3
0
Thursday 20 Dec 2012 23:59

گلگت بلتستان میں یو ایس ایڈ کے روپ میں سی آئی اے متحرک ہے، سید ہادی حسینی

گلگت بلتستان میں یو ایس ایڈ کے روپ میں سی آئی اے متحرک ہے، سید ہادی حسینی
سید ہادی حسینی کا تعلق اسکردو الڈینگ سے ہے، آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے سابق صدر رہنے کے علاوہ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی سیکرٹری نشر و اشاعت بھی رہ چکے ہیں۔ آپ شعلہ بیاں مقرر اور خطیب ہیں، آپ کا شمار بلتستان کے فعال ترین تنظیمی احباب میں ہوتا ہے۔ تبلیغ و ترویج دین کی خاطر آپ بلتستان بھر کے دور دراز علاقوں میں سفر کی صعوبتیں ہنس کر برادشت کر لیتے ہیں۔ بلتستان کا شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں آپ نے ترویج دین کی خاطر دورہ نہیں کیا ہو۔ اس وقت آپ مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے سیکرٹری تنظیمی امور کے عہدے پر فائز ہیں۔ اسلام ٹائمز نے بلتستان کی موجودہ صورتحال پر ان سے ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس وقت بلتستان کے عوام جن مشکلات سے دوچار ہیں، ان کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

سید ہادی حسینی: جی اس وقت بلتستان کے عوام مختلف مسائل و مشکلات کے بھنور میں ہیں، اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں، حکومتی پارٹی عوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، سکیورٹی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ دہشت گردوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں، معاشی صورتحال تباہ و برباد ہوچکی ہے، بدعنوانی اور اقرباء پروری کا دور دورہ ہے، تعلیمی ادارے نیلام ہوچکے ہیں، کئی لاکھ روپے کے عوض ٹیچر کی اسامیاں بک رہی ہیں، وحدت کے داعی علماء کرام کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے، جبکہ دہشت گرد اور قاتلوں کو ایک دفعہ نہیں بلکہ تین تین مرتبہ جیلوں سے بھگایا جاتا ہے۔ لاشوں پر ناچنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ کوہستان، چلاس اور بابوسر جیسے انسانیت سوز مظالم کے بعد قاتلوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایک عجیب افراتفری ہے، یہاں پر جنگل کا قانون ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور عوام بھی ان حالات سے تنگ آچکی ہے۔ تمام سرکاری اداروں کی رٹ امن پسندوں اور وحدت کے داعیوں کے خلاف قائم ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت ان کمزوریوں کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، بلکہ اپنے بلند و بانگ دعوؤں میں مگن رحمان ملک کی طرح دن کو رات اور رات کو دن کہتے نہیں تھکتی۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت نے گزشتہ ماہ یہ بیان دیا تھا کہ سانحہ چلاس و کوہستان کے بعد کئے گئے مظاہرون میں پیش کئے جانے والے مطالبات منظور ہوگئے ہیں، جبکہ آپ اسے ماننے کو تیار نہیں۔؟

سید ہادی حسینی: یہی تو رونے کا مقام ہے کہ صوبائی حکومت کے قول و فعل میں شدید تضاد موجود ہے۔ اگر سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس اور سانحہ چلاس کے متعلق ملت کی طرف سے کئے گئے مطالبات منظور ہوگئے ہیں تو کہاں ہے ان تمام سانحات کے مجرمین، کہاں ہے قاتل اور قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی جا رہی۔؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سانحات نام نہاد کمیشنوں کے ملبے تلے دب چکے ہیں۔ حکومت سانحہ کوہستان اور سانحہ بابوسر کے دہشت گردوں کے حوالے سے لیت و لعل کا شکار ہے اور کسی حد تک منطقی بھی ہے کیونکہ دہشت گرد کارروائی کرکے پہاڑوں میں فرار ہوگئے، اگرچہ ہیلی کاپٹر کے استعمال سے ان دہشت گردوں کو با آسانی گرفتار کیا جاسکتا تھا، لیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں تھی۔ سانحہ چلاس ان دونوں سانحات سے یکسر مختلف ہے۔ سانحہ چلاس میں وونر فارم کی مسجدوں سے اعلانات ہوئے، تکفیریوں نے اعلان جہاد کیا۔ اس وقت انتظامیہ حرکت میں آکر مسافر گاڑیوں کو راستے سے واپس بھیج سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جب علاقہ بھر کے عوام مسافر بسوں پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار اور قتل و غارت گری شروع کی تو موقع پر موجود پولیس موبائل ٹیم نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ دو درجن سے زائد شہادتوں کے بعد بھی کسی قاتل کو سزا نہیں دی جاتی۔ کہاں ہوئے ہیں مطالبات منظور؟

عزیزم، ان سانحات کے بعد ایک مطالبہ تو قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا تھا، اس پر عمل ہوا کہ نہیں وہ آپ سب کے سامنے ہے، دوسرا مطالبہ شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانا اور پاک آرمی کے حوالے کرنے کا تھا، نہ آرمی کے حوالے کیا گیا اور نہ ہی محفوظ بنایا گیا جو کہ سانحہ لولوسر سے واضح ہوا۔ تیسرا مطالبہ بلتستان سے راولپنڈی تک متبادل سڑک کی تعمیر کا تھا۔ متبادل کی تعمیر تو کجا گلگت سے اسکردو روڈ جس کی منظوری ہوئی تھی اسے منسوخ کر دیا گیا۔ چوتھا مطالبہ آل ویدر فلائیٹ کا تھا وہ مطالبہ بھی ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ پانچواں مزید ہوائی جہاز کی کمپنیوں کی گلگت بلتستان میں سروسز کا تھا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ چھٹا چلاس میں دہشت گردوں کے خلاف آرمی آپریشن کا تھا۔ حکومت نے چلاس کے بجائے مقتولین کے علاقے نگر میں کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر بھی کوئی کہتا ہے کہ مطالبات منظور ہوئے ہیں تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ گلگت بلتستان میں ہونے والے سانحات اور ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں۔؟
سید ہادی حسینی: دیکھیں! اگر کسی کے گھر میں کوئی مسئلہ پیش آئے تو ذمہ دار باپ ہی ہوتا ہے، اس گھر کا سربراہ ہی تمام چیزوں کا مسئول ہے اور اس وقت گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت ہی ان تمام معاملات کی ذمہ دار ہے۔ رہی ان حادثات و سانحات میں کون سے عناصر ملوث ہیں وہ الگ سوال ہے۔ میں یہاں وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتسان اس وقت گریٹ گیم کا حصہ بن چکا ہے۔ صوبائی حکومت کو ان معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں، اگر کسی چیز سے دلچسپی ہے تو اپنا عہدہ اور دوسروں کو زیر کرنے کی دلچسپی ہے۔ گلگت بلتستان اس وقت سی آئی اے، موساد اور بلیک واٹر کے نرغے میں ہے۔ 

دوسری طرف گلگت بلتستان میں پاکستان مخالف دہشت گرد ٹولہ حد سے زیادہ اثر رسوخ کرچکا ہے اور تو اور گلگت اور اسکردو کی انتظامیہ میں تکفیری عناصر کی پشت پناہی کرنے والے افراد موجود ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری کی علاقہ بدری، علامہ آغا علی رضوی کی گرفتاری، علامہ نیئر مصطفوی کی گرفتاری، یوم حسین (ع) پر پابندی کے علاوہ علامہ آغا ضیاءالدین کے قاتلوں کا چیتا جیل سے فرار، چلاس جیل سے قاتلوں کا فرار، استور جیل سے قاتلوں کا فرار، ان دعوؤں کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ میں خلاصے کی طرف آؤں تو صوبائی حکومت کے دن بھی گنے جاچکے ہیں، سیاسی پارٹیاں موسمی پرندے ہیں، ان سے کسی قسم کی توقع عبث ہے۔ اگر کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے تو پاکستان آرمی سے، ریاستی خفیہ اداروں سے اور اسٹبلشمنٹ سے۔ جہاں ان حالات کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے، وہاں ان اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: محترم آپ نے گلگت بلتستان میں سی آئی اے اور بلیک واٹر کی موجودگی اور سرگرمی کی طرف اشارہ کیا ہے، آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔؟

سید ہادی حسینی: یہ ثبوت اور شواہد ان کی سرگرمیوں پر واویلا ہماری خفیہ ایجنسیوں کو مچانا چاہیے تھا، خیر ہم وہ قوم ہے جو ریاستی اداروں سے زیادہ اس وطن سے محبت کرنے والے ہیں، ہمیں دکھ ہوتا ہے درد ہوتا ہے کہ جب پاکستان کی دشمن طاقتیں اس حساس علاقے میں دندناتی پھرتی ہیں اور ثبوت وہاں فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں خفیہ طور پر کام کر رہے ہوں، یہاں تو امریکی کھلے عام سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ نہیں معلوم ایجنسیاں کس طرح کی مصلحت کا شکار ہیں، ورنہ خود ان کے پاس بھی یقیناً معلومات ہوگی۔ گلگت بلتستان میں اس وقت یو ایس ایڈ خفیہ ایجنسی کے طور پر متحرک ہے اور معلومات اکھٹا کر رہی ہے۔ اگر یو ایس ایڈ صرف اور صرف فلاحی ادارہ ہے تو روس نے ان کو ذلیل و خوار کرکے کیوں اپنے ملک سے نکال دیا۔ یو ایس ایڈ پر لگائے گئے الزامات میں خفیہ اطلاعات رسانی کے علاوہ وہاں کی سیاست میں عمل دخل کا بھی تھا۔

یو ایس ایڈ کے یہاں گلگت بلتستان میں قدم رکھتے ہی سانحہ کوہستان، چلاس اور بابوسر رونما ہوا ہے۔ گلگت اسکردو روڈ جس کا سب سے زیادہ فائدہ چائنہ اور پاکستان کو تھا کی منسوخی، کاشغر سے راولپنڈی تک کا ریل ٹریک التواء کا شکار، شاہراہ قراقرم کی توسیع، اسکردو ائیر پورٹ کا انٹرنیشنل ائیر پورٹ نہ ہونا اور دیگر عوامل کے پیچھے امریکی ریاست اور خفیہ ادارے ملوث ہیں، کیونکہ ان ترقیاتی کاموں سے ایک طرف پاکستان کی معیشت بہتر ہونا ہے تو دوسری طرف ان کے معاشی حریف چائنہ کو فائدہ پہنچنا ہے۔ جو امریکہ کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں۔

ایک اور اہم معلومات آپ کو شیئر کرتا چلوں کہ بلتستان کے وہ علاقے جو بارڈرز پر موجود ہیں، وہاں کسی بھی غیر ملکی کے جانے پر پابندی ہے اور باقاعدہ وہاں نوٹس بورڈ لگائے گئے ہیں، جبکہ گذشتہ ماہ امریکی ایمبیسی سے کچھ افراد بلتستان آئے اور ان تمام سرحدی علاقوں کا دورہ بھی کرکے چلے گئے۔ آپ خود سوچیں کہ ان کے پیچھے کونسی طاقت ہے، جس کے بل بوتے پر ہماری آرمی کے قوانین کا احترام بھی نہیں کیا جاتا اور یاد رہے کہ یہ پابندی پاک آرمی کی طرف سے عائد ہوتی ہے بلکہ عرف عام میں ان علاقوں کو آرمی کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کو چاہیے کہ ان علاقے میں امریکی گماشتوں کی سرگرمیوں کو روکیں۔ یوں میں چیلنج کے طور پر کہہ سکتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں یو ایس ایڈ کے روپ میں بلیک واٹر اور سی آئی اے متحرک ہے۔ انہیں سب کو مل کر روکنے کی ضرورت ہے، کیونکہ امریکہ اور اس کی ایجنسیاں اسلام، قرآن اور انسانیت کی دشمن ہیں اور پاکستان کی بقاء بھی ان سے دور ہونے میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 221952
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Mashallah bro, Jazakallah, very informative interview
Pakistan
really it is intresting and informative about GB.
Pakistan
Subhanallah Allah Kare Ki ya Jazaba Har
baltistani k Dil mIen paida ho
ہماری پیشکش