0
Saturday 16 Apr 2011 12:27

احمد شجاع پاشا اور لیون پنیٹا کی ملاقات

احمد شجاع پاشا اور لیون پنیٹا کی ملاقات
تحریر:نصرت مرزا
ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ کے بعد پہلی مرتبہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں رابطے بحال ہوئے۔ گیارہ اپریل کو سی آی اے ہیڈ کواٹرز میں دونوں ماسٹر اسپئیز کے درمیان چار گھنٹے تک ملاقات جاری رہی۔ دو ماسٹر اسپائی ماسٹرز کا ملنا بہت خفیہ ہوتا ہے، اس میں طے شدہ باتیں کبھی بھی منظرعام میں نہیں آتی۔ مگر اس دفعہ اس کو ظاہر کیا گیا اور تفصیلات بھی بتائی گئی۔ پاکستان کا مطالبہ تھا کہ CIA نیٹ ورک کم کیا جائے۔ پاکستان سے کام کرنے کی اجازت لی جائے گی اور یہ بتایا جائے گا کہ ان کے مقاصد کیا ہیں۔ اب امریکی اس بات کو مان گئے ہیں کہ وہ پاکستان کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت کام کریں گے۔ اگر کوئی علاقہ ایسا ہے جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے تو اس کی پوری تفصیل پاکستان کو بتانی چاہئے، حملے کی اجازت ملنے پر حملے کئے جائیں۔ مگر بیانات آ رہے ہیں کہ امریکی اسکو نہیں مانے، اسکے بعد پاکستان نے امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ دوستوں سے رجوع کیا ہے کہ وہ امریکہ کو سمجھائیں کہ ان حملوں سے دہشت گردی میں ا ضافہ ہوتا ہے، امریکی اسکو اپنی سلامتی سے جوڑتے ہیں۔ 
بہرحال اس پر مکمل اتفاق رائے نظر نہیں آتا، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ 13 اپریل 2011ء کو انگور اڈہ کے قریب ڈرون سے جو حملہ ہوا، اس میں پاکستان کی ایماء شامل تھی اور یہ حملہ پاشا، پنیٹا ملاقات کے مطابق ہے یا اس سے الگ ہٹ کر ہے، ہمارے خیال میں یہ حملہ پاکستانی حکام کی مرضی سے ہوا، اسلئے پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ اس حملے میں چھ دہشت گرد مارے گئے۔ ایسے مذکرات انتہائی خفیہ ہوتے ہیں اور تجزیہ میں صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں مگر اس دفعہ آئی ایس آئی نے سی آئی اے سے کہا ہے کہ وہ سارے طے شدہ معاملات احاطہ تحریر میں لائیں۔ تاکہ کوئی نہ کہہ سکے آئی ایس آئی یا سی آئی اے نے پھیلائی یا زبانی بات کرکے کوئی مکر جائے۔ سی آئی اے نے کچھ وقت مانگا ہے۔ مگر اس دفعہ بہت واضح طور پر بات صاف کرنے کو کہا گیا۔ 
جہاں تک اس ملاقات کے پس منظر کا تعلق ہے وہ بہت اہم ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے بعد پاکستان نے بہت سنجیدہ نوٹس لیا۔ اور امریکہ پر واضح کر دیا کہ چھپ کر آپریشن، یا پاکستانی معاملات میں مداخلت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے بعد پاکستان نے اپنے جاسوسی نظام کو بہتر کیا، نیاسسٹم بنایا، امریکیوں کو دوستوں کی صف سے نکال دیا، ان کے ہر کارندے کو نظر میں رکھا، ویزا سسٹم کا جائزہ لیا، امریکیوں کو کیسے ویزے جاری ہوئے۔ وہ کیا کام کرتے ہیں۔ کس طرح کرتے ہیں۔ اب ان کو کام کی نوعیت بتاتے ہوئے ویزا دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے سی آئی اے کا نظام بُری طرح متاثر ہوا۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کی خواہش ہے اس لئے بھی کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ CIA کو افغانستان سے نکلنے کیلئے اپنی Face Saving کی ضرورت ہے۔ ISI کو بھی امریکہ کی ضرورت دہشت گردی اور معیشت کے حوالے سے ہے۔
امریکی اخبارات کے مطابق یہ طے ہوا کہ مخمصہ، شکایات، تحفظات کو دور کیا جائے۔ اگرچہ چھپا ہوا کام ہوتا رہتا ہے مگر دونوں ایجنسیوں کے درمیان اختلافات شدید نوعیت کے ہیں۔ انکو بہتر بنایا جائے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ جو Working Relation ختم ہو گئے تھے ان کو بحال کیا جائے گا مگر پاکستان اس سلسلے میں بہت محتاط ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ اس ملاقات کے بعد پاکستان کے مفادات کا بہتر طور پر تحفظ ہو سکے گا۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے آپریٹر اب کھلے عام نہیں پھر سکیں گے لیکن جاسوسی کا کام کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے امریکہ سے  335 فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا پاکستانی فوجیوں کو تربیت دینے کا پروگرام ختم کیا جا رہا ہے۔ امریکی میڈیا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے یہ معاملہ اٹھایا، مگر صورت حال یہی ہے کہ پاشا نے 355ْ اہلکاروں کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہو گا۔
پاکستان میں مارکیٹ کی خبروں کے مطابق پاشا کا موقف تھا کہ سی آئی اے کی سرگرمیاں پاکستان کی خودمختاری کے منافی ہیں۔ پاشا نے وائٹ ہاؤس کے ریمارکس پر بھی اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاید آپ اس طرح کی ترکیبوں سے پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کا کام لیتے ہیں۔ جو سی آئی اے نے آئی ایس آئی کے کہنے پر پریس کو بیان جاری کیا وہ اُن شکایات سے بہت کم ہے جو پاشا نے کی ہیں۔ گمان ہے کہ پاشا نے یہاں تک کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہے اور اس کو ہتھیانے کے منصوبے کے تحت کام کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آپ ہمارے علاقائی دشمن انڈیا کو ہمارے خلاف صف آرا کر رہے ہیں، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دے رہے ہیں، ثبوت پیش کئے گئے، ہمارے تعلقات پڑوسیوں سے خراب کرانا چاہتے ہیں، انڈیا کو ہم اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دینگے، ایٹمی معاملات میں امریکہ کو انڈیا اور پاکستان کو ایک نظر سے دیکھنا ہوگا ورنہ ہمارے اور آپ کے تعلقات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ پاشا نے اگرچہ الٹی میٹم نہیں دیا، مگر انہوں نے سنجیدہ اور بامعنی گفتگو کی۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 65597
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش