1
0
Saturday 29 Dec 2012 01:23
عورت کی گود سے ہی مرد عروج تک پہنچتا ہے

خواتین کسی بھی قوم اور معاشرے میں انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، فاطمہ حسینی

خواتین کسی بھی قوم اور معاشرے میں انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، فاطمہ حسینی
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان شعبہ طالبات کی مرکزی صدر فاطمہ حسینی کا تعلق پاکستان کی پرُآشوب سرزمین ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن سے ہے۔ آپ سرگودھا یونیورسٹی سے فیزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کے بعد ایم فل کر رہی ہیں۔ فاطمہ حسینی عرصہ آٹھ سال سے آئی ایس او شعبہ طالبات میں مختلف ذمہ داریوں پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ قارئین بالخصوص طالبات کی مسلسل خواہش پر "اسلام ٹائمز" نے اُن کا مختلف موضوعات مثلاً، تنظیمی فعالیت، تشیع کو درپیش موجودہ حالات میں خواتین کا کرادر، کردار سازی اور معاشرہ سازی، خواتین کے حقوق وغیرہ پر خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا۔ جو آپ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئولیت سنبھالنے کے بعد سے اب تک تنظیمی فعالیت اور اہداف کے حصول میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے، اور ترجیحات کیا ہیں، کن شعبوں کو فوکس کر رہی ہیں۔؟

فاطمہ حسینی: بسم رب الشہداء والصالحین۔ جی مجھے مسؤلیت سنبھالے ہوئے ابھی ایک، ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہوا ہے۔ جس میں ڈویژنز دورہ جات کا سلسلہ جاری ہے۔ الحمد اللہ تنظیمی فعالیت اور اہداف کے حصول میں کافی حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔ اور انشاءاللہ اہداف کے حصول کے لئے ہم خواہران، سینئرز، علمائے کرام کے تعاون سے کامیابی کو یقینی بنائیں گے۔ ترجیحات میں ڈیڈ ڈویژنز کی بحالی اور تنظیمی وسعت کے ساتھ ساتھ شعبہ تربیت اور تعلیم کے فروغ پر فوکس کیا جائے گا۔ شعبہ تربیت کو مزید فعال بنا کر ہم اپنی سینئرز سے استفادہ کریں گے۔ تعلیم کا حصول ہماری اولین ترجح ہے اور اس کا شعور اجاگر کریں گے۔ اور اس کے حوالے سے مختلف Projects کریں گے۔ ہم ان دونوں شعبوں کو فعال کریں گے، جو کہ دور حاضر میں نوجوانوں کی علمی و فکری بیداری کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر میں آئی ایس او شعبہ طالبات کی فعالیت اور تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں بتائیں۔؟
فاطمہ حسینی: شکر خدا! پاکستان بھر میں آئی ایس او شعبہ طالبات گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ فعالیت کے اعتبار سے خواہران درپیش مسائل کے باوجود ملت تشیع کی نوجوان نسل کو الٰہی کارواں میں شمولیت و تربیت اور معاشرے میں نوجوانوں کی فکری و روحانی اقدار کے فروغ میں سرگرم ہیں اور کردار زینب (س) کی پاسبان نظر آتی ہیں۔ امامیہ طالبات نے یہ عزم کیا ہے کہ اس آرگنائزیشن کو دنیا بھر اور پاکستان کے کونے کونے میں پھیلایا جائے اور نئی نسل کو مذہب حقہ سے روشناس کروایا جائے، تاکہ نوجوان نسل اپنے اہم دینی فرائض سے عہدہ برآ ہوسکے اور یہ قوم اپنا اصل مقام حاصل کرے۔

تنظیمی ڈھانچے
کے حوالے سے یہ بتانا چاہوں گی کہ اس وقت پاکستان بھر میں آئی ایس او شعبہ طالبات کے 18 ڈویژنز کام کر رہے ہیں۔ سندھ بھر میں آئی ایس او طالبات کافی فعال ہیں اور تربیتی و تنظیمی فکری فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ کراچی میں حالات اگرچہ خراب ہیں، لیکن پھر بھی تنظیمی فعالیت میں کمی نہیں آئی اور انشاءاللہ ہم تمام حالات میں کام کرنے لئے آمادہ ہیں۔ بلوچستان میں 4 سال سے ورکنگ کمیٹی/رابطہ کمیٹی کی صورت میں کام کیا جا رہا ہے۔ مگر 11۔2010 اور 12ء کے دوران گھمبیر حالات اور جانی خطرات کے باعث Contact / Mail وغیرہ سب منقطع ہوگیا۔ لیکن ہم نے کام ترک نہیں کیا اور ورکنگ کمیٹی/رابطہ کمیٹی کے ذریعے بلوچستان میں کام بہت اچھا ہو رہا ہے۔ حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے کہ جہاں جیسے حالات ہوں گے، ان کے مطابق لائحہ عمل اور حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔

پنجاب کے حوالے سے عرض کروں کہ پنجاب میں شعبہ طالبات کی کارکردگی قابل تحسین ہے۔ 1,2 ڈویژن میں نجی مشکلات کے باعث کام میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مگر انشاءاللہ اس کمی کو پورا کرتے ہوئے جلد از جلد ڈویژنز کو  Strong کیا جائے گا۔ Overall پنجاب بھر میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شعبہ طالبات کی فعالیت بہترین ہے۔ خیبر پختونخوا میں حالات سازگار نہیں ہیں۔ مگر خواہران الٰہی امور و تنظیمی کارکردگی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تربیتی، فکری، انقلابی سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہیں۔ خیبر بختونخوا کے مشرقی حصوں میں ہزارہ، ایبٹ آباد، ہری پور میں ڈویژنز فعال ہیں۔ مغربی سرحدی حصوں میں پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان میں حالات خراب ہیں۔ مگر ڈویژنز انقلابی سرگرمیوں اور تنظیمی فعالیت کی راہ پر گامزن ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں گلگت، سکردو ڈویژنز کی کارکردگی قابل قدر ہے۔ بےشک کہ یہ ڈویژنز دور ہیں، مگر شیعہ چونکہ کثرت سے ہیں، جسکی وجہ سے خدا کا شکر ہے کہ تنظیمی کاموں میں رکاوٹ نہیں آرہی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تشیع کو درپیش موجودہ حالات میں خواتین اور طالبات کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں۔؟
فاطمہ حسینی: پاکستان میں ملت تشیع کو درپیش حالات کی سب سے بڑی وجہ شیعیان علی (ع) کے نوجوانوں کی دینی، فکری، انقلابی سرگرمیوں اور دین کی آماج گاہوں سے دوری ہے۔ اسلام ناب محمدی (ص) و درسگاہوں سے دوری شیعت کے زوال پذیر عناصر میں سے ایک اہم عنصر ہے۔ پاکستان بھر میں حسینیوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔ کہیں ہمیں بلاسٹ کی صورت میں تو کہیں Target Killing اور کہیں شیعت کے حقوق کو غصب کرکے شیعت کو محکوم بنایا جارہا ہے۔ اسی طرح شیعیان علی (ع) کے عقائد پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ عزاداری
کو محدود کرنے اور حسینیت کے نام پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ملک بھر میں شیعت کو مظلوم قوم بنایا اور دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔

ان کٹھن حالات میں خواہران طالبات وہ طاقت ہیں جو ان تمام مسائل کا سینہ سپر مقابلہ کر سکتی ہیں اور ان تمام مسائل اور مشکلات کے بجائے ایران کی طرح پاکستان میں انقلاب لاکر تشیع کو تحفظ دے سکتی ہیں۔ شیعہ نوجوانوں کو چاہیے کہ سب سے اولین ترجیح درسگاہوں کو دیں، اپنے آپ کو دینی، دنیاوی، فکری، انقلابی تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کریں اور اسکے ساتھ ساتھ معاشرتی انقلابی سرگرمیوں میں اپنے کردار کے ساتھ راہِ خدا میں سرگرم عمل ہو جائیں۔ طالبات، نوجوانان ملت کو چاہیے کہ وہ دشمن شناس بنیں۔ استعمار کی تمام تر سازشوں کو اپنی صلاحیتوں اور کردار حسینی کے ذریعے ناکام بنائیں۔ اپنے عقائد کو مضبوط بنائیں۔ فہم و بصیرت اور اسلامی نظام و اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور جذبہ عمل سے کامل بنیں۔ بےشک عورت ہمارے معاشرے کا سرگرم رکن ہے۔ جو کہ معاشرتی انقلاب کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی میں خواتین کا کردار انتہائی اہم تھا، پاکستان کی خواتین میں انقلابی فکر کو فروغ دینے کیلئے کن خطوط پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔؟
فاطمہ حسینی: جی یقیناً۔ انقلاب اسلامی میں خواتین کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پاکستان کی خواہران، خواتین میں انقلابی فکر کو فروغ دینے کے لیے جن خطوط پر توجہ دینے کی ضرورت بےحد ضروری ہے، ان میں سے سب سے پہلے نوجوان خواہران کو چاہیے کہ وہ جناب زینب (س) کی طرح پیروِ خط امام بنیں اور انقلابی کردار، کردارِ بسیج سرانجام دیں۔ جب دین کو نصرت اور سربلندی کی بات آتی ہے تو خواتین کی تحریکی سرگرمیوں میں شمولیت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ اگر آج ہم انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں کربلا جیسی عظیم درسگاہ سے درس لینا ہوگا۔ فکر حسین (ع) و فکر زینب (س) جیسے افکار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے میدان عمل میں قدم رکھنا ہوگا اور عظمتوں کی بلندیوں تک پہنچنے کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا۔

انقلاب اسلامی ایران کے پیچھے بہترین خواتین کی خود سازی و معاشرہ سازی کا ہاتھ ہے۔ اگر پاکستان میں نوجوان خواہران/خواتین بھی متوجہ ہوجائیں اور خود سازی و معاشرہ سازی کو اپنائیں تو پاکستان میں بھی انقلاب آسکتا ہے۔ آج خواتین میں اسلامی بیداری حقیقی شخصیت و تشخص کے حصول، آگاہی و بصیرت، حماسۂ حسینی (ع) و زینبی (س) کا حصول اور مدیریت جیسے خطوط پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین مقابلے اور
مبارزے کی ابتدائی صفوں میں ثابت قدمی سے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور اپنا جہاد جاری رکھیں۔ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے نوجوان طالبات میں وسعت فکر و نظر اور ہم آہنگی کی خاطر ایک منظم اور ہمہ گیر تنظیم کی ضرورت ہے۔ طالبات کے شعور میں اسلامی فکر کو اس حد تک پختہ کرنا ہوگا کہ اگر وقت آئے تو اسلامی نظام کے قیام اور انقلاب برپا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اگر ہم ان خطوط پر عمل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی انقلاب کی منازل طے کرلے گا۔ انشاءاللہ

اسلام ٹائمز: یقیناً کردار زینبی (س) آپ اور آپ کی تنظیمی خواہران کیلئے مشعل راہ ہے، موجودہ حالات میں مسلمان خواتین کو دین سے دور لیجانے کی کوششوں کیخلاف خواتین کو کیا لائحہ اپنانے کی ضرورت ہے۔؟
فاطمہ حسینی: واقعی مسلمان خواتین کو اسلام سے دور لیجانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ ایک طویل عرصے سے دشمن مغربی تہذیب، مغربی ثقافت اور مغربی طرز زندگی کو مسلمان خواتین پر مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف حربے، پیسہ، میڈیا، مادی وسائل، فطری غرائز اور متعدد متعلقہ عوامل استعمال کرکے مسلسل اس کوشش میں ہے کہ مسلمان خواتین نوجوان نسل کو دین سے دور کر دیا جائے۔ وہ اپنی تمام تر سازشوں اور غیر اسلامی طرزِ طریق کو آزادی کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ آزادی کے نام پر سازش کا جال ہے۔ صرف اور صرف دین اسلام میں یہ خوبصورتی پائی جاتی ہے کہ اس میں عورت کو تمام حقوق دیئے گئے ہیں۔ لیکن عورت کو عورت ہی رہنے دیا ہے۔ اسے اس کے مقام سے گرایا نہیں گیا۔ عورت کے لئے عورت ہونا فخر کی بات ہے۔

اسی طرح کردار زینب (س) ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جناب زینب (س) نے صنفِ نازک کے دائرے میں رہتے ہوئے جو قائدانہ کردار ادا کیا، آج مسلمان خواتین کو بھی اسی لائحہ عمل کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں سب سے اہم اور ضروری نکتہ یہ ہے کہ دشمن شناس بنیں اور دشمن سے ہوشیار و چوکنا رہیں۔ نوجوانانِ ملت کو اسلامی دائرہ کار میں رہتے ہوئے علمی ترقی، دینی و سیاسی فہم و بصیرت اور ایمان کی طاقت سے خود کو لیس کرنا ہوگا، کیونکہ ایمان کی طاقت ہی وہ طاقت ہے جسکے ذریعے دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ہر پیرو انقلاب زینب (س) و بسیج خواہر کو میدان عمل میں اتر کر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی معاشرے میں خواتین کو حقوق نہ ملنے کی وجہ کیا ہے۔؟

فاطمہ حسینی: پاکستانی معاشرے میں خواتین کو حقوق نہ ملنے کی وجوہات روشن خیالی کی عدم موجودگی، معاشرے کی شریعت سے عدم دلچسپی، معاشرے
میں جاگیر دارانہ اور شدت پسندی کا رجحان، عورت کو پتھر کے دور یعنی قبل از اسلام کی عینک لگا کر دیکھنا، معاشرے کی نظام عدل سے دوری اور تعلیم اور عدم رواداری اور دیگر وجوہات ہیں۔ جن کا ذکر کرنے سے طوالت بڑھے گی۔ ہمارا معاشرہ چونکہ مذکورہ بالا عوامل کو ذہن میں رکھتا ہے اس لیے خواتین کو حقوق نہیں مل پاتے۔ رسول خدا (ص) کا اپنی بیٹی کی تعظیم میں کھڑا ہونا۔ انہیں اپنی میراث کا وارث بنانا۔ اس دور میں امام خمینی (رہ) کا کردار یہ سب آئینہ دار ہیں کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے۔ اسلام نے مرد اور عورت کو مساویانہ حقوق دیئے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کی اسلامی ثقافت سے دوری نے عورت کو اپنے جائز مقام سے ہٹا دیا ہے۔ مرد کی فقط ایک ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نان و نفقہ کا اہتمام کرے۔ لیکن عورت پورے قبیلے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ گھریلو کام کاج، صفائی ستھرائی، بچوں کی اچھی تربیت کرکے نیک اور صالح بنانا وغیرہ۔

عورت کی گود سے انقلاب جنم لیتا ہے۔ اسکی تربیت سے معاشرہ خوشحال اور بےخطر ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں نظام عدل کا فقدان، عورت کو گھر کی لونڈی بناکر رکھنا، اس کے جائز حقوق کی پاسداری نہ کرنا، اسکے حقوق کو سلب کرنا، جب معاشرے میں عورت پر ایسی سختیاں ہوں گی تو عورت احساس کمتری کا شکار ہوگی اور معاشرے کو صحیح طریقے سے Build up نہیں کر سکے گی۔ ہونا تو ایسا چاہیے کہ عورت کو تمام حقوق دیئے جائیں، تاکہ وہ آگے آئے لیکن ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی، اسلام سے دوری، انا پرستی، نظام عدل کی فوتیتدگی، شدت پسندی اور آمرانہ سوچ نے عورت کو اسکے حقوق سے دور کر دیا ہے۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے۔ اگر عورت کو اسکے تمام حقوق دیئے جائیں تو وہ معاشرے کو جنت بنا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: محضر زہرا ملالہ کیوں نہیں بن سکی۔؟
فاطمہ حسینی: سچ بات تو یہ ہے کہ جب معاشرے میں ظلم و بربریت کا دور دورہ ہو، ملک اپنے آپ کو دوسرے ملک کا غلام سمجھنے لگے اور ان سنہری اصولوں کو جو اسلام نے اسے دیئے ہیں، ان کو یکسر بھلا دے، جہاں عدم استحکام ہو، غنڈہ گردی عروج پر ہو، اقرباء پروری اور نظام عدل منقود ہو تو ایسے میں ایک عام آدمی کی بچی جس کو اسلام نے مساویانہ حقوق دیئے ہیں، وہ اپنے حقوق نہیں لے پاتی۔ جہاں اقرباء پروری ہو۔ حکومت کو موروثی بنایا جائے۔ اپنے نفس کو دوسروں کے ہاتھوں بیچ دیا جائے تو وہاں مظلوم کی شنوائی کیسے ہوگی؟ پاکستان سامراج کا زرخرید غلام ہے اور یہاں سامراجی نظام حکومت ہے۔ اس لیے جو بھی فیصلے ہونگے سامراجی ہونگے۔ غریب پر جتنا ظلم ہو اسکی پرواہ نہیں ہوگی۔ اپنا ایک آدمی مرجائے پوری
دنیا میں احتجاج ہوگا، یہاں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مریں اسکی پرواہ نہیں ہوگی۔ جب ان کے اپنے مفادات پر ضرب لگتی ہے۔ تو اسکو ایشو بنا دیا جاتا ہے۔

محضر زہرا کی بات کی جائے تو  محضر ان کی نظر میں ایک عام بچی ہے، جو انہی کے پالتو دہشت گرد گروہ کا نشانہ بنی ہے۔ یہ سامراج کی ایک چال ہے اور انہی کی منصوبہ بندی ہے۔ یہاں مذہب کے نام پر سینکڑوں لوگوں کو بھون دیا جاتا ہے اور حکومت کو ان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تشیع کو ہمیشہ پیچھے رکھا گیا اور محضر زہرا ملت تشیع سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ہے۔ جب تک یہ ملک سامراجی نظام کا غلام رہے گا تو یہاں کئی محضر بےنام ماری جائیں گی۔ جب تک عدل نہیں ہوگا، ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ طبقاتی نظام میں ایسا ہوتا آیا ہے اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ ہمیں ایسے نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ اسلام سے لو لگانا ہوگی۔ عدل و انصاف کو قائم کرنا ہوگا اور ظلم کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: طالبات اور خواتین پاکستان کو اپنے انٹرویو کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہیں گی۔؟
فاطمہ حسینی: پاکستان میں نوجوان شیعہ طالبات/خواتین کو پیغام دینا چاہوں گی کہ حقیقی کنیزان امام و جناب سیدہ (س) بننے کیلئے فکر کربلا، فکرِ حسین (ع) و فکر جناب زینب (س) کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کریں۔ خدا کی طرف سے جو ذمہ داریاں عائد ہوئی ہیں، ان سے غافل نہ رہیں۔ بے شک نوجوان نسل خواہران آج اس جمود، ٹھہراؤ اور خاموشی کے بتوں کو توڑ کر انقلاب کے جوش و جذبے اور تحریک کو قائم کرسکتی ہیں۔ اسلامی نکتہ نظر سے خواتین/طالبات معاشرہ کی تکمیل و تعمیر میں بنیادی اور نہایت ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت/طالبات معاشرے کی مضبوط و مستحکم طاقت کا نام ہے۔ جو کسی بھی قوم معاشرے میں انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تمام سعادتوں کا سرچشمہ عورت کی گود سے پھوٹتا ہے۔

عورت کو تمام سعادتوں کا منبع ہونا چاہیے۔ عورت بلند مرتبہ خواتین اور مردوں کی تربیت کنندہ ہے۔ عورت کی گود سے ہی مرد عروج تک پہنچتا ہے۔ عورت انسان ساز ہے اور ان کا اہم فریضہ انسان سازی، معاشرہ سازی ہی ہے۔ اہل تشیع نوجوانان کو نظریاتی، ثقافتی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، روحانی اور انقلابی پہلوؤں کے ساتھ اسلامی افکار کے ڈھانچے اور اسلامی فکر کے احیاء اور شیعت کے انقلابی مکتب فکر سے روشناس ہونا چاہیے۔ انقلابی سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہنا چاہیے۔ اسی طرح شیعت کے ہر جواں/خواتین/طالبات کو استعماری سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اسلام کے حیات بخش اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 225877
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاءاللہ
ہماری پیشکش