0
Monday 19 Mar 2012 11:40

طالبان کو تمام دنیا کیلئے قابل قبول ملکی نظام پر قائل کرنا چاہتے ہیں، ڈاکٹر غیرت بحیر

طالبان کو تمام دنیا کیلئے قابل قبول ملکی نظام پر قائل کرنا چاہتے ہیں، ڈاکٹر غیرت بحیر
حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان ڈاکٹر غیرت بحیر کا شمار افغانستان کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے، آپ حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق افغان وزیراعظم گلبدین حکمتیار کے قریبی رشتہ دار اور معتمد خاص ہیں، طب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے غیرت بحیر برہان الدین ربانی مرحوم کی صدارت میں قائم ہونے والی افغان حکومت کے دور میں اسلام آباد میں افغان سفیر کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں، امریکہ کی جانب سے 2001ء میں افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور 6 ماہ تک بگرام جیل میں قید رہے، ڈاکٹر غیرت غیر رسمی طور پر حزب اسلامی کے بیرونی روابط اور سفارتی سرگرمیوں کے انچارج بھی ہیں، اور انجینئر گلبدین حکمتیار کے نمائندہ کے طور پر امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے حکام کے علاوہ طالبان، القاعدہ اور دیگر افغان جنگجو گروپس کیساتھ مذاکرات میں بھی شریک رہے ہیں، حال ہی میں ڈاکٹر غیرت بحیر نے افغان مسئلہ پر ڈیوڈ پیٹریاس کی قیادت میں اعلٰی امریکی وفد سے اہم ملاقاتیں بھی کیں، آپ آج کل پاکستان میں مقیم ہیں، اسلام ٹائمز نے افغانستان کی موجودہ صورتحال اور خطہ کے مستقبل کے تناظر میں ڈاکٹر غیرت بحیر کیساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، پشتو زبان میں لئے گئے اس انٹرویو کو قارئین کیلئے اردو میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف جاری جہاد کی کیا صورتحال ہے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: بسم اللہ الرحمان الرحیم، جہاد ایک بڑا دینی فریضہ ہے۔ اس میں مسلح جہاد اور تمام دیگر قسم کی جدوجہد شامل ہے، ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں جہاد کا تصور ختم ہو چکا تھا، تاہم افغان مجاہدین نے اسے از سرنو زندہ کیا، ہجرت اور شہادت مسلمانوں کی ڈکشنری سے ختم ہوتی جا رہی ہیں، اس جہاد کے نتیجے میں دنیا میں بڑی تبدیلی آئی ہے، جس کو اب عرب بہار کہتے ہیں، وہ بھی افغان جہاد کا تسلسل ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین نے وہ نتائج حاصل نہیں کیے جس کیلئے جہاد کر رہے تھے۔ تاریخ ایسی شخصیات اور پیغمبروں کے واقعات سے بھری پڑی ہے جو جدوجہد کے باوجود اپنی زندگی میں اپنی جدوجہد کے ثمرات حاصل نہ کر سکے۔ لیکن افغان جہاد کے ثمرات میں سے سب بڑی کامیابی سویت یونین کی تحلیل اور کمیونزم کا مٹ جانا ہے۔ اب کچھ لوگ، امریکہ اور مغرب دہشتگردی کو اسلام سے منسوب کر رہے ہیں لیکن وہ یہ سب کچھ جہاد کی بدنامی کیلئے کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جہاد کے ثمرات ضرور امت مسلمہ کو ملیں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کی افغانستان میں کیا کیفیت ہے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کو اپنے عزائم اور منصوبوں کے برعکس جانا پڑ رہا ہے۔ وہ تو اس لیے آیا تھا کہ جہادی تحریک کو ختم کرے، لیکن اس کے آنے سے یہ تحریک اور مستحکم ہو گئی، افغانستان میں جہاد روز افزوں ترقی کر رہا ہے اور اس میں پورا ملک شامل ہو چکا ہے، امریکہ افغانستان میں جمہوریت اور منتخب مستحکم حکومت کا دعویٰ کر رہا تھا، درحقیقت وہ اس میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔ یہاں جمہوریت آسکی نہ آزاد اور شفاف انتخابات ہو سکے، اور نہ یہاں ادارے بن سکے ہیں، امریکہ اس امر میں بھی ناکام رہا ہے، علاوہ ازیں امریکہ کی اپنی اقتصادی حالت دگرگوں ہے، اور یہ سب اس کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے، تیسری بات یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکہ اور یورپ کی رائے عامہ اس کے خلاف ہو گئی ہے، وہاں کے عام لوگ اب اسے لاحاصل جنگ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ان کے نوخیز جوان کیوں مارے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اس کے احمقانہ اقدامات کا نتیجہ ہے، قرآن کا جلانا اور ایک فوجی کا مقامی شخص کے گھر میں گھس کر بچوں اور خواتین کو قتل کرنا۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جس سے افغانستان بھر میں امریکہ مخالف جذبات بھڑک اٹھے ہیں، لوگ یہ عذر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کہ 23،22 افراد کا قتل ایک دماغی مریض کی کارروائی ہے، ہم پشتو میں کہتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی قبر خود کھودتے ہیں، اور امریکہ افغانستان میں یہی کر رہا ہے، اندرون خانہ قاتل امریکہ کیلئے بہت بڑا درد سر ہیں، افغان پولیس اور قومی فوج انہوں نے اپنے ہاتھوں کھڑی کی ہے، اب اسی میں سے نوجوان اٹھتے ہیں اور امریکیوں کو قتل کرتے ہیں، اور اس کا راستہ روکنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز:حالیہ چند ماہ افغانستان میں مذاکرات کا موسم رہا، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: ایک مذاکرات ہوتے ہیں اور ایک روابط۔ روابط ہر وقت موجود ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ روابط ابھی مذاکرات کی حد میں داخل نہیں ہوئے ہیں، بات چیت ہو رہی ہے، اس حوالے سے ہمارا موقف ہے کہ امریکہ غیر مشروط طور پر افغانستان سے نکل جائے، وہ یہاں پر فوجی اڈے قائم رکھنا اور اس خطہ میں اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ اپنا تسلط رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب اللہ کے اپنے فیصلے ہیں، تاریخ کا تناظر یہ ہے کہ افغانستان آکر اسے فتح کرانے والے جب یہاں سے نکلے تو ان کا وجود خطرات سے دوچار ہوا، برطانیہ کو براعظم سے ہی جانا پڑ گیا، سوبت یونین اور کمیونزم کا تو شیرازہ بکھر گیا، اس تناظر میں کیا امریکہ نکلنا پسند کریگا۔

بلاشبہ امریکہ پر انخلا ء کے بد اثرات مرتب ہو کر رہیں گے، وہ ہر قیمت پر یہاں پر ٹھہرنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے اڈے یہاں ہوں، دنیا میں بڑے ہونے کا جو تاثر اس کا ہے وہ برقرار رہے، اس کی بڑھائی کا طلسم نہ ٹوٹنے پائے۔ لیکن اللہ کے فیصلے دوسرے ہوتے ہیں، سویت یونین بھی تو گرم پانی تک پہنچنا چاہتا تھا، اور خلیج کے تیل کو اپنے قبضہ میں لانا چاہتا تھا، افغانستان اس کی منزل نہیں پڑائو تھا۔ لیکن اس کیلئے یہاں پر ایسے حالات بن گئے کہ وہ شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوا اور اسے یہاں سے نکلنا پڑا، امریکہ کو بھی بہ حالت مجبوری نکلنا پڑیگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے امریکہ اور یورپ کی رائے عامہ کی بات کی، افغانستان کے اندر رائے عامہ کی کیا کیفیت ہے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: امریکہ کے یہاں ہماری رائے عامہ کی کوئی قیمت نہیں، جو ان کی سب سے بڑی حماقت ہے، پورا افغانستان امریکہ مخالف جذبات رکھتا ہے، مٹھی بھر عناصر ایسے ہیں جن کا وجود، کاروبار، مال، دولت اور منصب اس پر ہے کہ امریکہ یہاں موجود رہے، اور اگر وہ نکلتا ہے تو ان کا سب کچھ ختم ہو جاتا ہے لیکن ان کی تعداد ناقابل ذکر حد تک کم ہے، وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں، جہاں تک رائے عامہ کی بات ہے اس کا ثبوت توہین قرآن کیخلاف ہونے والے مظاہرے ہیں، اس میں افغانستان کے ہر خطے کے لوگ شریک تھے بلکہ جنوب کے مقابلے میں شمال میں اس احتجاج کی شدت زیادہ تھی، پشتون علاقوں کی نسبت تاجک علاقوں میں زیادہ زور دار احتجاج ہوا، امریکہ مخالف جذبات مسلسل بھڑک رہے ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ امریکہ کیلئے انتہائی خطرناک امر ہے۔

اسلام ٹائمز: کابل میں امریکہ کے زیر سایہ زندگی کیسی ہے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کابل میں زندگی انتہائی مشکل ہے، عام آدمی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہے، مہنگائی بہت زیادہ ہے، افغان کرنسی کی قیمت غیر فطری طریقہ سے بڑھائی گئی ہے، بازار میں ڈالر چل رہا ہے جو محدود لوگوں کے ہاتھ اور اختیار میں ہے، تمام مارکیٹ اور بازار پر ان کا قبضہ ہے، عام آدمی کیلئے روزمرہ زندگی کے اخراجات برداشت سے باہر ہیں، کابل میں کوئی کاروبار نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی کارخانہ اور صنعتیں ہیں، امریکیوں اور روسیوں کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جب سے یہ افغانستان آئے ہیں انہوں نے ایک اینٹ پر دوسری نہیں رکھی، کوئی ترقیاتی کام انہوں نے نہیں کیا۔ جو کئے ہیں وہ اپنے فوجی مقاصد کیلئے کئے۔ جو کام افغانستان میں ہو رہا ہے وہ نجی شعبہ میں ہو رہا ہے اور محدود لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں، اس سے ملک کی اقتصادی حالت کی بہتری کا کوئی تعلق نہیں ہے، جس استحکام کی بات ہو رہی ہے وہ غیر فطری اور عارضی ہے، ڈالر کے زور پر یہ جو صورتحال نظر آ رہی ہے ایک معمولی تبدیلی آنے سے یہ سب کچھ دھڑام سے گر جائے گا۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں مذاکرات کس سطح پر ہو رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: ہمارے اور حکومت کے درمیان اور ہمارے اور امریکہ کے درمیان مسلسل روابط ہیں، اس کے علاوہ طالبان اور حکومت اور طالبان اور امریکہ کے درمیان بھی روابط ہیں، تاہم میں صرف حزب اسلامی کے روابط کی بات کروں گا، دو مرتبہ امریکہ کیساتھ ہماری رسمی بات چیت ہوئی ہے، دونوں مرتبہ کابل میں ہوئی۔ میں اس وفد میں شامل تھا، امریکہ کی طرف سے سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس، اتحادی افواج کے سربراہ اور کابل میں ان کے سفیر ریان سی کروکر موجود تھے، اس ملاقات میں تفصیلی بات چیت ہوئی، حزب اسلامی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ تنازعات مذاکرات ہی کے ذریعے حل ہوتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہمارا موقف ہے کہ مذاکرات رسمی اور اعلانیہ ہوں، نہ کہ خفیہ پردے کے پیچھے۔ اور ہم خفیہ مذاکرات کے قائل نہیں ہیں۔

ہم دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات افغانستان کے اندر ہوں اور کسی ثالث کی بھی ضرورت نہیں ہے، تیسرا ملک اگر میزبان یا ثالث ہو تو اس کے اپنے مفادات بھی ہوں گے اور ہمارے مذاکرات پر ضرور اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گا، یہاں مذاکرات براہ راست افغانستان میں ہوں اور تیسرا ملک درمیان میں نہ آئے، یہاں پر مذاکرات کیلئے ہماری دوسری دلیل یہ ہے کہ افغانی اور امریکی براہ راست مدمقابل ہوں، ہم ان کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے مختار و مالک ہم ہی ہیں، مذاکرات دو نوعیت کے ہونے چاہئیں۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی سطح پر ہوں اس میں امریکہ، پڑوسیوں اور علاقائی قوتوں سے بات ہو، دوسری نوعیت کے مذاکرات افغانوں کے آپس میں ہوں کہ امریکہ کے جانے کے بعد یہاں کا نظام کیسے چلایا جائے، یہ بین الافغان مذاکرات ہوں، ہمارے اپنے مذاکرات میں ثالث کی بھی ضرورت نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا بغیر ثالث کے افغان اپنے مسائل حل کر سکیں گے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: افغانستان کی اپنی ایک تاریخ ہے، ہمیں بھول جانے کی عادت ہے، ہم ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں اور بغل گیر ہو جاتے ہیں، یہ افغانوں کی خصوصیت ہے، اگر بیرونی مداخلت ختم ہو جائے تو یقین جانیں ہم افغانوں میں اتنی صلاحیت، گنجائش اور ظرف موجود ہے کہ ہم مسائل حل کر لیں گے۔

اسلام ٹائمز: طالبان اور القاعدہ انتخابات کو غلط سمجھتے ہیں جبکہ حزب اسلامی ہمیشہ سے انتخابات کی بات کرتی آئی ہے، جو پوری دنیا کا مقبول اصول ہے، اس قابل قبول موقف کے باوجود حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار پڑوسیوں اور امریکہ کیلئے قابل قبول کیوں نہیں ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: انتخابات ہمارا اصولی موقف ہے، اس میں ہم سب سے آگے ہیں، ہماری اپنی حزب اسلامی میں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں، طالبان کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ ان کو تمام مراحل میں ساتھ (Ingage) رکھا جائے، ان کے ساتھ مل بیٹھ کر مذاکرات کئے جائیں اور افہام و تفہیم پیدا کی جائے۔ ان سے بھی ہمارے روابط قائم ہیں، ان کو ہم اس بات پر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ ایک ایسے نظام پر متفق ہو جائیں جو تمام دنیا کے لئے قابل قبول ہو، ہم ایک عالمی انسانی دور میں رہ رہے ہیں، پوری دنیا ایک ارتقائی گائوں (Global Village) بن گئی ہے، ہم دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے، ہمیں اپنا گھر بنانے کے لئے دنیا کی ضرورت ہے، وسائل اور ماہرین کی ضرورت ہے۔

ہم امریکہ کے نکلنے کی بات کرتے ہیں، ان کی مداخلت ختم کرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس سے قطع تعلق کرنا چاہتے ہیں، افغانی اس کے ہرگز روا دار نہیں ہو سکتے، حکمتیار افغانستان کے اندر انتہائی ہر دلعزیز رہنماء ہیں، ان کی مثال یہ ہے کہ جب شوریٰ نظار (احمد شاہ مسعود) کے ساتھ جنگیں ہوئی تھیں تو آپس کی لڑائیوں کے بعد معاہدہ کے نتیجے میں انجینئر حکمتیار وزیراعظم کے طور پر کابل میں داخل ہو رہے تھے، میں اس وقت ان کے ساتھ تھا، ان کے استقبال کا یہ منظر تھا کہ پورا دارالحکومت جام ہو چکا تھا، وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، حزب اسلامی پورے ملک میں مقبول جماعت ہے، لیکن اگر خدانخواستہ حزب اسلامی بھی منفی ہو جائے تو حکمتیار کی اپنی شخصیت اتنی بھاری بھر کم ہے کہ دوسرے پلڑے میں پورا ملک ڈالا جائے تو برابر ہو گا، انہوں نے چالیس سال جہاد کیا ہے، وہ جہاد اور ہجرت کے بانی ہیں، وہ فطری انداز میں اس مقام پر پہنچے ہیں، ان کو نظر انداز کرنا آسان بات نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت (کرزئی) کے ساتھ آپ کے مذاکرات ہوئے ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: کئی بار ہوئے ہیں لیکن کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں آ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ ملا عمر کو کچھ رعاتیں دینے پر آمادہ نظر آ رہا ہے، کیا انجینئر حکمتیار کیلئے بھی ایسی کوئی پیشکش ہے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: ملا عمر کا نام دہشتگردی کی فہرست سے نکلنے کی باتیں صحیح نہیں ہیں۔ میڈیا میں یہ بات آئی تھی لیکن پھر اس کی امریکہ کی جانب سے تردید کر دی گئی تھی، حکمتیار کو کئی پیشکشیں آئی ہیں لیکن ہم اصولوں کی بات کرتے ہیں، ہم ایک مجموعی پیکج کے قائل ہیں، ہم بنیاد کی بات کرتے ہیں اور اس کا مرکزی نکتہ بیرونی قوتوں کا افغانستان سے انخلاء ہے، بلیک لسٹ سے نکالنا، رعاتیں دینا اور قیدیوں کی رہائی ثانوی باتیں ہیں، یہ پیکج نہیں پیکج کا حصہ ہو سکتا ہے، انجینئر صاحب مجاہد ہیں وہ سختیوں کے عادی ہیں، وہ محلات سے غاروں میں زیادہ خوش ہیں۔ انکو کسی قسم کی رعائتوں کی ضرورت نہیں، وہ اپنی حالت پر مطمئن اور مورچے میں خوش ہیں۔

اسلام ٹائمز: حقانی نیٹ ورک بھی آج کل کافی متحرک ہے۔ کیا حزب اسلامی کے اس گروپ کے ساتھ روابط ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: افغانیوں کی اپنی روایت ہے اور وہ آپس میں روابط رکھتے ہیں، ہمارے روابط ہیں لیکن اصولی طور پرحقانی نیٹ ورک طالبان کا حصہ ہے، ان سے الگ تنظیم نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ میں کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ آپ کا ایک گروپ شامل ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: حزب اسلامی ملک گیر اور پورے افغانستان کی جماعت ہے، اس میں پختون، تاجک، ازبک، تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ لوگ شامل ہیں، پارلیمنٹ میں جو لوگ موجود ہیں یہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں ہیں۔ کسی منصوبہ یا سازش کی بنیاد پر یا ہمارے گروپ کے طور پر نہیں۔

اسلام ٹائمز: افغان مسئلہ پر پاکستان کا کیا کردار دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: ہمارا اصولی موقف ہے کہ افغانوں کو آزاد چھوڑ دیں، پاکستان ہمارا پڑوسی ہے، لہٰذا ہمارے اتحاد میں مثبت کردار ادا کرے، لیکن یہ کردار مداخلت کے معنوں میں نہ ہو، پاکستان کے ساتھ ہم جڑے ہوئے ہیں، ہماری طویل سرحد مشترکہ ہے، ہمارا مذہب، زبان اور لباس ایک ہیں، ہماری روایت ہے ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں اور اس سے احترام کی توقع کرتے ہیں، تاہم مداخلت کا حق کسی کو نہیں دے سکتے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے اور دہشتگردی کی جنگ ہم پر مسلط ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: پاکستان میں جو صورتحال ہے اور لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ امریکی مداخلت ہے، بعض لوگ اسے جہاد کا تسلسل کہتے ہیں اور کلاشنکوف کلچر کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن میں خود اس کا عینی شاہد ہوں اور پورا پاکستان گواہ ہے کہ افغانیوں نے یہاں پر طویل عرصہ گزارا ہے، ہماری پوری قیادت پشاور میں تھی، بلکہ جہادی سرگرمیوں کا مرکز یہی پشاور تھا، ٹریننگ کیمپس بھی یہاں پر تھے، ہماری پوری قوت یہاں موجود تھی، بڑی بھاری موجودگی تھی پشاور میں۔ افغان قونصلیٹ انجینئر حکمتیار کے گھر سے دو سو میٹر کے فاصلے پر تھا، اس پورے عرصہ میں کسی نے قونصلیٹ کی نیند تک میں خلل نہ ڈالا۔ افغان اصولی لوگ ہیں، اسلام آباد میں پورے جہاد کے دوران روس اور افغانستان کے سفارتخانے تھے، لیکن اس دوران کوئی تخریب کاری نہیں ہوئی، کوئی دہشتگردی نہیں تھی، اس کی واحد وجہ امریکی مداخلت ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ امریکہ کی جڑیں یہاں سے نکل جائیں تو پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: افغانستان کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر غیرت بحیر: میرا ایمان ہے کہ امریکہ انشاءاللہ جلد افغانستان سے نکل جائے گا، اور زمینی حقائق بھی مجھے ایسے ہی دکھائی دے رہے ہیں، تاہم امریکہ کے انخلاء سے قبل ہم تمام افغان فریقین مل بیٹھ کر آپس میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی نظام وضع کر لیں، ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے کہ ہر فریق کو اس کی قوت کے مطابق اس نظام میں جگہ دی جائے، اور قومی انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جائے، پھر افغانستان میں امن بھی آ جائے گا اور خوشحالی بھی، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کے لئے  اتفاق رائے پیدا ہو، کہیں امریکہ کے انخلاء کے بعد امریکہ اور دیگر غیر ملکیوں کو یہ بہانہ نہ مل جائے کہ یہاں خانہ جنگی یا اندرونی لڑائی ہے۔
خبر کا کوڈ : 146704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش