0
Thursday 10 Jan 2013 10:13

طاہر القادری نے امام انقلاب ہونے کے ناطے انقلابی اذان دی ہے، ایس ایم ضمیر

طاہر القادری نے امام انقلاب ہونے کے ناطے  انقلابی اذان دی ہے، ایس ایم ضمیر
پاکستان عوامی تحریک سندھ کے صدر ڈاکٹر ایس ایم ضمیر کا تعلق زمانہ طالب علمی میں کراچی کے معروف ڈی جے کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا اور آپ وہاں کی طلبہ یونین کے منتخب عہدیدار بھی رہے۔ اس کے بعد آپ نے مسلم لیگ قیوم گروپ میں شمولیت اختیار کی اور سندھ کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائض ہوئے۔ مسلم لیگ قیوم گروپ جب نیشنل پیپلز پارٹی میں ضم کردی گئی  تو آپ نے یونائیٹڈ نیشنل فرنٹ کے نام سے ایک جماعت کی تشکیل کی جو کہ سندھ کی سطح پر ایک پریشر گروپ کے طور پر سیاسی، سماجی، اقتصادی حوالے سے فعال رہی۔ اس دوران آپ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 2000ء میں یونائیٹڈ نیشنل فرنٹ متحدہ قومی محاذ کو پاکستان عوامی تحریک میں ضم کردیا۔ اس وقت آپ سینئیر نائب صدر کے عہدے پر فائض ہوئے اور آج کل آپ کے پاس پاکستان عوامی تحریک سندھ کی صدارت کی ذمہ داری ہے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے اصلاحات کا نعرہ بلند کرتے ہوئے 14 جنوری کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ و دھرنے کا اعلان کیا ہے، جس نے پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر ایس ایم ضمیر سے خصوصی نشست کی۔ اس حوالے سے ان کے ساتھ کیا گیا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہر القادری کے ایجنڈے اور اس کے پس منظر کے حوالے سے ہمارے قارئین کیلئے تفصیل سے روشنی ڈالیں؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: 64 سالوں سے پاکستانی عوام ظلم و جبر کے نظام کے تحت پسی جا رہی ہے۔ اس نظام کے بطن سے جس چیز نے جنم لیا ہے وہ ہے غربت، جہالت، معاشی و اقتصادی بدحالی، بے روزگاری، کرپشن، ناانصافی، بدامنی، دہشت گردی اور اس کے علاوہ جس کا مشاہدہ آپ اور ہم کر رہے ہیں۔ ان تمام مسائل کا پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن شروع دن سے ہی مشاہدہ کر رہی ہے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کی حکمت عملی شروع سے یہ رہی ہے کہ پہلے علمی حوالے سے کام کیا جائے، لہٰذا سب نے دیکھا کہ ہم نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں منہاج ویلفئیر فاﺅنڈیشن، منہاج ایجوکیشنل فاﺅنڈیشن کے تحت علمی مراکز قائم کئے۔ اس کے بعد تحریکی کارکنوں کی تربیت کا مرحلہ آیا اور اب ہم نے اور ہماری قیادت نے محسوس کیا کہ یہ نظام تباہ ہونے جا رہا ہے، اس ملک کو جابر حکمرانوں نے کرپشن کرکے لوٹ لیا ہے اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے ہماری قیادت اور تحریک نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایجنڈا عوام کو دیا جائے کہ جو خود عوام کا اپنا ایجنڈا ہے۔

طاہر القادری اور پاکستان عوامی تحریک کوئی نیا ایجنڈا نہیں لے کر آئے ہیں، یہ عوامی ایجنڈا ہے کہ جس کے لئے کوئی کام نہیں کر رہا تھا۔ عوام غربت میں تڑپ رہی ہے، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، لوگ اپنے گردے و دیگر اعضاء بیچ رہے ہیں، لوگ بدامنی کی آگ میں جل رہے ہیں، صرف کراچی میں روزانہ 20-30 معصوم شہری بلاجواز مارے جا رہے ہیں، اس شہر میں، اس صوبے میں، اس ملک میں مسلک کی بنیاد پر، فرقہ کی بنیاد پر، زبان کی بنیاد پر قتل عام جاری ہے یعنی کہ 2 فیصد جابر طبقہ 98 فیصد مظلوموں کو دبائے جا رہا ہے۔ اس جابر طبقے نے شہریوں کے سیاسی حقوق بھی مسخ کردیئے ہیں، اقتصادی حقوق بھی مسخ کردیئے ہیں، سماجی و دینی حقوق بھی مسخ کردیئے ہیں۔ مساجد، امام بارگاہیں و مدارس محفوظ نہیں ہیں، دینی جلوس و مجالس محفوظ نہیں ہیں، آپ کی حساس تنصیبات، حکومتی ادارے محفوظ نہیں ہیں۔ تو آپ مجھے بتائیے کہ ملک میں امن کہاں ہے۔ یہ 2 فیصد ٹولہ تیس سالوں میں اپنی باریاں لگائے بیٹھا ہے۔

انہوں نے عوام کو کسی قسم کے حقوق نہیں دئیے ہیں، عوام ان سے تنگ آ چکے ہیں اور یہ پھر حکومت میں آنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ سی این جی نہیں ہے، بجلی و گیس نہیں ہے، دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے، سائبان نہیں ہے لوگوں کے پاس، لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہیں ہے۔ میں بحیثیت ڈاکٹر آپ کو بتاتا چلوں کہ اندرون سندھ میں سینکڑوں معصوم بچے خسرہ جیسی بیماری میں مبتلا ہوکر موت کی نیند سو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب یہ وباء تیزی سے کراچی کی طرف آ رہی ہے۔

جس ملک میں ملالہ کو اس بنیاد پر گولی مار دی جائے کہ وہ علم کی بات کرتی ہے، حق کی آواز بلند کرنے پر لوگوں کو مار دیا جائے تو ہم نے یہ محسوس کیا کہ اگر اب ہم نے خاموشی اختیار کی تو پھر یہ ظالم و جابر کا ساتھ دینا ہوگا۔ لہٰذا ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان عوامی تحریک نے عوامی خواہشات کے عین مطابق ایک عوامی نجات دہندہ ایجنڈا پیش کیا۔ جس کے تحت ہم آئین کی حدود میں رہتے ہوئے جمہوری اداروں کا تسلط چاہتے ہیں، یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ کچھ عناصر ہم پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش کر رہے ہیں جب کہ ہم اس جمہوریت کو جو پہلے ہی ڈی ریل ہوچکی ہے، کو پٹری پر لانا چاہتے ہیں۔ یہاں پر حقیقی جمہوریت ہے ہی کہاں۔ یہاں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص کس طرح اسمبلیوں میں جا سکتا ہے۔ کیا 98 فیصد غریب، لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کے پاس اتنے ہیں کہ وہ ایوان میں منتخب ہو سکے۔

آپ شومئی قسمت دیکھئے، یہ آپ کی پارلیمنٹ کے فیصلے ہیں، ابھی دس روز پہلے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش ہوئی کہ نیشنل اسمبلی کے لئے پہلے اخراجات کی انتہاء بیس لاکھ روپے تھی اب اس کو بڑھا کر پچاس کر دیا جائے اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے اخراجات کی حد تیس لاکھ کر دی جائے۔ مجھے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کسی غریب اور متوسط طبقے نے کبھی تیس لاکھ روپے دیکھے ہیں۔ تو جب اس نے تیس لاکھ روپے اپنی معاشی ضروریات کے تحت نہیں دیکھے، اپنے کاروبار میں نہیں دیکھے، اپنے گھر میں نہیں دیکھے۔ کجا وہ سیاست میں خرچ کرے گا اور اگر وہ تیس لاکھ، پچاس لاکھ روپے خرچ کرے گا تو پہلے وہ جاتے کے ساتھ ہی پرمٹوں
کی سیاست کرکے، قرضوں کی سیاست کرکے اپنے پچاس لاکھ روپے وصول کرے گا اور اس کے بعد مزید وہ پچاس لاکھ روپے کی جنگ لڑے گا، پھر وہ پانچ سالوں میں پانچ کروڑ کی کوشش کرے گا اور پھر وہ پانچ ارب روپے کی کوشش کرے گا۔

نیب کے چیئرمین فصیح بخاری کا ڈیکلئریشن ہے کہ 12 ارب روپے روزانہ کی کرپشن روزانہ ہوتی ہے یعنی 4 سے 5 ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن۔ یہ تو آفیشل اعداد و شمار ہیں، اب آپ خود بتائیے کہ نان آفیشل کتنی ہوگی۔ تو میرے قائد نے 23 دسمبر کو ایجنڈا دے دیا ہے۔ کوئی مشکل ایجنڈا نہیں ہے۔ روزانہ 12 ارب روپے کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے یعنی پورے مہینے میں 360 ارب روپے کی کرپشن، اسی کو آپ پورے سال پر لے جائیں آپ کا بجٹ بن جاتا ہے۔ صرف اس کرپشن پر ہی قابو پالیا جائے تو ہم اقتصادی و معاشی بحران سے باآسانی باہر نکل آئیں گے۔ تو میں یہ کہوں گا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے امام انقلاب ہونے کے حوالے سے عوامی ایجنڈا پیش کرکے انقلابی اذان دی ہے، ایک انقلابی تکبیر دی ہے کہ آﺅ اگر تم فلاح کا راستہ چاہتے ہو، اگر تم محبت، امن و امان کا راستہ چاہتے ہو، اپنے آپ کو پسی ہوئی کیفیت سے باہر نکالنا چاہتے ہو، تو آؤ 14 جنوری کی انقلابی کال پر لبیک کہو اور دامے، درہمے، سخنے اپنی حمایت کو طاہر القادری کی جھولی میں ڈال دیں تاکہ جو سفر انقلاب شروع ہوا ہے اسے انقلاب کے قائم ہونے تک جاری رکھا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کے قریب آتے ہی کیوں ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب کی باتیں شروع کر دیں؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: دیکھیں ایک انگریزی idiom ہے کہ hit the iron when it is hot۔ ہمارے پاس اس وقت مختلف قسم کی ماہرانہ رائے آ رہی ہیں۔ مثلاََ ایک رائے یہ بھی آ رہی ہے کہ ہم لاکھ اختلاف کریں ڈاکٹر طاہر القادری سے لیکن جتنا صحیح وقت انہوں نے انتخاب کیا ہے اس مہم کا، اس لانگ مارچ کا، اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیکھیں اگر ہم اس سے پہلے آتے تو ہم پر الزام لگتا کہ ہم اس نام نہاد جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اس جعلی جمہوری پروسس کو پورا نہیں ہونے دینا چاہتے، ہم اس کو پانچ سال پورے نہیں ہونے دینا چاہ رہے ہیں۔ چار سال آٹھ مہینے آپ کے گزر گئے ہیں، چار مہینے انتخابات میں رہ گئے ہیں، اب اس چار مہینے میں قبل اس کے کہ قوم اس الیکشن فیور میں مبتلا ہو ہم الیکشن فیور میں مبتلا ہونے سے پہلے اینٹی بائیوٹک انجکشن لگانے آئے ہیں تاکہ قوم اس بخار میں مبتلا نہ ہو اور دوبارہ ان ہی چہروں کو انتخابات میں منتخب کرکے ایوانوں میں نہ بھیجیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے اس لانگ مارچ سے اگر آرمی نے ٹیک اوور کرلیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا آپ آرمی کے خلاف بھی لڑیں گے؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: اگر آپ نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر سنی ہو تو انہوں بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے اور مسلسل چینلز و اخبارات پر کہتے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم بالکل اس کے حق میں نہیں ہیں کہ پاکستان میں کوئی مارشل لاء لگے یا فوجی مداخلت ہو اور ہم اس کی حمایت کریں، بالکل ایسا نہیں ہے۔ لیکن یہ جو غلط خیال و افواہیں ہیں، ہمیں ان افواہوں و خیالات کے ماحول سے باہر نکلنا چاہئیے۔ ہمیں زمینی حقائق اور پاکستان کے صحیح معنوں میں جو مسائل ہیں، جو مشکلات ہیں اس کو سامنے رکھ کر کے ہمیں یہ بات دیکھنی چاہئیے کہ وہ کون لوگ ہیں جو آج پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں اور اس کیلئے اپنے پاس ایک ٹھوس لائحہ عمل بھی رکھتے ہیں نہ یہ کہ صرف باتیں کر رہے ہیں۔ تو ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ جو نہ صرف بات کر رہیں ہی بلکہ اپنے پاس اس حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات آپ زہن میں رکھیں کہ ان خیالات کی دنیا سے میں ہمیں باہر نکلنا چاہئیے اور عوام کو بھی اس میں گمراہ نہیں کرنا چاہئیے کہ اگر ایسا ہو جائے گا تو کون ذمہ دار ہوگا۔ بالکل نہ ہم ذمہ دار تھے، نہ ہیں اور نہ ہونگے۔

اس سے پہلے بھی اگر اس طرح ہوتا رہا ہے تو اس کی ذمہ داری ان ناعاقبت اندیش سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے اس خاص ٹولے کے اوپر ہے جس نے ہمیشہ بندر بانٹ کیلئے، اپنی حکمرانی قائم کرنے کیلئے پاکستان میں سیاست کی ہے۔ خواہ وہ پیپلز پارٹی ہو، خواہ وہ نواز لیگ ہو، یا کوئی بھی ہو۔ وہ تمام جماعتیں پاکستان میں کوئی عوامی ایجنڈا نہیں رکھتے، وہ عوام کیلئے نہیں آتے وہ اپنی جیبیں بھرنے کیلئے آتے ہیں۔ ان کا ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے، وہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے بے قرار نہیں ہوتے۔ وہ صرف اپنی باری کیلئے بے قرار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ وہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے آتے ہیں تو ان کا ایجنڈا اربوں روپے لوٹنے کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ اس کیلئے تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں اور جیسا کہ ڈاکٹر صاحب بھی قاضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہم کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کریں گے کہ چاہے وہ فوجی اقدام ہو یا اس طرح کا کوئی دوسرا اقدام ہو۔ انہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان کر رکھا ہے۔ ہم پاکستان میں حقیقی جمہوری عمل چاہتے ہیں۔ یہاں میں یہ بھی کہہ دوں کہ اگر آج ہمارے ان حقیقی اور زمینی حقائق پر مبنی مطالبات پر کان نہیں دھرا گیا اور ہمارے ان جائز مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا جو کہ ہم آئین و دستور کے اند رہتے ہوئے ہم کر رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت، موجودہ الیکشن کمیشن و الیکشن کمشنر پر ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کچھ روز قبل لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اہل سنت علماء و رہنماﺅں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: دیکھیں الزامات کی سیاست تو پاکستان میں بہت پرانی ہے اور جس کی مرضی جو کہے، جس کے منہ میں جو آئے وہ کسی کے بارے میں الزام لگا دے۔ کوئی کسی کو کافر کہتا ہے، یہاں کافر کہنے سے کم تو بات ہی نہیں ہوتی، تو کیا کسی کے کافر کہنے سے کوئی کافر ہو جاتا ہے۔ اگر صرف کہنے سے کوئی کافر ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں سب کافر
ہی رہتے ہیں کوئی مسلمان نہیں بچے گا۔ کوئی کسی کے کافر کہنے سے کیا کافر ہو جاتا ہے، قطعی ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں نے اپنا اور اپنی جماعتوں کا چہرہ اسلامی بنا رکھا ہے، لیکن اگر آپ ان کا ماضی کھنگال کر دیکھیں تو وہ بھی ہمیشہ حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ وہ اسلامی جماعتیں، وہ اسلامی چہرے جو آج ڈاکٹر طاہر القادری پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور صرف اور صرف مخالفت برائے مخالفت کر رہے ہیں انہوں نے بھی پاکستان میں مختلف اوقات میں راج کیا ہے۔

ان جماعتوں اور لوگوں نے پاکستان میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کو کیا دیا ہے، انہوں نے آج تک پاکستانی عوام کو کچھ نہیں دیا ہے۔ اصل میں آج ان کے مفادات پر بھی کاری ضرب لگ رہی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری یہ بتا رہے ہیں، سمجھا رہے ہیں اور لوگ آ رہے ہیں، لوگ آگاہ ہو رہے ہیں کہ صحیح معنوں میں حقیقی اسلام کا ایجنڈا بھی یہی ہے کہ عامة الناس کیلئے بات کی جائے، عوام کیلئے بات کی جائے، کسی ایک فرقہ کیلئے بات نہ کی جائے، کسی ایک زبان کیلئے بات نہ کی جائے، کسی ایک قوم کیلئے بات نہ کی جائے کیونکہ یہ سارے معاملات جا کرکے منتج وہیں ہو رہیں کہ ان سیاسی جغادریوں کے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہے، ان مذہبی جغادریوں کے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہے، لہٰذا وہ بلبلا کر ایسے الزامات لگا رہے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: 65 سالوں میں انتخابی تبدیلی نہیں آسکی تو یہ تبدیلی چند دنوں کی مہلت میں کیسے آئے گی؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: اصل میں تبدیلیاں نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اور آج بھی جو جاگیردار، سرمایہ دار اور استحصالی طبقہ حکومت کے اندر بیٹھا ہوا ہے اور چونکہ تبدیلی اس کے حق میں نہیں ہے تو لہٰذا 65 سالوں میں یہ تبدیلی نہیں آ سکی اور وہ تبدیلی نہ آنے کی بناء پر ہی آج ملک اتنی زیادہ کرپشن کا شکار ہو چکا ہے، آج پاکستان بدامنی و دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ وہ جو بیج انہوں نے ماضی میں بویا تھا اب اس کے کڑوے پھل ملنا شروع ہو چکے ہیں اور قوم تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اب قوم کو شعوری طور پر یہ احساس ہوگیا ہے کہ اس نظام الیکشن کے ذریعے سے جو لوگ آ رہے ہیں وہ ہمارے مسائل کبھی بھی حل نہیں کر سکتے۔ تو یہی وجہ ہے کہ جب 23 دسمبر کو جب ڈاکٹر طاہر القادری نے نظام انتخابات کے اندر تبدیلی کی بات کی اور یہ بات کی کہ جو کچھ آئین کے اندر موجود ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا، اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جائے یعنی نظام تو موجود ہے، اصل مسئلہ اس نظام پر عمل کرنا ہے۔ 62،63 آرٹیکل جو ہے اگر اس پر عمل کیا جائے، دیانتدار اور اہل قیادت اگر پہنچے تو باقی معاملات سارے کے سارے حل ہو سکتے ہیں۔ چونکہ جو غاضب و قابض طبقہ ہے اور وہ دھن، دھونس و دھاندلی کے ذریعے آنا چاہتا ہے تو یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی آئین پر حقیقی معنوں پر عمل درآمد کرنا نہیں چاہتا۔

اسلام ٹائمز: متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان عوام تحریک میں کیا قدریں مشترک ہیں کہ جس کی بنیاد پر ان سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: قدروں کی مشترک ہونے کی بنیادی وجہ ان کی فکری و نظریاتی وحدت ہے۔ جس طرح متحدہ قومی موومنٹ نے 2 فیصد اشرافیہ غاضب طبقہ کے خلاف اور 98 فیصد غریب و متوسط و پسے ہوئے طبقے کی بات کی، وہی بات الحمد اللہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی کر رہے ہیں۔ یہاں پر سرمایہ داروں کو، صنعتکاروں کو اور دیگر ان جیسے طبقوں کو الیکشن میں جانے کا حق ہے تو وہیں پر غریب و متوسط طبقے کو، مزرود و کسان طبقے کو بھی الیکشن میں جانے کا حق ہے۔ ایم کیو ایم بھی یہ چاہتی ہے کہ غریبوں کی نمائندگی غریب کرے، مزدوروں کی نمائندگی مزدور کرے، کسانوں کی نمائندگی کسان کرے اسی طرح تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک بھی یہی چاہتی ہے کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں ہر شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے حقیقی نمائندگی ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ مزدوروں کی نمائندگی ان ہی کا استحصال کرنے والے سرمایہ دار کریں، کسانوں کی نمائندگی ان پر ظلم و ستم ڈھانے والے جاگیردار کریں۔ تو یہی فکری و نظریاتی وحدت ہے جس کے باعث متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان عوامی تحریک و تحریک منہاج القرآن ایک ایجنڈے پر متفق ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم کو بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے رہنے کا فن بھی آتا ہے، وہ آپ کی بھی حمایت کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کو بھی حمایت کا یقین دلایا ہے، آخر کیوں آپ ان سے اتحاد کر بیٹھے؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: مختصراََ اگر بیان کروں تو دیکھیں موجودہ نظام انتخابات نے اور سیاسی کلچر نے ہر جماعت کو جکڑا ہوا ہے، وہ اس روایتی سیاست کے تقاضوں کو اگر پورا نہیں کریں تو وہ اس نظام میں رہ نہیں سکتے۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ سمجھتے ہیں اس بات کو کہ اس سسٹم کو ختم کئے بغیر یہ کلچر ختم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس وقت یہ کلچر موجود ہے لہٰذا متحدہ قومی موومنٹ سمیت دیگر تمام جماعتیں اس نظام کے اندر محصور ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس نظام نے انہیں ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ انشاءاللہ جب یہ نظام بدلے گا تو ہر ایک اپنے ضمیر کے مطابق آگے آگے بڑھ سکے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظام کون بدلے گا۔ تو یہ نظام وہ بدلے گا کہ جو حقیقی معنوں میں پوری قوم کا لیڈر ہوگا۔

آج اگر آپ دیکھیں تو ڈاکٹر طاہر القادری پوری قوم کے لیڈر بن چکے ہیں یہ فقط ایک جماعت کے لیڈر نہیں ہیں۔ انہوں نے پوری قوم کی آواز کو ساری دنیا تک پہنچا دیا ہے۔ تو ڈاکٹر طاہر القادری نے پوری قوم کو ہر جماعت کو انہوں نے دعوت دی ہے۔ لہٰذا پوری قوم کو ہر جماعت کو اس آواز پر لبیک کہنا چاہئیے لیکن ہر جماعت کے اندر جو طبقہ قابض ہے وہ متوسط طبقے کو آگے آنے نہیں دیتا۔ انشاءاللہ جیسے ہی زنجیریں ٹوٹیں گی اور جب لوگوں کو یہ اس بات کی امیدیں نظر آئیں گی کہ صحیح معنوں میں انقلاب آ سکتا ہے تو انشاء اللہ وہ آگے بڑھیں گے۔ الحمد اللہ 14 جنوری کو یہ نظام اللہ کے فضل و کرم سے تبدیل ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 229752
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش