کر گۓ۔ عوام اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئيں۔ جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوۓ اور متعدد کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
الجزائر کی طرح اردن میں بھی اسی سے ملتے جلتے مظاہرے کۓ گۓ۔ اردن کے سیکڑوں طلباء نے بھی مصری عوام کے انقلاب کی حمایت میں جلوس نکالا اور امان کی نئی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ ہفتے عمان حکومت کی پالیسیوں کے خلاف عوامی احتجاجات میں شدت آنے کے بعد سمیر رفاعی کو وزارت عظمی کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا اور معروف بخیت کو نئي کابینہ پر مامور کر دیا گیا۔ چہروں کی یہ تبدیلی بھی اس ملک کے عوام کو راضی نہیں کرپائی ہے اور اردن میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
یمن میں بھی صورتحال اسی سے ملتی جلتی ہے۔ جمعہ کے دن تحریک جنوب کے ہزاروں حامیوں نے اس ملک کے جنوبی صوبوں میں مظاہرے کیۓ۔ دریں اثناء انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں اور اس ملک کے طلباء نے بھی یمن کے دارالحکومت صنعا میں حکومت مخالف مظاہرے کئے۔
اس میں شک نہیں کہ مشرق وسطٰی ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔ زین العابدین اور حسنی مبارک کی حکومتوں کی سرنگونی عرب ممالک پر مسلط دوسرے ڈکٹیٹروں کے لۓ خطرے کی گھنٹی ہے۔ بہت سے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب ایک نیا مشرق وسطٰی وجود میں آ رہا ہے۔ اور اس میں کوئي شک نہیں کہ خطے میں عوامی حکومتوں کی تشکیل اور امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی مشرق وسطی پر حکمفرما نئی صورتحال کا ہی نتیجہ ہے۔ عرب عوام کے خلاف امریکہ بھی کہیں وہی طرزعمل اختیار نہ کر لے، جو اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی عوام کے ساتھ کر رکھا ہے۔ اگر صدر اوباما پر دباؤ ڈالنے والے، درندہ صفت صیہونیوں نے عقل و فہم سے کام نہ لیا، تو امریکہ کو یہ ظالمانہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر کے، وہ درحقیقت اسرائیل کے لئے خطرات پیدا کر یں گے۔
یوں تو اسرائیل جنم لیتے ہی خطرات سے دوچار ہے اور اس کا وجود بقول نذیر ناجی ہر وقت نیزے کی انی پر رکھے ہوئے خربوزے کی طرح ہے، جس کا پیٹ ذرا سی جنبش سے چاک ہو سکتا ہے۔ ابھی تک نیزے کی انی میں جنبش نہیں آئی اور وہ بچتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ سوا سو ملین عرب عوام کو زیادہ دیر تک اتنی سختی سے جکڑ کر نہیں رکھا جا سکتا کہ وہ اس نیزے کی انی میں ذرا سی جنبش بھی پیدا نہ کر سکیں، جس کے ہلتے ہی اسرائیل کے خربوزے کا پیٹ پھٹ جائے گا۔

خبر کا کوڈ : 55025
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش