10
0
Monday 10 Dec 2012 01:15
ایم ڈبلیو ایم نے قوم کی سوچ بدل کر اسے بہادر بنا دیا ہے

شیعہ علماء کونسل اگر ملک بھر میں اہل تشیع امیدواروں کو سپورٹ کرتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم بھرپور ساتھ دیگی، ناصر شیرازی

شیعہ علماء کونسل اگر ملک بھر میں اہل تشیع امیدواروں کو سپورٹ کرتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم بھرپور ساتھ دیگی، ناصر شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے، دو مرتبہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی مسؤل رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ متحدہ طلباء محاذ کے بھی صدر رہ چکے ہیں۔ آج کل مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ خوبصورت شخصیت اور دلنشین لب و لہجے کے مالک ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مجلس وحدت مسلمین کی سیاسی سرگرمیوں، آئندہ انتخابات کے حوالے سے لائحہ عمل اور دیگر امور پر ایک تنقیدی انٹرویو کیا ہے۔ امید ہے کہ اس انٹرویو سے ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی سوچ اور آئندہ کا لائحہ عمل واضح ہو جائے گا۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی حکمت عملی کیا ہے اور اس کے خطوط کیا مقرر ہوئے ہیں۔؟

ناصر عباس شیرازی: جب ہم کسی مذہبی سیاسی جماعت کی بات کرتے ہیں تو مجلس وحدت مسلمین مروجہ سیاسی جماعتوں میں سے نہیں۔ ایسی مروجہ سیاسی جماعتیں جو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے ہر طریقہ استعمال کرتی ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے ہر راستہ اختیار کرتی ہیں، ایم ڈبلیو ایم ایسی سیاسی جماعتوں سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ مجلس وحدت مسلمین اصولوں کی سیاست کرنا چاہتی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں ایم ڈبلیو ایم اسلام ناب محمدی (ص) کا نفاذ چاہتی ہے، اسی لیے دیگر تمام مروجہ سیاسی جماعتوں سے ایم ڈبلیو ایم کی سیاست کا انداز بالکل جدا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین درحقیقت ملت جعفریہ کی نمائندہ جماعت ہے۔ پاکستان میں ملت تشیع کو بے توقیر کر دیا گیا ہے اور ملکی سیاست میں بھی ملت تشیع کو پس دیوار لگا دیا گیا ہے۔ قومی معاملات میں بھی ملت تشیع کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ پس مجلس وحدت مسلمین کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ ہم نے سب سے پہلے ملت تشیع کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے اور اس کے بعد ملت تشیع میں بیداری پیدا کرنے کا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد ہم شعور و آگاہی دے کر ووٹ کے ذریعے ملت تشیع کو طاقتور بنائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ واحد مکتب تشیع جس نے آج تک پاکستان کے خلاف سوچا تک بھی نہیں اور مکتب تشیع محب وطن ہے۔ علاوہ ازیں نہ ہی ملت جعفریہ ملک دشمن قوتوں کی آلہ کار بنی۔ پاکستان میں سب سے زیادہ قربانی دینے والی قوم نے اب تک اپنے ہاتھوں سے حب الوطنی کا پرچم نہیں چھوڑا۔ فکری طور پر بھی یہی وہ مکتب و ملت ہے جس نے پاکستان کو بنایا تھا اور آئندہ پاکستان کو مزید آگے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔

ہم اضطراری طور پر مروجہ سیاسی جماعتوں کے انداز کا حصہ ضرور ہیں، جیسے اسی سسٹم میں لوگ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، اسی سسٹم میں لوگ اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے روزمرہ کے امور کو چلا رہے ہیں۔ ہر ایک کی خواہش یہی ہے کہ یہاں پر اسلامی نظام قائم ہو اور ہماری بھی یہی خواہش ہے۔ اسلامی نظام کے تحت پاکستان میں تشیع کا قدرت مند ہونا انقلاب امام زمانہ(ع) کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ قدرت مند تشیع ہی امام زمانہ(ع) کی صحیح معنوں میں مدد کر سکتی ہے۔ پس اسی لیے یہ نقطۂ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم مروجہ سیاسی نظام کا حصہ نہیں۔ ہم حق باوسیلہ حق کے قائل ہیں اور ہم اپنے ہدف کے حصول کے لیے ہر قسم کے راستے کو منتخب نہیں کریں گے۔
 
تیسری بات یہ ہے کہ فی الحال ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ عاقل وہ نہیں ہوتا جو اچھائی و برائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، بلکہ عاقل وہ ہوتا ہے جو دو برائیوں میں سے ایک یا دو خامیوں میں سے کم خامی یا کم برائی کا انتخاب کرے۔ پس ہم ایک آزاد مملکت کا قیام چاہتے ہیں
اور اس کا مرحلہ آغاز اضطراری صورت میں اسی سسٹم کے اندر ہے۔ جس طرح اسی سسٹم میں رہتے ہوئے حزب اللہ لبنان کا ایک مضبوط سیٹ اپ ہے اور اس کا سیاسی سیٹ اپ بھی موجود ہے جو اپنے تشیع کا بھی تحفظ کرتی ہے، اپنی لبنانی شناخت کا بھی تحفظ کرتی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ اپنی اسلامی شناخت کی بھی حفاظت کرتی ہے۔ پاکستان کے اندر اسی سسٹم میں رہتے ہوئے اضطراری طور پر ہمیں اپنی شیعہ شناخت، اسلامی شناخت اور پاکستان کے حوالے سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے زمینہ فراہم کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی پٹھوں اور خود غرض سیاست دانوں سے عزاداری کی حفاظت اور قوم کے دفاع کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔؟

ناصر عباس شیرازی: ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ امریکی پٹھو عزاداری کی حفاظت کریں۔ مجلس وحدت مسلمین نے لوگوں کو یہ اعتماد دیا ہے کہ ہمیں خود میدان میں آنا ہوگا۔ دراصل ملت تشیع کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں۔ وہ لوگ جو اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے عزاداری کرسکتے ہیں، وہ لوگ جو بم دھماکوں کے دوران علم عباس (ع) بلند کیے رکھتے ہیں، وہ لوگ جو روزانہ ہونے والے دھماکوں کے باوجود اگلے روز اپنی تعداد میں اضافہ کرکے عزاداری کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنی طاقت کو اکٹھا کریں اور یکجا ہو کر آواز بلند کریں تو اپنے امور اور اپنے اجتماعات کی حفاظت نہیں کرسکتے۔؟ پس مجلس وحدت مسلمین اسی اعتماد کو قوم کے اندر لوٹانے کی جہدوجہد کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقوں میں سوالات اٹھائے گئے کہ ایم ڈبلیو ایم کی وجہ سے شیعہ قوم تقسیم در تقسیم ہو گئی ہے، مثلاً کچھ لوگ ایم ڈبلیو ایم کو ووٹ دیں گے اور کچھ ان لوگوں کے کہنے پر جو پہلے سے موجود ہیں۔؟

ناصر عباس شیرازی: دیکھیں! شیعہ ووٹ کہاں تقسیم نہیں، کیا یہ درست نہیں کہ پی پی پی شیعہ ووٹ بینک کو اپنا سمجھتی ہے اور اسے یہ ووٹ جاتا ہے۔ جھنگ، بھکر و پنجاب کے دیگر بعض حلقوں میں مسلم لیگ ن یہ نہیں سمجھتی کہ شیعہ ووٹ بینک ان کے لیے بہت ہی کارآمد ہے۔ اگر ملک میں شیعہ ووٹ ایک کروڑ بھی ہو تو یہ پہلے ہی تقسیم شدہ ہے، ہم اس میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم تو صرف اسی تقسیم شدہ ووٹ کو نکال کر اسے ایک جگہ اکھٹا کر رہے ہیں، ہم اس کو وحدت کی لڑی میں پرونا چاہتے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تشیع کا ووٹ یعنی مکتب آل محمد (ع) کا ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں و گروہوں میں تقسیم نہ ہو۔ ایسے لوگوں کو شیعہ ووٹ نہ ملیں جو اہل تشیع کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، پاکستان کی عزت اور سلامتی کو بھی پامال کریں اور شیعہ اس سارے عمل میں ان کا بالواسطہ طور پر ساتھ دیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شیعہ ووٹ کی بناء پر آزاد ہو کر خود پالیسی میکر بنیں اور انشاءاللہ یہ جلد ہوگا۔ پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ ووٹ تقسیم نہیں ہو رہا بلکہ شیعہ ووٹ کو ہم ایک جگہ اکٹھا کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسے امکانات موجود ہیں کہ شیعہ علماء کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کم از کم سیاسی ایجنڈے پر متفق ہوں، تاکہ شیعہ ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکے اس کی طاقت سے اپنے اہداف کو حاصل کیا جاسکے۔؟

ناصر عباس شیرازی: بدقسمتی سے ایم ایم اے بھی پاکستان میں ناکام ہوئی۔ نہ صرف یہ کہ ایم ایم اے سیاسی طور پر ناکام جماعت ہے بلکہ مذہبی حوالے سے بھی ناکام نظر آتی ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو بھی پلیٹ فارم ہو، اس میں موجود تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں آپس کے اختلافات کو بھلا کر کام کریں۔ جب آپ سیاسی اہداف کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب اور ہمارے سیاسی ایجنڈے
میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی ہمارا ایجنڈا مختلف ہے۔ اگر تحریک اسلامی ملک بھر میں شیعہ امیدواروں کی سپورٹ کے لیے کوئی اعلان کرتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم ہر صورت میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ اس کے علاوہ تحریک اسلامی اگر پارلیمنٹ سے تکفیری گروہوں کو باہر نکالنے کے لیے بھی کوئی کردار ادا کرتی ہے تو مجلس وحدت مسلمین کا بھی یہی ایجنڈا ہے۔ ہم تکفیری گروہوں کو ووٹ کی طاقت کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں گھسنے دیں گے۔ اگر کوئی بھی شیعہ سیاسی جماعت ہمارے اس ایجنڈے کے ساتھ کام کرتی ہے تو ہم ان کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا کسی ایک جماعت کے ساتھ کھڑا نہ ہونے سے مسائل پیدا نہیں ہونگے، کیا ایم ڈبلیو ایم کے ورکرز تقسیم نہیں ہوجائیں گے کہ ایک حلقے میں آپ کسی پیپلزپارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کر رہے ہوں اور ساتھ والے حلقے میں ق لیگ کے امیدوار کو سپورٹ کر رہے ہوں۔؟

ناصر عباس شیرازی: ایک وقت میں اگر آپ نے پی پی پی کو سپورٹ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پی پی پی کے ایجنڈے کی سپورٹ کی۔ ہم پی پی پی کے ایجنڈے کی سپورٹ نہیں کرسکتے، مسلم لیگ ن اور ق کے ایجنڈے کی بھی سپورٹ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد ہم شخصیات کی بات کرتے ہیں۔ ہم کسی ایک پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی نہیں کرسکتے۔ ہم پارلیمنٹ میں صرف معتدل لوگوں کو بھیجنا چاہتے ہیں۔ تکفیری گروہوں کے لوگوں کو پارلیمنٹ سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کی تعداد کو پارلیمنٹ میں بڑھانا چاہتے ہیں۔ پس ہم اس ایجنڈے کو مستقل طور پر چلائیں گے اور کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: جھنگ کا حلقہ بہت ہی اہم ہے، وہاں پر ایم ڈبلیو ایم کسے سپورٹ کریگی، یعنی اختر شیرازی کو یا پھر امان اللہ خان سیال کو؟ کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ شیخ وقاص اکرم کو ہرانے کے لیے ایم ڈبلیو ایم نے اختر شیرازی کو الیکشن کے لیے کھڑا کیا ہے۔؟

ناصر عباس شیرازی: پہلی بات یہ کلیئر ہونی چاہیے کہ اختر شیرازی صاحب کو ہم نے الیکشن کے لیے کھڑا نہیں کیا، بلکہ وہ خود اس سیٹ کے لیے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے پاس اپنے دلائل اور ثبوت ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے وہاں کے لیے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ جھنگ میں ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ وہاں پر لوگوں کو جنہوں نے یرغمال بنایا، ہم انہیں یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ آپ نے شیخ وقاص اکرم کی بات کی تو شیخ صاحب نے کبھی بھی شیعوں کو سہولیات نہیں دیں بلکہ شیخ وقاص صاحب تو یہ سمجھتے ہیں کہ شیعوں کی مجبوری یہ ہے کہ انہوں نے تکفیری گروہوں کے مدمقابل ان کا ساتھ ضرور دینا ہے، اس کے علاوہ شیعوں کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود شیعہ اب بیدار ہوچکے ہیں اور وہ اپنا اچھا برا خود خوب سمجھتے ہیں۔ اختر شیرازی صاحب کا الیکشن کے لیے کھڑا ہونا بھی شیعہ بیداری کا واضح ثبوت ہے۔
مجلس وحدت مسلمین جھنگ کے حوالے سے ابھی مزید اجلاس کرے گی اور ان اجلاسوں میں فیصلے کی روشنی میں کسی بھی امیدوار کی سپورٹ کی جائے گی۔ امان اللہ خان سیال صاحب ہماری بہت ہی پرانی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کی بہت ساری کاوشیں ہیں۔ امان اللہ خان سیال اس الیکشن میں اختر شیرازی صاحب کے مدمقابل کھڑے نہیں ہوئے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی اب تک سیاسی بڑی کامیابی کیا ہے، جسے دیکھ کر ایم ڈبلیو ایم سے کوئی امیدیں وابستہ کی جا سکیں۔؟

ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین بالآخر لوگوں کو ایک نظام کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم لوگوں
کو خدا کے نظام کی طرف بلا رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ ایم ڈبلیو ایم کی طرف اس لیے آ رہے ہیں چونکہ یہ جماعت الٰہی جماعت ہے اور اس کا ہدف و مقصد بھی الٰہی ہے۔ آزادی کی کئی قسمیں ہیں، جیسے سوشل آزادی، اقتصادی آزادی، سیاسی آزادی، جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اس وقت سیاسی غلام ہیں۔ ہم پاکستان میں سیاسی طور پر غلام ہیں، کہیں مسلم لیگ ن، کہیں مسلم لیگ ق، کہیں پی پی پی وغیرہ کے، ہم شیعوں کو اسی سیاسی غلامی سے نجات دلا رہے ہیں، انہیں آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ لوگوں کو باور کرا رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ بالآخر طاقت ہے اور اس طاقت کو وہاں استعمال ہونا چاہیے، جہاں ہماری ملت کو سہولیات ملیں، ہماری ملت کو فائدہ پہنچے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ووٹ مثال کے طور پر پی پی پی کو دیں اور اس کے باوجود بھی ملک میں شیعہ نسل کشی جاری ہو۔ وہ لوگ جو شیعہ نسل کشی میں ملوث ہوں اور ہمارا ووٹ بھی انہی کو جا رہا ہو۔

پس یہی پیغام ہم نے عام کرنا ہے اور اپنی قوم کو بیدار کرنا ہے اور انہیں شعور و آگاہی دینی ہے۔ اسی سلسلے میں ہمیں بہت کامیابی بھی ملی ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں لیہ، کراچی، جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، شیخوپورہ سمیت ملک کے دیگر علاقوں کا دورہ کر چکا ہوں، جہاں شیعہ بیلٹ کی ایک بڑی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں جو ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کہے گی ہم وہی کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ کسی وڈیرے کو ووٹ دیں گے، نہ کسی چوہدری کو اور نہ ہی کسی لوکل سیٹ اپ کی بناء پر ووٹ دیں گے بلکہ ہم وسیع تر مفادات کی خاطر ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کے کہنے پر ووٹ دیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین کی لوگوں کو دی ہوئی سیاسی آزادی کا نقطۂ آغاز ہی اس الٰہی جماعت کی کامیابی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی سیاست کی ڈائنمکس کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ مل جائیں اور کوئی جماعت بڑی کامیابی سمیٹ کر حکومت بنا سکے، بقول کسی سیاستدان کے کہ انہیں قربانی کی کھالیں، چندہ اور زکواۃ تو مل سکتی ہے لیکن ووٹ نہیں ملتا۔؟

ناصر عباس شیرازی: پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں صرف مذہبی بنیاد پر ہی ووٹ ملتا ہے۔ پاکستان میں جو اعلانیہ طور پر سیکولر جماعت ہو اور مذہب کا نام بھی نہ لیتی ہو، اس کو ووٹ نہیں ملتا۔ اگر آپ پیپلز پارٹی کی بات کریں تو کیا یہ وہی جماعت نہیں کہ جنہوں نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا، کیا پی پی پی وہی جماعت نہیں کہ جس نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا تھا، پس یہی مذہبی دباؤ ہے۔ یہ تمام اقدامات صرف اور صرف اپنے آپ کو مذہبی ثابت کرنے کا ایک حصہ ہیں۔ پاکستان میں مذہب ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مذہبی جماعتوں پر بھی لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ ایم ایم اے نے خود لوگوں کے اعتماد کو توڑا۔ ہمارے ہاں بدقسمتی تو یہ ہے کہ مذہبی سیاستدان اپنے آپ کو اچھا مذہبی ثابت تو کر لیتے ہیں، ایک اچھا سیاستدان ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔

جب لوگ مذہبی سیاستدان کو ووٹ دیتے ہیں اور بعد میں دیکھتے ہیں کہ اس میں اور مثال کے طور پر عمران خان میں کوئی فرق نہیں یا کسی اور سیکولر سیاستدان میں فرق نہیں، (یہ بھی دیگر لوگوں کی طرح بدیانتی ہی کرتا ہے) تو پھر مذہبی رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جو اپنے وسیع تر اہداف کے لیے اپنے سات ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ووٹ کو بروئے کار لائے گی۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں مبلغین، ذاکرین، خیرالعمل فاؤنڈیشن، امور جوانان، شعبہ خواتین و دیگر ہیں، یہ ایسے ڈیپارٹمنٹ جو ملکر اچھی کوآرڈینیشن کے طور پر کام کریں گے تو انشاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ لوگ ووٹ بھی
دیں گے اور ایم ڈبلیو ایم ایک واضح سیاسی تبدیلی بھی ضرور لائے گی۔

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے کی ماضی کے مقابلے میں کتنی کامیابی کے امکان موجود ہیں۔؟

ناصر عباس شیرازی: میرے خیال میں مخصوص حلقوں کے ذریعے شائد افراد پارلیمنٹ میں آنے میں کامیاب ہو جائیں، ایم ایم اے کا سب سے زیادہ فائدہ مولانا فضل الرحمان کو پہنچے گا، باقی شائد اب یہ اس پوزیشن میں نہیں ہوگی کہ یہ صوبے میں حکومت بناسکے۔ میں ایم ایم اے کو ملاء ملٹری الائنس سمجھتا ہوں اور یہ مسلسل اپنا سابقہ کردار ہی ادا کرے گا۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن ہوتے ریکھ رہے ہیں اور اگر ہوں گے تو کیا صورتحال بن پائے گی۔؟
ناصر عباس شیرازی: بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہو جائیں گے، لیکن سیاسی تجریے سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر نہیں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین نے کونسا ایسا کام کیا ہے جو پہلے نہیں ہو پا رہا تھا، کیا ٹارگٹ کلنگ رکی، کیا قوم کے مسائل حل ہوئے۔ وہی احتجاج، وہی دھرنوں کی سیاست، وہی مینار پاکستان کا اجتماع، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔؟

ناصر عباس شیرازی: یہ آپ کا بہت ہی اچھا سوال ہے۔ میں پہلے عرض کر دوں کہ پہلے بھی پاکستان میں تشیع کا وجود تھا اور آج بھی ہے، جس طرح سے پہلے عزاداری برپا ہو رہی تھی، اسی طرح سے آج بھی عزاداری برپا ہوتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی مثال اس شیر کے بچے جیسی ہے جس نے ابتدائی طور پر ہی (روز اوّل سے) بھیڑوں کے سایے تلے زندگی بسر کی اور اپنی شناخت کھو بیٹھا تھا، لیکن ایک دفعہ وہ صاف و شفاف پانی تک پہنچا اور اس میں اپنا عکس دیکھا تو کہا کہ میں تو ان سے مختلف ہوں، جن کے ساتھ رہ رہا ہوں، میں تو کچھ اور ہوں، بس اس کے بعد اس نے ردعمل دکھایا۔ 

پس مجلس وحدت مسلمین بھی صاف و شفاف پانی کا وہ چشمہ ہے جس نے پوری ملت کو شیر کی طرح زندہ رہنے کا فن سکھایا۔ ایم ڈبلیو ایم نے ملت کو احساس دیا کہ آپ دوسروں سے الگ ہو۔ اہل تشیع کو ایم ڈبلیو ایم نے اعتماد لوٹایا ہے۔ میں نے خود کئی بڑے بڑے شہیدوں کے جنازے دیکھے ہیں۔ لاہور میں شہید کے جنازے میں بیس یا پچاس آدمی شریک ہوتے تھے۔ اس صورتحال میں لوگوں کو اپنے گھروں سے علم عباس (ع) اتارتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن آج ایم ڈبلیو ایم نے قوم سے خوف کے جن کو بھگایا اور قوم میں اعتماد پیدا کیا، جس کی وجہ سے آج کی صورتحال پہلے سے بہت مختلف ہے اور آج قوم ثابت قدم نظر آتی ہے اور اپنے شہداء پر فخر کرتی ہے۔ اہل تشیع کے اجتماعات گلی کوچوں سے نکل کر بازاروں و چوکوں میں آ گئے ہیں اور ملکی سطح پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ کیا آپ خود نہیں دیکھتے کہ ایک شیعہ شہید کیا جاتا ہے تو اگلے روز اس کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دو گنا ہوتی ہے۔

ہم نے ملت کو کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں علامہ ناصر عباس جعفری کو علاقہ بدر کرنے کی کوشش کی گئی تو پورا گلگت بلتستان کھڑا ہوگیا اور بیس گھنٹوں کے اندر وزیراعلٰی گلگت بلتستان کو اپنے احکامات واپس لینے پڑے اور معافی بھی مانگی۔ گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی نے علامہ نیئر عباس مصطفوی کو گرفتار کیا تو اس کے ردعمل میں وہاں کے مکینوں نے آئی جی کو یرغمال بنا لیا۔ ایم ڈبلیو ایم جھنگ کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ اظہر حسین کاظمی صاحب کو 9 محرم کو گرفتار کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پورا شہر بند ہوگیا۔ جس کے بعد بالآخر حکومت کو علامہ اظہر کاظمی صاحب کو رہا کرنا پڑا۔ اسی طرح سرگودھا کے اندر مقامی حکومت نے آرڈر جاری کیے کہ عزاداری کو روکا جائے، لیکن اس کو عملی
جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ یہ سب سازشیں ناکام ہو گئیں اور وہ اس لیے کہ ملت کے اندر شعور و آگاہی پیدا ہوچکی ہے۔

ملت کا اپنے رہبر کے ساتھ رابطہ اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ ملت کا ایم ڈبلیو ایم کے قائدین پر اعتماد بڑھ گیا۔ ملتیں و قومیں صرف اسلحے کے ساتھ ہی نہیں لڑا کرتیں بلکہ اعتماد کے ساتھ لڑا کرتیں ہیں، اپنے مورال کے ساتھ لڑا کرتیں ہیں، اپنے مقصد کی بنیاد پر لڑا کرتیں ہیں اور انشاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ ملت کے جوش و جذبے اور شعور و آگاہی میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ ملت اپنے اہداف و مقاصد کو بخوبی سمجھنے لگ پڑی ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ اس کا دنیا میں کیا مقصد ہے۔ بس اسی شناخت کو تلاش کرنا ہے اور یہی شناخت ملت تشیع کے لیے آئندہ کے حالات میں بہت ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: غزہ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: حماس نے ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کی حفاظت کریں گے اور اسرائیل کو شکست دیں گے۔ اسرائیل نے انقلاب اسلامی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ایران کے بارڈر کے اندر سے ہی انقلاب اسلامی کے اثرات فلسطین اور کشمیر کی سرزمین پر نظر آتے ہیں۔ غاصب اسرائیلی نہ ہی فلسطینیوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور نہ ان کو مسلمانوں کی آزادی پسند ہے اور نہ ہی کشمیر کی آزادی۔ بعض عرب ممالک کی یہ خواہش ہے کہ فلسطین کا معاملہ جلد ختم ہو جائے، تاکہ ان کے اقتدار کے لیے خطرے والے بادل چھٹ جائیں اور وہ اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود جنگ نے اسرائیل کی کمزوری کو پوری دنیا پر آشکار کر دیا ہے۔ حزب اللہ نے کہا کہ اسرائیل نے اگر چھوٹی سے بھی غلطی کی تو پورے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش ہو جائے گی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح اسرائیل کا نقطۂ انحراف ہوچکا ہے۔ نقطۂ انحراف جغرافیائی لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کو شکست دینے سے ہوتا ہے۔ اسرائیل جو پہلے عرب ممالک کو آنکھیں نکالتا تھا، آج وہی اسرائیل اپنی چھ سات کلومیٹر کی پٹی کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کے معاملے کے حوالے سے مصر کے کردار کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: مصر میں ابھی انقلاب پوری طرح سے برپا نہیں ہوا اور انقلاب دنوں کے اندر نافذ نہیں ہو سکتا ہے۔ مصر نے بہت کچھ کیا ہے، لیکن ابھی بھی مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مصر ابھی تک آزادی کی سطح پر نہیں آیا، جہاں اسے آنا چاہیے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بیرونی ممالک کے اسے نرمی کرنی چاہیے اور ان کے لیے سامان کی آمدورفت کو آسان بنانا چاہیے۔ البتہ مصر وہ پہلے والا مصر نہیں رہا، مصر میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ آج مصر اگر آزاد بھی ہے تو بھی اسرائیل کے مقابلے میں کھڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کی صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: شام میں باقاعدہ وہ قوتیں بالکل ناکام ہوچکی ہیں جو شام کے معاملات میں مداخلت کر رہی تھیں۔ شام کی سڑکوں پر ہونے والا ایک عظیم الشان مارچ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد شام کے صدر کے ساتھ ہے۔ شام میں باہر کی طاقتوں کا اسلحہ لے کر آنا مطلوبہ مفاد حاصل نہیں کر سکیں۔ مطلوبہ مفاد حاصل کرنا ہی شام کی فتح ہے اور دہشت گرد اور ان کے پشتیبان کی شکست ہے۔ اب تو اردن میں ایسے مسائل شروع ہو چکے ہیں۔ شام میں اگر کوئی بڑا بحران آیا تو اس کے اردگرد والے علاقے بھی اس بحران کی زد سے بچ نہ پائیں گے۔ اس وقت وہ لوگ جنہوں نے یہ جنگ چھیڑی تھی، اب اس جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
خبر کا کوڈ : 219138
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Allah Salamat rakhey! lekan abhi to is kawish ka aaghaz lagta hai.
United States
HAIF HAY IN HALAT MAY IS QISAM K BACKANA BAYANAT PER. ALLAH REHAM KARAY
Pakistan
Very nice and great interview
Pakistan
Jis tanzeem k musheer-e-sysat ki ya fikar ho us ka allah hafiz.
United States
munasib interwieo hy election mashkook he hain hamin bahrhall tayari rkhni ho ge takeh apny frame work ki roshnimai asar andaz howa ja sakk
United Kingdom
AIK TARF ITEHAD BAIN UL MUSLIMEEN K NARAY BHE AUR DOSRI TARF MMA K KHILAF BAYANAT BHE. KISS MANTAQI NAY KAHA HAY K NAQIZAIN JAMA NHE HOSAKTAY..MWM MAY JAMA HOSAKTAY HAY
ناصر بھائی بہت اچھا تجزیہ کرتے ہیں۔ خداوند متعال آپ کو سلامت رکھے۔ ہمیں اُمید ہے کہ الیکشن سے پہلے شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین میں اتحاد ہو جائے گا جو کہ شیعت اور اسلام کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا
مجلس وحدت مسلتمین اور شیعہ علماء کونسل مل کر کام کریںگی اور دشمن کا ارادہ تباہ ہوگا۔
ایم ڈبلیو ایم نے قوم کو بیدار کیا ہے۔ ایس یو سی اور ایم ڈبلیو ایم ایک ہیں۔ الله ہمیں اتحاد عطا کرے۔ آمین
United Kingdom
Very nice interview
ہماری پیشکش