0
Sunday 20 Feb 2011 00:12

ڈکٹیٹروں کا انجام

ڈکٹیٹروں کا انجام
تحریر:محمد علی نقوی
مشرق وسطٰی میں امریکہ کا اثر و رسوخ ختم ہو چکا ہے اور اب اس علاقے میں اس کی بات کوئی نہيں مانے گا۔ مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو عوامی انقلاب کے سامنے آخرکار سرجھکانا پڑا اور وہ بھی ظالم حکمرانوں کے انجام کو پہنچا۔ مصر کا ڈکٹیٹر ایسے عالم میں سرنگوں ہوا جبکہ دنیا میں گيارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا بتیسیوان جشن منایا جا رہا تھا۔ اس موقع پر جب اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور تہران میں دسیوں لاکھ افراد اسلامی انقلاب کی بتیسویں سالگرہ کا جشن منا رہے تھے مصر میں بھی قاہرہ سمیت تمام شہروں میں عوام ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے سقوط اور اسکی حکومت کے خاتمے پر خوشیاں منا رہے تھے۔ ایرانی عوام کے انقلاب کی بتیسویں سالگرہ کے موقع پر مصر کے عوام کے انقلاب کا کامیاب ہونا اپنے دامن میں بہت سی عبرتیں اور سبق لئے ہوئے ہے۔
یاد رکھیں ایران کا سابق بادشاہ محمد رضا پہلوی ایران سے فرار ہو کر مصر گيا تھا اور مصر کے سابق ڈکٹیٹر انور سادات نے اس کا سرکاری طور پر استقبال کیا تھا۔ محمد رضا پہلوی دو برسوں تک ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد دوبارہ مصر لوٹ کر آتا ہے اور مصر کے ظالم حکمران کی پناہ میں قاہرہ کے ایک اسپتال میں گوشہ نشینی کی موت مرجاتا ہے۔ ایرانی عوام نے جس طرح محمد رضا کے فرار ہونے پر جشن منایا تھا اس کے مرنے کی خبر سن کر بھی جشن منایا۔ شاہ ایران ایسا ڈکٹیٹر تھا جس نے ملت ایران کی صدائے احتجاج کو خاموش کرنے کے لئے ہزاروں جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، قید میں ڈال دیا، یا شہر بدر کر دیا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی بتیسویں سالگرہ کے موقع پر حسنی مبارک کی سرنگونی سے معلوم ہوتا ہے کہ حریت پسندی کی آواز خاموش ہونے والی نہیں ہے، ظالم اور جابر حکمراں گرچہ پولیس اور انٹلجنس کی مدد سے چند برسوں تک حکومت کر سکتے ہیں لیکن انہیں بہرحال اپنی قوموں کی صدائے آزادی کے سامنے تسلیم ہونا پڑتا ہے۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ تمام ڈکٹیٹر اور ظالم و جابر حمکران اس وقت قوم کی صدائے احتجاج سنتے ہیں جب وہ آواز آخری مرحلے پر پہنچ جاتی ہے اور اب کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ڈکٹیٹر عوام کو دھوکہ دینے اور ان کے غم و غصے کو کم کرنے کے لئے آخری وقت میں اپنی قوم سے وعدہ کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ بعض حکام کو ان کے عھدوں سے ہٹا بھی دیتے ہیں، لیکن تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ قومیں اس طرح کے مکرو فریب میں نہیں آتیں۔
ایران کا سابق بادشاہ محمد رضا پہلوی، تیونس کا آمر زین العابدین بن علی اور مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی حکومتوں کا انجام ایک جیسا ہوا ہے اور انہوں نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں ہی عوام کی آواز سنی تھی اور اپنے عوام سے وعدے کئے تھے، اور ایک قدر مشترکہ ان لوگوں میں یہ ہے کہ جب عوام نے انہيں نکال باہر کیا تو ان کے مغربی حامیوں نے ان کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ امریکی حکومت نے جو شاہ ایران کی سب سے بڑی حامی تھی اپنے پٹھو کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ اسی طرح سے فرانس نے تیونس کے ڈکٹیٹر کی گرچہ ہر لمحہ حمایت کی تھی لیکن اسے فرانس کی سرزمیں پر قدم رکھنے کی جھوٹے منہ بھی اجازت نہ دی جس کے بعد اس نے آل سعود سے پناہ مانگی جہاں اکثر ڈکٹیٹروں کو پناہ مل جاتی ہے۔ حسنی مبارک بھی اب شرم الشيخ میں اپنی آخری پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں جہاں ان کے کانوں عوام کی صدائے احتجاج نہ پہنچ سکے۔ لیکن ابھی کسی حکومت نے انہیں پناہ دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہےکہ مصر اور تیونس کے عوامی انقلاب، اسلامی انقلاب کے جھٹکے ہیں جن سے علاقے میں آمرانہ حکومتوں کی بنیادین ہلتی نظر آ رہی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلامی انقلاب نے مسلمانوں میں بیداری کا شعور جگایا ہے۔ مصر اور تیونس میں ایسے ظالم اور جابر حکمرانوں کی حکومت تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ حکومت ان کی میراث اور ان کے گھرانے کا حق ہے، یہ حکومت ان کی آيندہ نسل میں بھی چلنی چاہیے۔ یاد رہے امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے ان آمرانہ حکومتوں کی بھرپور حمایت کی تھی البتہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے بلند بانگ دعووں کے ساتھ ، اب یہ حکومتیں ختم ہو چکی ہیں اور بہت جلد حسنی مبارک اور بن علی، محمد رضا کے انجام سے دوچار ہو جائيں گے۔ مصر میں حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کے ختم ہونے کےب عد اب مغرب کو یہ فکر لاحق ہو چکی ہےکہ قدس کی غاصب حکومت کے ساتھ ساز باز مذاکرات کا کیا ہو گا۔ مصر وہ واحد افریقی ملک ہے جو نہ صرف افریقی ملکوں کے حالات بلکہ مشرق وسطی امن مذاکرات میں بھی بنیادی کردار کا حامی ہے۔ مصر کے سابق حکمران انور سادات نے انیس سو اکیاسی میں امریکہ کی وساطت سے صیہونی حکومت کے ساتھ کیمپ ڈیویڈ معاھدہ کر کے عربوں اور مسلمانوں سے خیانت کی تھی لیکن ملت مصر نے اس حقارت اور ذلت کو برداشت نہیں کیا بلکہ کرنل اسلام بولی جیسے انقلابی جوانوں نے انیس سو اکیاسی میں ایک فوجی پریڈ کے دوران انور سادات کو اس کے کئے کی سزا دیدی۔ حسنی مبارک کو انور سادات کا جانشین بنایا گيا اور حسنی مبارک نے بھی اسی کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا بلکہ ان سے کہیں آگے نکل گيا اور اس نے ہر عرب حکمران سے بڑھ کر امریکہ کے اشاروں پر صیہونی حکومت کی خدمت کی اور اس کے مفادات کی راہ میں قدم اٹھائے۔ اسی بنا پر حسنی مبارک کے سقوط کو مشرق وسطی کے معاملات میں بنیادی تبدیلی کہا جا رہا ہے۔ اس سقوط سے مشرق وسطی میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی پالیسیوں پر کافی اثر پڑے گا۔
بوڑھے سامراج کے وزیر خارجہ ویلیم ہيگ نے تیونس سمیت بعض عرب ممالک کے دورے میں کہا ہے کہ تیونس اور مصر کے انقلاب کے تحت پیش آنے والے حالات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کا عمل اپنی تیزی کھو بیٹھے گا اور یہ بھی ممکن ہے اسے ختم کر دیا جائے اور یہ علاقے کے حالات کی بھینٹ چڑھ جائے۔ یورپ کے حکام مشرق وسطی اور افریقہ کا دورہ کر کے تیونس اور مصر کے عوام کی حمایت میں موقف اپنا کر ان کے انقلابوں کو اپنے مفادات کی راہ میں موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان ہی حکام نے ان ملکون میں آمروں کی بھی حمایت کی تھی۔ امریکہ اور یورپ کی ان کوششوں کو حسنی مبارک اور بن علی کی کوششوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جب انہوں نے آخری لمحوں میں عوام کو منانے اور ان کے انقلاب کی آگ کو خاموش کرنے کی سعی رائيگان کی تھی۔
اب بہت سے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کا اثر و رسوخ ختم ہو چکا ہے اور اب اس علاقے میں آس کی بات کوئی نہيں مانے گا۔ مشرق وسطی اور افریقہ میں امریکہ سے شدید نفرت کے اسباب میں یہ ایک سبب بھی ہے کہ امریکہ نے اس علاقے کے ملکون میں ہمیشہ ڈکٹیٹروں کی حمایت کی ہے۔ امریکہ میں باراک اوباما نے ایسے عالم میں وہائٹ ہاوس کی باگ ڈور سنبھالی، جب وہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا دعوی کر رہے تھے لیکن ان کی حکومت کو دو برس سے زیادہ کا وقت گذر رہا ہے اور انہوں نے ایک قدم بھی اس سلسلے میں نہیں اٹھایا ہے۔ بلکہ صرف اور صرف صیہونی حکومت کی حمایت اور اس کے مفادات کی ضمانت پیش کی ہے۔
مصر سعودی عرب اور اردن جیسے ملکوں کی جانب سے امریکہ کی ہمنوائی اور واشنگٹن کا بے دام کا غلام بن جانے سے ان ملکوں کے باشندوں نے شدید حقارت کا احساس کیا ہے اور اسی وجہ سے ان ملکوں نے اس ذلت کو مٹانے کے لئے قیام کیا، ان ممالک کے عوام چاہتے ہيں کہ ان کا ملک فلسطین کے دفاع کی صف میں دیکھا جائے اور اس طرح عرب قوموں کو عزت رفتہ دوبارہ حاصل کرنے کا موقع ملے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مصر کے بغیر صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز مذاکرات کو دوبارہ زندہ کرنے کا کوئي امکان نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپی حکومتوں نے حسنی مبارک کی مدد سے ساز باز مذاکرات کو زندہ کیا تھا تاکہ اس طرح وہ صیہونی حکومت کی حمایت کر کے اسکی توسیع پسندانہ پالیسیون میں مدد دے سکیں۔ ان حالات کے مد نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اس علاقے میں قوموں کی امنگوں کو نظراندار کر کے اب کجھ نہيں کر سکتا، نہ اپنی حمایت سے ظالم و جابر حکومتوں کو باقی رکھ سکتا ہے اور نہ صیہونی حکومت کو قانونی حیثیت دلانے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھ سکتا ہے۔ دوسری طرف سے اس بات کا بھی امکان ہے کہ اگر کسی عرب حکمران نے صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز مذاکرات کو زندہ کرنے کی کوشش شروع کی تو اسے عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا انجام بھی حسنی مبارک اور بن علی جیسا ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 55580
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش