0
Saturday 11 Jun 2011 09:14

بحرین میں ایمرجنسی کا خاتمہ اور پس پردہ حقائق

بحرین میں ایمرجنسی کا خاتمہ اور پس پردہ حقائق
تحریر:ثاقب اکبر
بحرین میں یکم جون 2011ء کو ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ ایمرجنسی 14 فروری کو شروع ہونے والے ان مظاہروں کے بعد لگائی گئی جن میں عوام ملک میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ حکمران خاندان آل خلیفہ اپنے وعدے کے مطابق ملک میں آئینی بادشاہت کا نفاذ قبول کر لے، جیسے اس وقت برطانیہ اور دیگر کئی جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے ستر کی دہائی میں یہی وعدہ اپنے عوام سے کیا تھا جو تاحال پورا نہیں ہوسکا۔
 14 فروری 2011ء کو شروع ہونے والے مظاہروں پر سرکاری پولیس اور فوج نے بے پناہ تشدد کیا اور عوام کے مطالبات کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی، جس کے بعد نام نہاد” قانون ساز اسمبلی“ کے اٹھارہ اراکین جنھیں آج اپوزیشن کے اراکین کہا جاتا ہے، استعفیٰ دے کر عوام کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یاد رہے کہ یہ 18 اراکین بقیہ منتخب شدہ 40 اراکین میں سب سے بڑا گروہ ہے۔ 80 رکنی اسمبلی میں 40 اراکین بادشاہ کے اپنے نامزد کردہ ہیں۔ لہذا بادشاہ کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت بنانے کے لیے صرف ایک منتخب رکن کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس قانون ساز اسمبلی میں ممکن ہی نہیں کہ بادشاہ کی منشاء کے خلاف کوئی قانون بن سکے۔ ایمرجنسی اٹھانے کے اعلان کے ساتھ حکومت نے وقت سے پہلے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا ہے، ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت الوفاق کے راہنما شیخ علی سلمان نے اس پر واضح کیا ہے کہ وہ بنیادی سیاسی اصلاحات کے بغیر انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور نہ ہی اصلاحات کے بغیر ملک میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بننے والی اسمبلی پہلے کی طرح بے اختیار ہو گی۔ انھوں نے کہا پہلے بھی اٹھارہ اراکین مل کر کوئی ایک قانون بھی منظور نہیں کروا سکے اور نہ اب کروا سکیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے، جسے اپوزیشن راہنماﺅں نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ جب تک ملک میں عوام کے جمہوری حقوق کی بحالی کا یقین نہیں دلایا جاتا، ہم کسی قسم کے مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے۔ حکومت عوام کے جمہوری مطالبات کی تحریک کے آغاز ہی سے اپوزیشن راہنماﺅں کو مذاکرات کی دعوت دیتی رہی ہے اور ساتھ ان پر تشدد بھی کرتی رہی ہے۔ اپوزیشن نے پہلے بھی مذاکرات کی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ جب تک ملک میں آئینی بادشاہت کے اصول کے مطابق اصلاحات کا اعلان نہیں کیا جاتا ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔ اپنے انہی مطالبات کی پاداش میں ابھی تک عوام حکمرانوں کا ظلم سہتے آئے ہیں۔ جنھوں نے اپنے ہی عوام کو کچلنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں خلیج تعاون کونسل کی افواج کو بحرین میں داخلے کی اجازت دی۔ انھوں نے بحرین کے عوام پر وہ ستم ڈھائے جس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ انھوں نے لوگوں کے گھروں میں گھس کر چادر و چار دیواری کا تقدس ہی پامال نہیں کیا بلکہ جوانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے اذیت ناک شکنجوں میں کسا اور بہت سوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا۔ انھوں نے مسجدوں کو بھی پامال کیا، قرآن حکیم کے نسخوں کو آگ لگائی، جن میں سے کئی ایک کی افسوسناک تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ بحرین کی شاہی افواج اور سعودی شاہی افواج نے مل کر اولیاءاللہ کی قبور اور مزارات کو مسمار کر دیا، جن میں مشہور صحابی صعصعہ بن صوحان کا مزار بھی شامل ہے، جو آج کھنڈر بن چکا ہے۔
ان وحشیوں نے پرل سکوائر کا عظیم الشان مینار بھی اس غصے میں پامال کر دیا کہ اس کے گرد بحرین کے عوام جمع ہو کر اپنے جمہوری حقوق کی بحالی کا اسی طرح سے مطالبہ کر رہے تھے جیسے قاہرہ کے میدان تحریر میں اکٹھے ہو کر مصری عوام اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
بحرین کی اپوزیشن نے اسی پس منظر میں قانون ساز اسمبلی کے اعلان شدہ نئے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے اور وہ حکومت سے مذاکرات بھی اسی وجہ سے نہیں کر رہی کیونکہ اگر یہی بات ماننا تھی تو عوام کو اتنی بڑی قربانی دینے کی ضرورت کیا تھی؟ بےاختیار اسمبلی تو پہلے ہی موجود تھی۔ ظاہر ہے کہ بحرین کے عوام ایسے راہنماﺅں کو مسترد کر دیں گے جو حکمران سفاک خاندان سے سے ان کے حقوق کا سودا کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
بحرین پر نظر رکھنے والے عالمی مبصرین کے نزدیک یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ بحرین کے حکمران خاندان آل خلیفہ کو ایمرجنسی کے خاتمے کے اعلان کی ضرورت کیوں پڑی کیونکہ یکم جون کے بعد بھی بحرینی عوام پر ظلم و تشدد کا سلسلہ اسی طرح سے جاری ہے۔ یہاں تک کہ چالیس سے زیادہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو صرف اس وجہ سے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انھوں نے حکومت مخالف زخمی مظاہرین کا علاج کیوں کیا۔ ایک بیس سالہ شاعرہ ”آیت القرمزی“ کو حال ہی میں اس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے کہ اس نے منامہ کے جمہوریت پسند عوام کی حمایت میں نظم کیوں لکھی۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کا عمل سرانجام دیا۔ ایک معروف بحرینی شاعر”محمد البوفلاسہ“ کو جیل سے 45 دن کی قید سے رہائی کے فوری بعد نامعلوم الزامات پر پھر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس نے جیل میں بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے جبکہ علاج معالجے کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ آل خلیفہ کی حکومت کو اگر یہی طرز عمل برقرار رکھنا تھا تو ہنگامی حالات کا خاتمہ ”چہ معنی دارد“۔ دراصل بحرینی ولی عہد سلیمان آل خلیفہ کے دورہ برطانیہ اور امریکہ سے پہلے یہ ضروری سمجھا گیا کہ دنیا پر یہ ظاہر کیا جائے کہ بحرین میں حالات حکومت کے قابو میں آچکے ہیں اور ملک میں معمول کی صورت حال واپس آ چکی ہے۔ بحرین کے عوام کو دبانے کے لیے جس طرح کا طرز عمل اختیار کیا گیا وہ خطے میں جاری تحریکوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے مختلف ہے۔ ابھی تک یہ واحد ملک ہے جس میں ہمسایہ ممالک کی افواج داخل ہوئی ہیں اور جنھیں واضح طور پر امریکی و یورپی آشیر باد بھی حاصل رہا ہے۔ اس وجہ سے خود امریکہ پر بھی دنیا بھر میں شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔
دوسری طرف بحرین کے عوام کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ انھیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کا پہلے سے زیادہ ادراک ہو چکا ہے۔ کئی ایک عالمی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ بحرین میں بالآخر ایک حقیقی تبدیلی آئے گی، جس کے فوری اثرات سب سے پہلے سعودی عرب پر ہی مرتب ہوں گے۔ جن سے بچنے کے لیے آل سعود نے آل خلیفہ کی مدد کر کے اپنے سیاہ کارناموں میں ایک اور کا اضافہ کر لیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 78072
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش