0
Saturday 30 Jun 2012 07:38

قرآن و سنت کانفرنس سے ملک میں استحکام آئیگا اور دہشتگردوں کو مایوسی ہوگی، علامہ عبدالخالق اسدی

قرآن و سنت کانفرنس سے ملک میں استحکام آئیگا اور دہشتگردوں کو مایوسی ہوگی، علامہ عبدالخالق اسدی
علامہ عبدالخالق اسدی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے بانی رہنماوں میں شامل ہیں۔ وہ ملکی سیاست، ملی مسائل اور خارجی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نرم خو اور کم گو عبدالخالق اسدی تحریک جعفریہ شعبہ قم کے بھی متحرک رہنما رہے ہیں۔ ان دنوں ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے ان سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل ہونے کی وجہ سے آپ قرآن و سنت کانفرنس کے میزبان ہیں، اب تک کیا انتطامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔؟ 
علامہ عبدالخالق اسدی: قرآن و سنت کانفرنس کے تمام تر انتظامات مکمل ہو چکے ہیں۔ کچھ اضلاع اور تحصیلوں سے کارکنان اور عوام مینار پاکستان پر کانفرنس کی اجازت سے متعلق سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا رسمی طور پر اس کی اجازت انتظامیہ کی طرف سے ہوگئی ہے یا نہیں۔؟ کیا این او سی جاری ہو گیا ہے؟ تو ہم اسلام ٹائمز کے توسط سے تمام قارئین کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بحمد اللہ آج سے 18 دن پہلے این او سی جاری ہوگیا تھا۔ انتظامیہ سے ہماری بات چیت ہوگئی ہے اور ہم ان سے رابطے میں ہیں۔ اس حوالے سے کہیں بھی کوئی مشکل موجود نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں دہشتگردی کے واقعات کا بھی خدشہ ہے۔ اس حوالے کانفرنس کے لئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں۔؟ 
علامہ عبدالخالق اسدی: یہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ بنیادی طور پر تو اللہ تعالٰی ہی ان تمام انتظامات کا کارساز اور وہی بااختیار ہے۔ لیکن اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق جب ہم انتظامیہ سے رسمی اجازت نامہ NOC لیتے ہیں تو تمام معاملات زیر بحث آتے ہیں۔ اس لئے انتظامیہ تمام تر ذمہ داریاں نبھانے کی پابند ہے۔ بطور خاص جلوس جہاں جہاں سے چلیں گے، ہم حکام بالا کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ آئی جی پنجاب اور قومی سلامتی کے دیگر ادارے اپنے ضلعوں کو باقاعدہ احکامات جاری کریں اور انہیں پابند بنائیں کہ جہاں جہاں سے قافلے آنے ہیں، وہاں حفاظتی ذمہ داری کو نبھائیں۔ حالات کا جائزہ لیں اور انتظامات کریں۔ 

انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ جب پر وگرام یہاں ہو اور قافلے آرہے ہوں تو یہاں پر بھی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک ایک شخص اور بڑے اجتماع کی حفاظت کے لئے حتمی اور ضروری ذمہ داریاں نبھائیں۔ انتظامات کا جائزہ لیں اور انہیں مکمل کریں۔ پھر بھی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ہمارے اسکاوٹس، نوجوان اور رضاکار جو عزارداری، مجالس اور عزاخانوں میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہتے ہیں، وہ بھی مامور ہوں گے۔ پورے پاکستان سے اسکاوٹس اور نوجوانوں نے اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر پیش کی ہیں۔ اس عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
 
اسلام ٹائمز: اب تک کی تیاریوں کے مطابق آپ قرآن و سنت کانفرنس میں کتنی تعداد کی شرکت کی توقع کرتے ہیں۔؟
علامہ عبدالخالق اسدی: ہمارا اندازہ ہے اور ہر آنے والے دن میں ہمارا یہ عقیدہ اور بھی پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یہ شرکت کے اعتبار سے پاکستان کی تاریخ کی پہلی بڑی کانفرنس ہوگی۔ بڑی بڑی کانفرنسز مینار پاکستان پر منعقد ہوئی ہیں۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے کامیاب کانفرنس کی اور اس کے بعد بھی مختلف تنظیموں کی کانفرنسز ہوتی رہی ہیں۔ لیکن اتنا بڑا اجتماع مینار پاکستان کی سرزمین پر پہلی بار ہوگا۔ جس میں پورے پاکستان کے گوش و کنار اور کوچہ و بازار سے لوگ، مرد و زن، بچے، بوڑھے اور جوان جوق در جوق جذبہ ایمانی کے ساتھ شریک ہوں گے۔ وہ اپنے گھروں سے لبیک یاحسین (ع) کی فضاوں میں سفر کریں گے اور مینار پاکستان کی سرزمین کو بھریں گے۔ اور انشاءاللہ یہ اجتماع عددی اعتبار سے لاکھوں کا اجتماع ہوگا۔ یہ کراچی میں مارچ میں ہونے والی قرآن و اہل بیت کانفرنس سے بڑا اجتماع ہوگا۔ 

کانفرنس کے بعدایم ڈبلیو ایم کے عہدیداران کے ویژن کی بات ہے کہ وہ اس سے کس طرح استفادہ کرتے ہیں اور اسے کس سمت میں لے جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک پاکستان میں اس کانفرنس سے نئی راہیں کھلیں گی۔ ملک میں استحکام آئے گا۔ امن کی فضا ہوگی۔ دہشتگردوں کو مایوسی ہوگی۔ دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والے خفیہ ہاتھوں کو بھی سوچنا پڑے گا اور انشاءاللہ پاکستان بازی جیتے گا۔ پاکستان کے عوام اپنی نئی لہر اور سیاسی زندگی کا اعلان کریں گے۔ 

اسلام ٹائمز: قرآن و سنت کانفرنس کے اہم مقاصد کیا ہیں۔؟ 
علامہ عبدالخالق اسدی: اس کانفرنس کے مقاصد کے بارے میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کانفرنس کے جہاں ملک پاکستان کو مضبوط کرنے کے مقاصد ہیں، وہیں خود شیعہ عوام کو مضبوط کرنے کے مقاصد بھی مدنظر ہیں۔ پاکستان میں بکھرے لاشے، ہر روز حادثات، دھماکے، عزاداری پر قدغنیں، جلوس ہائے عزا پر قدغنیں، ایف آئی آرز، یہ سب اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شیعیان حیدر کرار کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کو اپنی روٹین کی زندگی گذارنے سے پیچھے ہٹایا جا رہا ہے۔ انشاءاللہ یہ کانفرنس شیعہ قوم کے لئے بڑی سطح پر نئی زندگی کا آغاز ہوگی۔ 

اس کانفرنس کا پہلا ہدف شیعہ قوم میں اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ہے اور دوسرا ہدف بڑی سطح پر وحدت کی فضا کو قائم کرنا ہے۔ اس کانفرنس کا تیسرا ہدف قوم کی تشکیل میں ازسر نو کام کا آغاز کرنا ہے۔ چوتھا ہدف اس میں سیاسی عنصر کا ہے۔ پاکستان کے قیام اور سیاسی مقاصد کا حصول اور عملی قدم اٹھانا ہے۔ اس طرح اس میں وہ تمام بنیادی عنصر موجود ہیں جنکا کسی بھی قوم کی تشکیل میں ہونا اشد ضروری ہے۔ 

اسلام ٹائمز: جب مجلس وحدت مسلمین بنی تھی تو کہا جاتا تھا کہ یہ تنظیم وہ کام نہیں کرے گی جو قومی پلیٹ فارم تحریک جعفریہ پہلے سے کر رہی ہے۔ لیکن آپ نے وہی کام کئے ہیں جو پہلے سے جاری ہیں۔ تو یہ آپ کی اس پالیسی اور آج کے طرزعمل میں تضاد نہیں ہے۔؟ 
علامہ عبدالخالق اسدی: ہرگز تضاد نہیں ہے۔ ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو اس تناظر میں کیا ہو کہ وہ کر رہے ہیں تو ہم نے بھی کرنا ہے۔ ہاں ہر وہ کام کیا ہے جو وقتی طور پر مناسب لگا اور درست محسوس ہوا۔ میں واضح کر دوں کہ انشاءاللہ العزیز ہم ہر وہ قدم اٹھانے کے لئے تیار ہیں جو قومی تشکیل میں موثر ہوگا اور اس مرحلے پر جو گذشتہ سالوں پر محیط خاموشی اور شکست کے بادل کے اندر ایک بے حسی کی کیفیت طاری تھی۔ 

الحمد اللہ مجلس وحدت مسلمین نے آکر اس جمود کو توڑا ہے، ان سایوں سے قوم کو نکال کر ایک متحرک راستے پر قوم کو نئی زندگی کی طرف لے کر آئی۔ تو انشاءاللہ یہ وہ کام نہیں ہیں جو پہلے وہ کرچکے تھے۔ بلکہ وہ کام ہیں کہ جن میں قوم کو پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ قوم کو شہید حسینی کے دور کے وقار کی سطح پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے اعلان کیا ہے کہ قرآن و سنت کانفرنس میں سیاسی روڈ میپ کا اعلان کیا جائے گا۔ سیاسی لائحہ عمل تو شہید عارف الحسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے 6 جولائی 1987ء کو اسی مینار پاکستان پر پہلے سے دے چکے ہیں۔؟ 
علامہ عبدالخالق اسدی: جی بالکل، قائد شہید کے جو افکار تھے، عصر حاضر کے کچھ تقاضوں کے اضافے کے ساتھ وہی سامنے لائیں گے۔ شہید سیاسی لحاظ سے قوم کو مضبوط بنانا چاہتے تھے اور ہمارے بھی وہی مقاصد ہیں۔ ہم ایسا نہیں سوچتے کہ فوری طور پر اسمبلیوں میں پہنچیں اور کوئی ایسا قدم اٹھائیں۔ سیاسی روڈ میپ سے ہماری مراد سیاسی ترجیحات کا لائحہ عمل دینا ہے۔ سیاسی طاقت کا حاصل کرنا ہے۔ قوم کو سیاسی حوالے سے مضبوط کرنا ہے۔ یہ ہمارے عاقلانہ اہداف ہیں۔ جن سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ 

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست ہوسکتی ہے۔؟
علامہ عبدالخالق اسدی: فرقہ وارانہ بنیاد پر سیاست کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جس نے بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر سیاسی قدم اٹھایا ہے۔ وہ قوم کے سامنے بے آبرو ہوا ہے۔ کچھ متعصبانہ جماعتیں اور گروہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہیں کہ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوگا تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ہاں جو پاکستان کی سالمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ دہشتگردوں کی سرپرستی نہیں کرسکتے۔
 
جس کا جو بھی فرقہ ہے وہ دہشتگردی کی اس جنگ سے نجا ت چاہتا ہے۔ اس ظلم سے نجات چاہتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ انصاف ہو۔ آج آزاد عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ سیاسی اعتبار سے لوگوں کا احتساب کرے، وہ دہشتگردوں کا احتساب کرے۔ جہاں انہوں نے ٹریننگ لی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ کون ہیں جو انہیں اس لائن پر لے کر آئے ہیں۔ یہ ہے آزاد عدلیہ کی ذمہ داری، جو کہ بدقسمتی سے ادا نہیں ہو رہی۔ 

ایک یزیدی فرقہ وارانہ گروہ نے جھنگ کے حلقے سے الیکشن لڑا تو آپ دیکھ لیں کہ جو مذہب کے نام پر نفرت کی سیاست کرتے تھے وہ کتنے عرصے سے سیاست سے آوٹ ہیں۔ ان کے پاس ایک ہی حلقہ تھا جو اب نہیں رہا۔ اس لئے جو بھی مذہب کے نام پر سیاست کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔ اور اگر سیاست سے مراد پاکستان کے استحکام کی بات ہو تو کامیابی کا امکان ہوتا ہے۔ جو مذہب کو آڑ بنا کر محض اپنی مادیات کو پورا کرنا چاہتا ہو، تو اس کی مذہب میں کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی حصہ ہوتا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: رحیم یار خان میں کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق نے اذان میں علی ولی اللہ کے خلاف رٹ دائر کی تھی؟ مجلس وحدت مسلمین نے اس پر کیا کام کیا اور قوم کو کیا پیغام دیا ہے، کیونکہ علی ولی اللہ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔؟ 
علامہ عبدالخالق اسدی: ملک اسحاق نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر قدم اٹھایا ہے۔ جو سوچ سے بھی بالاتر ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ قوم بڑی relaxed اور پر سکون ہے۔ قوم اس کیس کو سنبھالے گی۔ ہمارا معمولی سا وکیل اور عام شیعہ بھی اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس رٹ کی کوئی حیثیت نہیں، ضرورت پڑی تو بڑے پیمانے پر بھی منصوبہ بندی کریں گے۔ مجلس وحدت مسلمین اس حوالے سے میدان میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 175124
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش