1
0
Thursday 19 Jul 2012 18:12

ملی یکجہتی کونسل نے ماضی میں بھی اہداف حاصل کئے اب بھی کامیاب ہوگی، حافظ حسین احمد

ملی یکجہتی کونسل نے ماضی میں بھی اہداف حاصل کئے اب بھی کامیاب ہوگی، حافظ حسین احمد
حافط حسین احمد کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے، چار بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہیں۔ 1988ء میں جب وہ پہلی بار ایم این اے منتخب ہوئے تھے تو قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بھی تھے۔ وہ حافظ قرآن ہیں اور درس نظامی کی ڈگری بھی لے رکھی ہے۔ اپنی حاضر جوابی اور محفل کو زعفران زار بنانے والے جملوں کے حوالے شہرت رکھتے ہیں۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے علاوہ نائب صدر بھی رہ چکے ہیں، اپنے فیصلوں پر قائم رہنا اور بے باک انداز بات کرنا حافظ حسین احمد کا خاصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ایشو اور حقوق نسواں بل کی منظوری پر پارٹی نے اجتماعی استعفٰی نہ دیا تو حافظ حسین احمد علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ آپ اس وقت ملی یکجہتی کونسل میں جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اُن سے بلوچستان کی صورتحال، ملک میں جاری فرقہ واریت کے واقعات سمیت ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، تفصیلی ہونے کی وجہ سے انٹرویو کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جس کا پہلا حصہ شائع کیا جاچکا ہے، حافظ حسین احمد کی بات چیت کا یہ دوسرا حصہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حافظ صاحب، نیٹو سپلائی کے بارے میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر کوئی بات کر رہا ہے لیکن اُن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، جنہوں نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہو یا آج نیٹو سپلائی کی بحالی کا معاملہ، ہمیشہ مشکل وقت میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ آج اگر نیٹو سپلائی بحالی کی بات کی جا رہی ہے تو اسی برادر اسلامی ملک کا ہاتھ ہے، جو ہمیشہ امریکہ کا مشکل وقت ساتھ دیتا ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
حافظ حسین احمد: سوال یہ ہے کہ خودمختاری کا دعویٰ کون کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کا اختیار ہمارے پاس ہے یا برادر اسلامی ممالک کے پاس؟ دنیا کی سب سے طاقتور ترین فوج ہمارے پاس ہے یا کسی اور ملک کے پاس۔؟ سب سے بڑی اسلامی جمہوریت ہم ہیں یا کوئی اور ہے؟ اگر ایک شخص کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص بلیک میل کر رہا ہے، ہم کہتے ہیں جو بلیک میل کر رہا ہے اس پر بھی لعنت ہے اور جو بلیک میل ہو رہا ہے اس پر بھی لاکھوں بار لعنت ہے۔ آپ ایسے ممالک کو اسلامی ممالک نہ کہیں۔ ان کو تو یہود و نصاریٰ نے صرف اپنے مفادات کی خاطر رکھا ہے۔ جس طرح سعودی عرب جمہوریت کی بات کرتا ہے، لیکن اس میں جمہوریت نظر نہیں آتی۔ امریکہ ہیومن رائٹس کی بات کرتا ہے، ان ممالک میں ان کو ہیومن رائٹس نظر نہیں آتا۔ پوری دنیا میں وہ کہتے ہیں کہ ہاتھ صاف ہونے چاہیں۔ شاہی خاندان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، لاکھوں کے قریب شاہی خاندان پہنچ گئے ہیں۔ 

اکیسویں صدی میں اسی چھتری کے نیچے جمع ہیں، صرف اس لیے پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے تیل کو امریکہ کے حوالے کیا گیا ہے اور ان حکمرانوں کے تمام اثاثے امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں ہیں۔ شاہی خاندان کے سارے اثاثے یورپ و امریکہ میں ہیں۔ آج کے جمہوری دور میں کون سی وراثت ہے۔؟ سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ ہمیں اس چینل سے غلام بنانا چاہتا ہے تو ہمیں جمہوریت و خودمختاری کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہمیں نیٹو سپلائی بحال ہی کرنا تھی تو ہم نے بند ہی کیوں کی۔؟ اگر آپ نے تھوک کر چاٹنا ہی ہے تو تھوکتے ہی کیوں ہو۔؟ اس وقت ہماری اقتصادی صورتحال کیا ہے، اس کی بنیادی وجہ نائن الیون کے بعد ہمارا امریکہ کے ساتھ تعاون ہے، اور اب مزید اس تباہی کے دہانے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان ہے اور افغانستان کی عوام کی پیٹھ کے پیچھے ہم خنجر گھونپ رہے ہیں اور اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی دوبارہ بحالی یقیناً اچھا شگون ہے، سوال یہ ہے کہ ملک میں جاری فرقہ واریت پر قابو پانے کیلئے کیا حکمت عملی ترتیب دی ہے۔؟
حافظ حسین احمد: دیکھیں ملک میں کوئی فرقہ واریت نہیں، بعض طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر دونوں فریقین کو مشتعل کرتی ہیں اور یوں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مشتعل افراد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر شیعہ اور سنی بحیثیت مسلک ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو پھر شہروں کی گلیوں کی نالیاں خون سے سرخ ہوں۔ مسلک کے حوالے سے شیعہ سنی کی بات نہیں۔ ہم نے یہ سوچا کہ جب یہ حقیقت نہیں اور اس حوالے سے کشت و خون کرکے لوگوں کو مشتعل کیا جاتا ہے، ہم میدان میں آئے اور ملی یکجہتی کونسل کا قیام 1995ء میں عمل میں لایا گیا اور ہم نے سترہ نکات بھی پیش کئے۔ جن پر بظاہر شیعہ، سنی و دیگر فرقے لڑتے ہیں، ان کے لیے وہ انتہائی اہم ہیں۔ رسول اکرم ۖ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، اہل بیت، امام مہدی اور تمام اولیاء کے خلاف زبان درازی کرنے والا مجرم قرار پاتا ہے۔ اس پر شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب نے دستخط کئے۔
 
ملی یکجہتی کونسل نے اپنے اس (پرانے) دور میں یہ ثابت کیا کہ ہم نے تمام معاملات پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس کے بعد حالات بدلے اور ایم ایم اے بنی، جو بعد میں غیرفعال ہوگئی۔ اب جب دوبارہ وہی سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے محسوس کیا اور 25 جماعتوں نے 21 مئی کو دوبارہ بیٹھ کر ملی یکجہتی کونسل جو غیرفعال تھی اس کا احیاء کیا۔ اس کے بعد 18 جون کو ہم نے پانچ کمیشن بنائے۔ جس میں خطباء کمیشن ہے، تاکہ عوام کے سامنے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے لیے صرف قرآن و سنت کے مطابق بات ہو اور اس قسم کے معاملات جن سے اشتعال پھیلتا ہے ان پر نظر رکھی جائے اور انہیں روکا جائے۔ اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام فرقے اور تمام تر مسالک کے نمائندگان اور آئینی راہ، آئین آرٹیکل 230 کے مطابق پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرے۔ اس وقت 9 ہزار صفحات پر سفارشات پارلیمنٹ کو پیش کر دی گئی ہیں، لیکن اس پر قانون سازی نہیں ہو رہی، اس کے لیے راہ ہموار کرے۔
 
اس کے علاوہ چھوٹے موٹے جھگڑوں نعرہ بازی، جھنڈوں، بیانات پر جیسا کہ چکوال میں ایک دو واقعات ہوئے، اس کے لیے بھی ہم نے ایک مصالحتی کمیشن بنایا ہے اور اس کے لیے ہم چکوال گئے اور معاملات کو خود ہینڈل کیا۔ اسی طرح کوئٹہ میں بھی ہم نے اپنے افراد بھیجے اور معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، لیکن بنیادی طور پر معاملات میں اتنی گرفت ہماری نہیں جتنی انڈر گرائونڈ لوگوں کی ان معاملات پر ہے اور پھر بیرونی مداخلت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ہے اور وفاقی حکومت پر ہے۔ تاکہ ان سازش کاروں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس کے لیے ہم نے ایک ثالثی کمیشن بھی بنایا ہے، تاکہ وہ تمام تر تحقیقات کو سامنے لائے، کیونکہ مسلک کے حوالے سے مسائل معمولی ہوتے ہیں، ان مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن کام کرے گا۔ اس کے علاوہ تعلیمی کمیشن بھی بنایا ہے۔
 
ہمارا نظام تعلیم طبقاتی ہے، ہمارا سلیبس غریب کا بچہ نہیں پڑھ سکتا، جبکہ امراء کے بچے بڑے سکولوں و کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہم اس تعلیم اور دینی مدارس کی تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک تعلیمی کمیشن بنایا ہے۔ جس میں 5 مدارس سے ایک ایک نمائندہ لیا جائے گا اور جدید تعلیم کے اداروں سے 5 افراد منتخب کریں گے، جو ملک کے لیے سفارشات مرتب کریں گے۔ ہمارا 25 جماعتوں کا اتحاد سیاسی ہے، یہ غیرسیاسی نہیں۔ یہ ساری سیاسی جماعتیں ہیں۔ سیاست ہمارے مذہب کا حصہ ہے۔ بقول اقبال کے کہ ''جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی''۔ البتہ یہ کوئی انتخابی اتحاد نہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارا ایک سربراہی اجلاس منعقد ہوا جو کہ کامیاب رہا۔ 4 جون سے لیکر اب تک ہم نے جتنے بھی فیصلے کیے، وہ ہم نے پیش کیے۔

اسلام ٹائمز: ایک عام تاثر یہ ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کا پہلے قیام عمل آیا اور وہ اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی، جس کی بنیاد پر ایم ایم اے بنائی گئی، وہ بھی ناکام ہوگئی تو آج دوبارہ اسی پلیٹ فارم پر تمام احباب آچکے ہیں، کیا اس بار تو ویسا نہیں ہوگا۔؟
حافظ حسین احمد: ہم سمجھتے ہیں کہ اہداف حاصل کرنے کے بعد ہی اس کی اہمیت کم ہوئی۔ اگر آج بھی اس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 1995ء جب سے ملی یکجہتی کونسل بنی تب سے ان تمام واقعات کی شرح صفر تک پہنچ گئی، جب یہ شرح صفر تک پہنچی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اہداف حاصل کیے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آپ کسی ایک ہدف کے لیے کمیشن بناتے ہیں اور جب وہ ہدف پورا ہو جاتا ہے تو اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ جب ان واقعات پر کنٹرول ہم نے پالیا تو اس کا مطلب ہے کہ ملی یکجہتی کونسل نے اپنے اہداف حاصل کر لیے تھے اور اس کی اہمیت کم ہونا شروع ہو گئی۔ اس کا اعتراف ایک طبقے کی طرف سے بھی کیا گیا۔ اگر کسی کو آکسیجن کی ضرورت ہو اور وہ نارمل سانس لے رہا ہو تو اس کو آکسیجن مشین سے دور رکھا جاتا ہے، اسی طرح حالات نارمل ہوگئے اور سیاسی معاملات آگے بڑھ گئے، یہ غیرفعال ہوا، اسی طرح ایم ایم اے بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ غیرفعال ہے، ملی یکجہتی کونسل میں بھی جو افراد بیٹھے وہ تقریباً ایم ایم اے کے ہی افراد ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک اہم سوال یہ کہ وہ گروہ یا وہ افراد جو کسی کی نہیں مانتے، اُن کی فتووں کی الگ سے فیکٹریاں ہیں، جو اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں اور آئے روز ان کی طرف سے فتوے دیئے جاتے ہیں، ان گروہوں کو ملی یکجہتی کونسل کیسے رام کرے گی۔؟
حافظ حسین احمد: میں نے پہلے بھی جو گزارش کی تھی کہ ہم نے جو پانچ کمیشن بنائے تھے، ان کا بھی بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر تمام مسالک کی عبادت گاہوں سے رمضان المبارک کی فضیلت کے عنوان سے خطابات ہوں گے اور اگر کوئی معاملہ ہوگا تو مصالحتی کمیشن اسے سنبھالے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل جس میں شیعہ سنی تمام لوگ شامل ہیں، کی سفارشات پر اگر عمل درآمد ہو جائے تو سارے معاملات ختم ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: جے یو آئی دفاع پاکستان کونسل کا حصہ کیوں نہ بن سکی؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے کیا گیا لانگ مارچ کس کے خلاف تھا۔؟
حافظ حسین احمد: جمعیت علمائے اسلام پارلیمنٹ میں اس وقت ایم ایم اے اور دیگر دینی جماعتوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب نیٹو سپلائی کی بحالی کو پارلیمنٹ کے کندھے کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم نے اس میں مزاحمت کی۔ ہم نے پہلی قرارداد 2008ء میں منظور کروائی۔ ہم حکومت میں بھی اس لیے شامل ہوئے، تاکہ ہم حکومت کو ان چیزوں سے روکنے کے لیے کسی حد تک کامیاب ہوں، کیونکہ حکومت سے باہر بیٹھ کر 94 افراد کی اپوزیشن بھی کوئی کام نہیں کر سکی تھی۔ ہم نے 2008ء میں قرارداد منظور کروائی، اس کے بعد دوسری قرارداد منظور کروائی۔ اس کے بعد تیسری قرارداد منظور کروائی۔ ہم نے پارلیمنٹ میں اپنا بھرپور رول ادا کیا۔ پارلیمنٹ سے باہر جو دینی جماعتیں تھیں، ان کا بھی کچھ فرض بنتا تھا۔ ہم نے کہا کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کی پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوئی، لیکن وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہوگئی ہے۔ جب انہوں نے 27 تاریخ کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تو اس کو ملتوی کرتے وقت کہا کہ چونکہ اب تک نیٹو سپلائی کا فیصلہ نہیں ہوا، جب ہوگا تو ہم لانگ مارچ کریں گے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب تک پارلیمنٹ نے نیٹو سپلائی کی بحالی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ 

جے یو آئی اپنے مطالبات آئین اور قانون کے مطابق لاتی رہی ہے، چاہے وہ قادیانیت کے حوالے سے ہوں، چاہے وہ رسالت (ص) کے قانون کے حوالے سے ہوں، چاہے اسے دوبارہ ختم کرنے کے حوالے سے ہوں۔ ہم نے پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کیا اور قانون کے مطابق کیا۔ دفاع پاکستان کے ساتھیوں نے کہا کہ نہیں ہم لانگ مارچ کریں گے، اس دن ہمارا موقف یہ تھا کہ اب جب تک فیصلہ نہیں ہوتا تو آپ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔ ہمارے اس موقف کی انہوں نے 21 مئی کو خود تصدیق کی کہ ہم لانگ مارچ نہیں کر رہے، چونکہ فیصلہ نہیں آیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس 9 جولائی کو پشاور میں ہوا۔ اس سے پہلے ہمیں اخبارات کے ذریعے پتہ چلا کہ دفاع پاکستان والے ہمیں دعوت دینا چاہتے ہیں، ہم منتظر تھے لیکن دعوت نہیں آئی۔ اس کے بعد خبر لگی کہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ اگر کسی نے دعوت نہ دی تو میں خود جائوں گا، لیکن وہ بھی تشریف نہ لائے۔ میں نے اپنے انداز میں کہا کہ شاید انہوں نے اس لیے کہا ہوگا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور ہمیں نہ لیکر آجائے۔ اس کے باوجود ہماری شوریٰ نے کہا کہ اگر ہمیں دعوت دی جاتی ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے تین چار پروگرام ہوچکے ہیں، مولانا فضل الرحمان نے شرکت نہیں کی، اسطرح مولانا ابوالخیر بھی اجلاسوں میں شریک نہیں ہو رہے، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
حافظ حسین احمد: جہاں تک جمعیت علمائے اسلام کا تعلق ہے تو ہماری شوریٰ نے باضابطہ طور پر ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کی منظوری بھی دی ہے۔ مولانا ابوالخیر کو بھی گزارش کی ہے کہ آپ ضرور اس میں شرکت کریں۔ ہمارے قبائلی و دیگر پہلے سے طے شدہ جرگے تھے۔ جن میں مولانا نے شرکت کرنا تھی، جس کے باعث وہ شریک نہیں ہوسکے، مولانا صاحب نے قاضی حسین احمد صاحب سے فون پر بات کی اور مصروفیات کے باعث عدم شرکت پر معذرت کی۔ مولانا صاحب نے کہا کہ آپ کا جو صوبائی سطح پر گلگت میں پروگرام ہو رہا ہے، وہ آپ 5 ستمبر کو رکھیں کیونکہ میں گلگت میں موجود ہوں گا اور میرے بھی کچھ وہاں پر پروگرام ہیں اور میں آپ کے پروگرام میں بھی شرکت کر سکوں گا۔ 

مولانا ابوالخیر صاحب سے بات ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ ہماری شوریٰ کا اجلاس ہے، اس میں بات کریں گے اور کوشش کریں گے کہ شرکت کریں۔ بنیادی طور پر بات یہ ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے بات چیت ہو رہی تھی، اس میں ہماری چار جماعتیں ہیں۔ قاضی حسین احمد اور نقشبندی صاحب، مولانا منور حسن صاحب۔ بہرحال ان کو یہ خدشہ تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کو ایم ایم اے کے متبادل کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے، جس کا تدارک میں نے پہلے اعلامیہ اور ڈکلریشن میں کر دیا تھا کہ متحدہ مجلس عمل ایک انتخابی پلیٹ فارم ہے، اس کی موجودگی اور اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے سابقہ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ ہم نے کل بھی پروگرام میں یہ بات رکھی تھی اور قاضی حسین احمد صاحب کو میں نے کہا تھا کہ یہ ایم ایم اے کے متبادل نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: سید منور حسن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہونی چاہیے، لیکن اس کی بحالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی عدم فعالیت کی وجوہات کو تلاش نہ کیا جائے۔؟
حافظ حسین احمد: ظاہر ہے تلاش کریں گے، لیکن تلاش کرنے کے لیے بھی تو ایم ایم اے کو بحال ہونا چاہیے۔ جب اجلاس ہی نہیں بلائیں گے تو خامیاں کون تلاش کرے گا، کس پلیٹ فارم پر تلاش کریں گے۔ اگر اپنے اپنے پلیٹ فارم پر تلاش کریں تو دوسرے لوگ آپ کی جماعت کے پابند نہیں ہوں گے۔ لہٰذا جب ہم مشترکہ بیٹھیں گے تو دیکھیں گے کہ یہ معاملات تھے اور غلطی کس کی تھی۔ پس یہ ساری چیزیں بحالی کے بعد ہی ممکن ہیں، بحالی سے پہلے ہرگز ممکن نہیں ہوسکتیں۔

اسلام ٹائمز: جوڈیشل ایکٹویزم کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ عدلیہ نے اگر دوسرے وزیراعظم کو بھی گھر بھیج دیا تو اقتدار کی منتقلی جو کہ قریب ہے نہیں ہو پائے گی، کہیں حالات خراب کرنے کی سازش تو نہیں ہو رہی۔؟
حافظ حسین احمد: اس حد تک تو اتفاق ہے کہ حالات خراب کئے جا رہے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات کون خراب کر رہا ہے، حالات وہ خراب کر رہا ہے جس کو حالات کی خرابی فائدہ دیتی ہے۔ اب حکومت کے دن پورے ہو رہے ہیں اور دن کے پورے ہونے کے بعد جو الیکشن کا منظر ہوگا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس لیے کہ دیگر جتنی بھی پارٹیاں ہیں وہ الیکشن کے لیے تقریباً 70 فیصد تیار ہیں، لیکن حکومت اس کے لیے کبھی تیار نہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ کوئی پنگا ہو، جس طرح بے نظیر ماری گئی اور اس کے خون کو سامنے رکھ کر اس کو آگے بڑھایا گیا۔ 

صدر زرداری صاحب کہتے ہیں کہ شہید بے نظیر کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ کا جملہ غلط ہے، آپ کہیں کہ بے نظیر کو قبر میں پہنچانے والے کا ٹرائل ہم نہیں کرنے دیں گے۔ ساڑھے چار سال میں توانائی بحران میں شدید تیزی آئی۔ اب کسی نئے ایشو کی تلاش میں ہیں اور اب ان کی کوشش یہ ہے کہ فوج کوئی ایسا اقدام کرے اور ہمارا ساتھ دے، لیکن فوج اس کے لیے تیار نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ فوج نے دھنیا پیا ہے، میں کہتا ہوں کہ نہیں انہوں نے دھنیا نہیں پیا بلکہ انہوں نے بادام کھائے ہیں، اسی لیے تو ان کو سمجھ آئی ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اب فوج آئی تو اس مردار میں روح ڈالنے کے مترادف ہوگی۔ وزیراعظم نے چار دن پہلے یہ کہا تھا کہ یہ خیال رکھو کہ جو مجھے بھیجنا چاہتے ہیں میں اکیلا نہیں جائوں گا، سب کو جانا پڑے گا۔ میں بھی وہیں پر موجود تھا، مجھے بہت ہنسی آئی، مجھے میر ظفر اللہ جمالی یاد آئے، جب ہم پارلیمنٹ میں تھے، اس نے کہا تھا کہ میں جمالی ہوں، میں نہیں جائوں گا اور وہی جناب شام کو اکیلے تشریف لے گئے تھے۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی صاحب نے بھی کہا تھا کہ میں اکیلے نہیں جائوں اور بعد میں وہی جناب اکیلے ہی چل پڑے۔
 
اب اس قربانی کی خالی جگہ پر پرویز اشرف کو بکرے کے طور پر باندھا گیا ہے۔ اب جب اس کی بھی قربانی قریب آئی تو زرداری صاحب نے سوچا کہ اب میں بندوں کی بجائے پارلیمنٹ کو کیوں نہ باندھ دوں۔ اس لیے یہ جو بل لایا گیا ہے یہ توہین عدالت نہیں۔ یہ تدفین عدالت ہے۔ اس سے مراد عدالت کو دیوار میں چننا ہے۔ اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ ہم نارمل طریقے سے الیکشن میں نہ جائیں، بلکہ ابنارمل طریقے سے الیکشن میں جائیں، تاکہ ایک مرتبہ پھر مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو اپنی حمایت میں لائیں۔
خبر کا کوڈ : 180444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکر ہے، کافی عرصے کے بعد کوئی اچھا انٹرویو آیا ہے،،،،،،،،،، جس نے بھی کیا ہے اسے میری طرف سے مبارک باد پیش لیکن یہ سلسلہ روکنا نہیں چاہیے،،،،،۔ اب قدس کا مسئلہ آرہا ہے اس پر بھی تمام مکاتب فکر کی شخصیات کو سامنے رکھ کر انٹرویو کریں
ہماری پیشکش