1
0
Friday 3 May 2013 22:56
شام کی سالمیت عالم اسلام کے لئے اشد ضروری ہے

تمام مسلمانوں کو عالمی سطح پر ایک اجتہادی مرکزیت میں منظم ہونا چاہیئے، غلام علی گلزار

تمام مسلمانوں کو عالمی سطح پر ایک اجتہادی مرکزیت میں منظم ہونا چاہیئے، غلام علی گلزار
مقبوضہ کشمیر کے مایہ ناز مفکر، سماجی کارکن اور قلمکار مولانا غلام علی گلزار فعلاً کشمیر طبیہ کالج سرینگر میں بحثیت پروفیسر کام کرتے ہیں اسکے علاوہ مذکورہ ادارے سے شائع ہونے والےجریدے علم و حکمت کے مُدیر بھی ہیں، ساتھ ہی ساتھ مجلس اتحاد ملت جو اسلامی انجمنوں و دانشوروں کا ایک فورم ہے کے جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، غلام علی گلزار 1976ء تک انجمن تحفظ اسلام کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں، 1972ء سے 1976ء تک مسلم پرنسل لاء فورم کے سیکرٹری رہ چکے ہیں، اسکے علاوہ تنظیم المکاتب معاون کمیٹی کشمیر کے نگران سیکرٹری کے فرائض قریباً 24 سال انجام دئیے، آپ تحریک مکاتب امامیہ اور تحریک نفاذ شریعت کے بانی بھی ہیں، مولانا غلام علی گلزار 70 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور آپ کی چند ایک کتب ابھی زیر طبع بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے مفکر دین مولانا غلام علی گلزار سے حالات حاضرہ پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دین و سیاست میں آپسی ربط، اور اسلامک اسٹیٹ کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
غلام علی گلزار: میرا اعتقاد ہے کہ دین اور سیاست دو الگ الگ جیزیں نہیں ہو سکتی ہیں، اور اسلامک اسٹیٹ رسول اللہ نے خود بنائی ہے اس کے بعد مسلمانوں میں امامت و خلافت کا ایک اختلاف رہا لیکن آج بھی اگر مسلمانوں کے تمام فرقے کم از کم مشترکہ بنیاد پر یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں متفق ہو جائیں، تو وہ ایک اسلامی ریاست و اسلامی آئین بنا سکتے ہیں، اور دین اسلام میں اتنی گنجائش ہے جب کہ دوسرے مذاہب میں وہ گنجائش ہرگز نہیں پائی جاتی ہے، اسی لئے مائیکل ہارٹ نے 100 عظیم آدمیوں میں حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کو نمبر ایک پر رکھا تھا کیوں کہ رسول خدا (ص) نے ایک اسلامی آئین اور ایک اسلامی ریاست بنائی جس میں انہوں نے تمام بنیادی آسپیکٹس یعنی سیاسی، سماجی، اصلاحی، اقتصادی اور روحانی آسپیکٹس کو ایک مکمل شکل دی جو جامعیت کسی بھی دوسرے مذہب میں دیکھنے کو ہرگز نہیں ملتی ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے آپ کا رول کیا رہا ہے۔؟
غلام علی گلزار: دیکھئے میں نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک نفاذ شریعت کی بنیاد ڈالی ہے لیکن میرے کچھ اپنے اصول ہیں، جو اس طرح ہیں کہ جب تک امامت نہ ہو تب تک مسلمانوں کے عالمی مسائل حل نہیں ہو سکتے ہیں اور وہ کسی انقلاب سے ہمکنار نہیں ہو سکتے ہیں، امامت کا مطلب حالیہ طور پر یہ نہیں ہے کہ امامت اِمپلیمنٹ ہو جائے، فعلاً یہ نہیں ہو سکتا ہے، امپلیمنٹ میرے کہنے سے پوری دنیا میں نہیں ہو سکتا ہے، امامت کا مسئلہ جو ہے وہ الگ چیز ہے وہ ہم زبردستی ٹھوس نہیں سکتے ہیں، لیکن علامہ اقبال (رہ) کا جو تصور امامت ہے، تمام عالم اسلام میں امامت کو منظم ہونا چاہیئے وہ ایک کونسل ہو سکتی ہے، معنوی سطح پر ہمیں امامت کو تلاش کرنا چاہیئے یعنی آج مسلمانوں میں امامت نہیں ہے، امت مسلمہ امام کے بغیر ہے، ایک محدود سطح پر ایران میں ہے اور جمہوری اسلامی ایران کی جو صالح قیادت ہے اس کو امامت کی شکل میں، نائب امام کی شکل میں ہم سمجھتے ہیں۔

عالمی سطح پر تمام مسلمانوں میں ایک نظم ہونا چاہیئے، میں نے کئی سیمینارز میں یہ بات کہی ہے اور میں یہ پیغام سنانا چاہتا ہوں کہ تمام مسلمانوں کو ایک اجتہاد عالمی مرکزیت میں منظم ہونا چاہیئے جب تک وہ عالمی اجتہادی مرکزیت میں منظم نہیں ہونگے، تب تک دنیائے اسلام میں کوئی خالص انقلاب نہیں آ سکتا، تمام مسلمانوں کو ایک اجتہادی مرکز کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہیئے، لیکن اہل تشیع اقلیت میں ہونے کے باعث ایکٹو رول ادا نہیں کرسکتے ہیں، لیکن میں ان تمام غیر شیعہ حلقوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ عالمی سطح پر ایک عالمی اجتہادی مرکز میں جمع ہو جائیں، جب مسلمانان جہاں ایک پلیٹ فارم پر منظم ہونگے تب انہیں سیاسی قیادت بھی میسر ہو گی، جب دینی قیادت مجتمع نہیں ہو گی تب تک تمام مسائل میں چاہے وہ عراق کا مسئلہ ہو یا افغانستان کا مسئلہ ہو یا چیچنیا کا مسئلہ ہو یا فلسطین یا کشمیر یا پھر شام کا مسئلہ ہو اختلاف رہے گا، اور یہ اختلاف سیاسی سطح پر بھی نظر آئے گا۔

اسلام ٹائمز: اسلامی ملک شام  کو درپیش مشکلات کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
غلام علی گلزار: دیکھئے اگر کوئی مسلم رہنما شام کے حالات پر کوئی تبصرہ کرنا چاہے تو پہلے اسے دنیا کا جغرافیائی نقشہ دیکھنا ہوگا اور ہر پہلو پر دقیق انداز میں سوچنا ہو گا، غرضکہ شام عالم اسلام کے لئے اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی سالمیت عالم اسلام کے لئے اشد ضروری ہے، بات سیدھی سی ہے حزب اللہ کے لئے ہتھیار آسمان سے نہیں ٹپکتے ہیں، بلکہ حزب اللہ کی مدد ایران کر رہا ہے اور جس طرح اسرائیل کی مدد براہ راست امریکہ و برطانیہ کر رہا ہے اور جہازوں میں بھر بھر کے ہتھیار بھیج رہے ہیں، ایران کو بھی کوئی راستہ ڈھونڈنا تھا تاکہ وہ حزب اللہ لبنان کی مدد کرسکے (اور میرا کہنا ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو حزب اللہ کی مدد کرنی چاہیئے)، کیونکہ وہ فلسطین کے ساتھ جذباتی و ایمانی وابستگی رکھتے ہیں، اور اسرائیل کو مسلمانوں کا دشمن جانتے ہیں تو اس لئے ہوش سے کام لے کر ان مسلم رہنماوں کو بیانات دینے چاہیئے، اُنہیں جذبات میں آکر یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ شام کی حکومت میں ڈکٹیٹر شپ ہے، ہندوستان میں بھی کبھی اقلیت کی حکومت اکثریت پر ہوتی ہے، یہ جمہوری نظام ہی ایسا ہے، کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو بڑی پارٹیوں کے ووٹ تقسیم ہوتے ہے اور چھوٹی پارٹی حکومت کرنے کے لئے اُبھر آتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ حکومت کو ڈکٹیٹر شپ کا نام دے کر لڑنے کے لئے مسلح باغیوں کو وہاں بھیج دیں اور اس سب کو مونیٹر امریکہ کرے، اور عرب ممالک خصوصا سعودی عربیہ اس کی مدد کرے، جو Rebels وہاں حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کو ہتھیار کہاں سے ملتے ہیں۔

یہ امریکہ ہی ہے جو ان ممالک کے ذریعہ باغیوں کو ہتھیار پہنچا رہا ہے جو ممالک ایران کے خلاف ہیں یا جو حزب اللہ کے خلاف ہیں، حزب اللہ میں چاہے اکثریت شیعہ مسلک سے وابستہ ہو لیکن ان کا پیغام خصوصاً حسن نصراللہ کا مسلکی بنیادوں سے بلند ہوتا ہے اور وہ انسانی بنیادوں پر اپیل کرتا ہے جس وجہ سے عیسائیوں کی بھی معاونت و دوستی ان کے ساتھ ہے، حزب اللہ کے ساتھ اگر عیسائیوں کی معاونت، مدد و تائید نہ ہوتی تو وہ اتنے کامیاب نہ ہوتے، تو مسلمانوں کو ہوش سے کام لیکر حزب اللہ کو مضبوط کرنا چاہیئے، اور حزب اللہ کو مضبوط کرنے کے لئے شام کی سالمیت ضروری ہے، اور حزب اللہ کے لئے سم قاتل ہے کہ اگر شام امریکہ کے ہاتھوں اور Dominance میں چلی جائے۔

شام کو سالم رہنا چاہیئے تاکہ حزب اللہ کو مدد فراہم ہو سکے، شام کی سالمیت عالم اسلام کے لئے اشد ضروری ہے، اگر شام میں امریکہ کے پنجے جم جائیں تو حزب اللہ کی سپلائی لائن ختم ہو جائے گی اور سیدھی سی بات ہے کہ ایران اس میں انٹرسٹڈ ہے وہ کہے گا کہ شام میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں، محمود احمدی نژاد بھی کہتے ہیں کہ شام میں اندرونی طور پر الیکشنز ہوں اور سبھی مسلمان اس میں مداخلت کریں، اور اندرونی حالات ٹھیک ہوں، لیکن جہاں تک سالمیت کا تعلق ہے شام کی سالمیت کو ہرگز خطرہ نہیں ہونا چاہیئے، اور اس میں لیبیا کی طرح امریکہ و دیگر یورپی ممالک کی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، وہ مسلمانوں کے حق میں سودمند نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کے اسلام دشمن عناصر کے اغراض و مقاصد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔؟
غلام علی گلزار: دیکھئے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو جہاں تک کلمہ کا تعلق ہے، اس پر سیمیناز ہونے چاہیئیں، میں بڑے وثوق اور بلا تردد یہ بات کہتا ہوں کہ شیعوں کے متعلق بھی بہت سارے معتصب سیاسی و دیگر عناصر نے جو تاریخی تواتر میں کہا کہ وہ رسالت کے معاملے میں ذرا کمزور عقیدہ رکھتے ہیں، جو بالکل غلط و جھوٹ ہے، بہت زیادہ مضبوط عقیدہ رسالت کے بارے میں اگر کسی مسلک کا ہے تو وہ شیعوں کا ہے، ان کی طہارت و عصمت اور انکی ختم نبوت کے سلسلے میں اس معاملے میں کئی حالتوں میں تردد پایا جاتا ہے، وہ اس States پر نہیں سمجھتے ہیں، رسول اکرم (ص) کی شان میں سیمینارز کرنے کی ضرورت ہے، رسول اکرم (ص) کی حیات و سیرت پر سیمینارز انعقاد کرنے کی ضرورت ہے، ٹھیک ہے وہ مدینہ منورہ میں آرام فرما ہیں لیکن اللہ نے ان کی Activity ختم نہیں کی ہے ان کی روحانی و معنوی فعالیت ہم سے مختلف ہے، اور وہ اس وقت دنیا کو مونیٹر کر رہے ہیں، کیونکہ ایک حدیث ترمذی، صحیح مسلم کے علاوہ بھی بہت ساری کتابوں میں ہے کہ جب مسلمانوں کے تمام حالات اور Activity رسول اکرم (ص) کے پاس سے گذاری جاتی ہے تو ان کا دل مبارک رنجیدہ ہو جاتا ہے، جب وہ کوئی ظلم دیکھتے ہیں۔ ان کا دل مبارک خوش ہو جاتا ہے کہ جب وہ مسلمانوں کا ٹھیک کردار دیکھتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ حی ہیں، جب تک حی ہونے کے متعلق جو تردد پایا جاتا ہے اس کو سیمینارز میں اتفاق رائے سے اور مباحثوں سے دور نہیں کیا جائے گا تب تک امریکہ، برطانیہ اور بہت ساری طاقتیں اس کمزور نقطے کو اچھالیں گے، ہمارا Motive صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہونا چاہیئے۔

جب یورپ ایک ہو گیا تو اسلامی ممالک ایک کرنسی یا ایک خارجہ پالیسی میں کیوں نہ جُٹ جائیں، کیا اس لئے امام خمینی (رہ) کی بات نہیں ماننی چاہیئے کہ وہ شیعہ لیڈر تھے، علامہ باقر الصدر شیعہ عالم و لیڈر تھے اس لئے ان کا اسلامی بینک نظام لاگو نہیں ہونا چاہیئے، یہ سراسر تنگ نظریہ ہے، مسلمانوں کو اس طرح تنگ نظر ہرگز نہیں ہونا چاہیئے، اہل تسنن میں علامہ اقبال (رہ) اور علامہ مودودی (رہ) اور محمد سلطوط (رہ) بہت معروف شخصیت ہیں، اس لئے کہ ان کے خیالات تنگ نہیں ہیں اسی طرح امام خمینی (رہ) اور علامہ اقبال (رہ) کے خیالات کو Flourish ہونا چاہیئے اور تمام عالم اسلام میں Implement ہونے چاہیئے۔ اسلامی بینک علامہ باقر الصدر کے Guidelines کے تحت منظم ہونا چاہیئے، تمام عالم اسلام کے چند ممالک میں ہو چکا ہے، ایران نے امریکہ کے ڈالر کو شکست دی جب اسلامی بینک علامہ کے کہنے پر انہوں نے قائم کیا دوسری بات یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) نے کہا کہ حج صرف مناسک نہیں ہے یہ سالانہ عالمی کانفرنس و عالمی سیمینار ہے، تمام مسلمانوں کی اسی لئے Ecominics کو الگ وہاں سیمینار کرنا چاہیئے، تاجروں، سائنسدانوں، سیاست کاروں کو وہاں الگ الگ سیمینارز کرنے چاہیئیں۔ حج کے دوران مختلف محققین کا سیمینار ہونا چاہیئے کیونکہ جغرافیہ بھی تقاضہ کرتا ہے، معدنیات کے ذخیرے بھی تقاضہ کرتے ہیں، اور مسلمانوں کا تناسب آبادی بھی تقاضہ کرتا ہے، کہ مسلمانوں کو ایک بلاک میں منظم ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان و بھارت کے مذاکرات کے حوالے سے اپنے خیالات بیان فرمائیں۔؟
غلام علی گلزار: میرے خیال میں یہ ایک ڈرامہ ہے اور یہ ڈرامہ تب تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا، مسئلہ کشمیر ایک تاریخی حقیقت ہے، میرے خیال میں مسئلہ کشمیر دو یا تین مراحل میں یا مختصر مدت میں حل نہیں ہو گا، کشمیر کے لئے ایک بہترین حل یہ ہو سکتا ہے کہ کشمیر آزاد مملکت رہے اور کشمیر کو اندرونی خودمختاری حاصل ہو اور پاکستان کے ساتھ کرنسی میں یا Defence میں اور خارجی معاملات میں اُس کا الحاق ہو لیکن کشمیر کا اپنا جغرافیہ و سالیمت ہے، اس کا اپنا کلچر ہے، جب یہ سارے Constituents کشمیر کے مل جائیں تو یہ ایک مملکت بن سکتی ہے، اور آخری بات یہ ہے کہ پاکستان کو مضبوط ہونا چاہیئے، پاکستان کا وجود بھارتی مسلمانوں کے لئے بھی ضروری ہے اور کشمیر کے لئے بھی، لیکن پاکستان کو ختم کرنے سے کشمیر کا مسئلہ ختم نہیں ہو گا، بہتر یہ ہے کہ پاکستان مضبوط ہو اس سے جنوبی ایشیاء میں امن قائم ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 236784
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
gucci email list اسلام ٹائمز - تمام مسلمانوں کو عالمی سطح پر ایک اجتہادی مرکزیت میں منظم ہونا چاہیئے، غلام علی گلزار
gucci handbags outlet http://www.clark-excavation.com/gucci-handbags-outlet-and-bags-for-valentine.aspx
ہماری پیشکش