1
0
Friday 22 Feb 2013 13:44

اگر پاراچنار کے تنازعات کاغذات مال کی روشنی میں حل ہوں تو کسی کو بھی شکوے کا موقع نہیں ملے گا، منیر آغا

اگر پاراچنار کے تنازعات کاغذات مال کی روشنی میں حل ہوں تو کسی کو بھی شکوے کا موقع نہیں ملے گا، منیر آغا
مولانا منیر حسین طوری جولائی 2012ء کو تحریک حسینی کے صدر منتخب ہوئے۔ معتدل مزاج رکھنے والے اور غیر متنازعہ شخصیت کے حامل ہیں۔ قلیل مدت صدارت میں کرم ایجنسی کی سطح پر اہل تشیع کے اتحاد کے لئے کافی کوششیں کیں۔ پاراچنار میں موجود مختلف سیاسی قوتوں میں برابر طور پر مقبول ہیں۔ مولانا صاحب مختلف سیاسی طبقات کو ایک میز پر بٹھانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ جس کے لئے انہوں نے عملاً کوششیں بھی کی ہیں۔ کرم ایجنسی میں آئے دن بدامنی کے واقعات پر موصوف سے اسلام ٹائمز نے ایک  گفتگو کی ہے، جو قارئین کے لئے حاضر خدمت ہے۔ 

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں امن وامان کی موجودہ صورتحال کیلئے کس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔؟
منیر آغا: کرم ایجنسی کی موجودہ صورتحال کا سب سے پہلا اور بڑا ذمہ دار خود حکومت ہے۔ جو ایک طرف تو معاہدہ مری کا ڈھونگ رچاتی ہے اور اس معاہدے کو بے نیام تلوار بناکر صرف ایک فریق کے خلاف استعمال کر رہی ہے، جبکہ دوسرے فریق کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر رہی۔ حکومت کے علاوہ طالبان یا طالبان نواز مقامی قبائل ذمہ دار ہیں، جنکے علاقوں میں ہمیشہ طوری بنگش اقوام کا خون بہایا جاتا ہے، طوری قبیلہ کی طرف سے صرف ایک بار خلاف ورزی ہوئی تو حکومت اور حکومتی آلہ کاروں نے ابھی تک آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ مختلف علاقوں کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا، مشتبہ افراد کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ دکانوں کو سیل کر دیا گیا اور اسی طرح سینکڑوں اور مظالم ڈھائے گئے، جبکہ مخالف فریق نے تقریباً 49 سے زائد مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں خود کو بالکل بےبس تصور کرتی ہے اور بڑی دلیری سے کہتی ہے کہ وہ کارروائیاں تو طالبان کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کرمی بازار بم دھماکے کی ذمہ داری مقامی طالبان لیڈر فضل سعید نے خود قبول کی، جبکہ حکومت نے اسکے گھر کے ساتھ کچھ نہیں کیا، جو کہ ٹل پاراچنار مین شاہراہ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

اسلام ٹائمز: مری معاہدے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔؟ اس سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف۔؟
منیر آغا: مری معاہدے کے مسودے سے کافی حد تک ہمارا اتفاق ہے، مگر اسکا فائدہ تب ہوسکتا ہے جب اسے عملاً نافذ کیا جائے۔ مری معاہدے کی حیثیت طوری قبیلے کے لئے صرف کاغذی مسودے کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ مخالف فریق کے حق میں ہمیشہ اسے ایک ننگی تلوار کے طور پر ہمارے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ حتی کہ بعض اوقات تو معاہدے میں موجود حدود ہی کو کراس کرکے طوری قبیلے کو نت نئی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں تحریک حسینی کی مذاکراتی ٹیم نے بار بار حکومت کو منتنبہ کیا مگر انتظامیہ وعدہ کرکے کچھ دنوں کے لئے اپنے کرتوتوں سے تائب ہوجانے کے بعد دوبارہ اپنی مذموم کوششیں شروع کر دیتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں کونسا ایسا مسئلہ ہے جس کے متعلق مری معاہدے کی روشنی میں آپ کو شکایت ہے۔؟
منیر آغا: کوئی ایک مسئلہ نہیں، ایسے بیسیوں مسائل ہیں جن کے متعلق ہمارے تحفظات ہیں۔ مری معاہدہ 15 اکتوبر 2008ء کو طے پایا تھا۔ تقریباً ساڑھے چار سال کے عرصے میں بیسیوں دفعہ مخالف فریق کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ ہمارے پاس انکی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ جنہیں ہم نے چھاپ کر تقسیم بھی کیا ہے۔ انکی مکمل تفصیلات بیان کرنے سے شاید آپ کا وقت ضائع ہوگا۔ تاہم اتنا عرض کر دوں کہ انکی جو تعداد ہمارے پاس درج ہے وہ 49 ہے، یعنی 49 مرتبہ مخالفین نے اس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں سرکاری روڈ پر سرکاری کانوائے کی موجودگی میں مسافروں کو زندہ جلانا، اور لاشوں کو چھریوں اور کلہاڑیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کرنا، مردوں، چھوٹے بچوں حتی کہ خواتین کا اغوا، کروڑوں روپے کا سامان لوٹنا یا جلانا شامل ہیں۔
 اسکے علاوہ طوری قبیلے کی ملکیتی زمینوں پر قبضہ کرنا، دہشتگردانہ حملے، حتی کہ بھرے بازار میں دھماکہ کرکے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنا، جسکا ذکر پہلے بھی ہوچکا۔ مری معاہدے کی رو سے سب سے پہلے روڈ کھلوانا اور یرغمالیوں کا تبادلہ کرانا تھا۔ کہاں ہے حکومت، مری معاہدے کے باقاعدہ نفاذ کے باوجود مخالف فریق کے پاس طوری قبیلے کے 6 افراد ابھی تک یرغمال ہیں، جن میں دو چھوٹے بچے ہیں، جن کے غم سے نڈھال ہوکر ایک کا والد زندگی کی بازی ہی ہار گیا۔ اس سلسلے میں حکومت سے رابطہ کیا جائے تو اتنا ہی کہہ کر بات کو ٹال دیتی ہے کہ کیا کیا جائے، وہ تو طالبان کے پاس ہیں۔ یہی اور اسی طرح کے سینکڑوں مزید کیسز کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ملکیتی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیا۔ ایسی کوئی مثال یا ثبوت ہے جو پیش کیا جسکے۔؟
منیر آغا: بالش خیل کے ساتھ ہی واقع تقریباً 8 ہزار ایکڑ زمین جو کاغذات مال میں طوری قبیلہ کی ملکیت ہے، اس پر ایک ایسے قبیلے نے قبضہ جماکر آبادی شروع کردی ہے، جس کا کرم ایجنسی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ان کا انتظامی سیٹ اپ ہی جدا ہے، کیونکہ مذکورہ زمین بندوبستی علاقے کرم ایجنسی میں واقع ہے اور انگریز دور میں اسکا باقاعدہ نقشہ بنا ہے، جبکہ جس قبیلے نے اس زمین پر قبضہ کیا ہے انکا تعلق اورکزئی علاقے کے اورکزئی قبیلے سے ہے، جو کہ غیر بندوبستی اور غیر علاقہ یعنی ایف آر ہے۔ اس کے باوجود حکومت لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ لنڈیوان، نری میلہ اور شلوزان تنگی میں طوری بنگش کی املاک پر حکومت کی سرپرستی میں قبضہ جمانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، جو کہ کاغذات مال میں طوری بنگش قبیلہ کی ملکیت ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا ہی الزام آپ پر عائد نہیں کیا سکتا؟ آپ نے بھی تو شورکی کے مقام پر ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ جماکر دھڑا دھڑ آبادی شروع کی ہے۔؟
منیر آغا: وہاں بھی حکومت ہمارے ساتھ ہی زیادتی کر رہی ہے۔ ہم تو یہ دعویٰ نہیں کر رہے کہ ہمیں تجاوزات کی اجازت ہو، آپ نے جس علاقے کا ذکر کیا وہ تو طوری قبیلہ کی املاک ہیں، جس کا حکومت کے پاس ریکارڈ موجود ہے، اگر اس سلسلے میں مخالفین کے پاس یا حکومت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں، چنانچہ آپ کا پیش کردہ اعتراض پھر بھی انہی کی طرف پلٹتا ہے، یہ اور اسی طرح کے درجنوں متنازعہ مقامات اور بھی ہیں۔ حکومت سے تو ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ الحمد اللہ کرم ایجنسی ایک بندوبستی ایجنسی ہے، جہاں انگریزوں کے زمانے سے زمینوں کا نقشہ اور ریکارڈ موجود ہے، چنانچہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دفتروں میں موجود ریکارڈ لے کر متنازعہ جگہ پر جائیں اور پتہ لگائیں، جو بھی جارح ہے اسے جارح قرار دیں۔ خواہ ہم ہی کیوں نہ ہوں۔

اسلام ٹائمز: مقامی حکومت کو بھی آپ لوگوں سے ایسی درجنوں شکایات ہیں کہ تحریک حسینی مذاکرات کے ذریعے نہیں بلکہ ہمیشہ دھونس، دھمکی اور ٹکراؤ کی سیاست کرتی ہے۔ کیا آپ لوگوں نے یہ بات یا ایسی ہی دیگر شکایات حکومت کے ساتھ شیئر کی ہیں؟ یا ایسے ہی ہر وقت ہنگامہ، ہڑتال اور جلوس کی سیاست اپنا رکھی ہے۔؟
منیر آغا: نہیں یہ بات بالکل تہمت ہے۔ ہم نے جمہوری راہ کے علاوہ کبھی بھی ٹکراؤ کی سیاست نہیں کی۔ ہم نے ایک دفعہ نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ، بلکہ 50 رکنی جرگہ جس میں تحریک حسینی کے صرف 3 نمائندے تھے، انہوں نے بھی بار بار بات کی ہے، لیکن انکا نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک کے نامزد کردہ نمائندوں کو اب جرگہ میں بلانا بھی ترک کر دیا گیا ہے۔ ہم نے ہر مرتبہ ہر مسئلے پر حکومت سے مذاکرات کی کوشش کی ہے لیکن جب کوئی شنوائی نہیں ہوتی تو پھر جمہوری طریقے سے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا ہے۔ یہ لوگ طول تاریخ میں کوئی ایسی مثال بتائیں کہ ہم نے کبھی قومی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہو، کیا احتجاج کا حق بھی ہمیں حاصل نہیں۔؟

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے آپ کی کیا رائے ہے اور اس سلسلے میں کیا مشورہ دیتے ہیں۔؟
منیر آغا: کرم ایجنسی یا کسی بھی علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے چند اصولوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ جیسے ہمارے مولا امیر المؤمنین علی (ع) کا بھی یہ فرمان ہے کہ حکومت کفر سے تو باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے علاقے کے تمام لوگوں کے ساتھ بلاتفریق انصاف ہونا چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ حکومت کو ہر جگہ اپنا تسلط اور رٹ قائم کرنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ بعض مقامات پر انکا تسلط یا رٹ قائم ہو اور لوگوں کو مطیع بنائے رکھے، جبکہ کسی دوسری جگہ حکومت کا کوئی اختیار نہ ہو، مکمل آزادی ہو، عوام یا شدت پسند جو چاہیں کرلیں حکومت وہاں بالکل جاتی بھی نہ ہو۔ سوئم یہ کہ حکومت کو چاہئے کہ علاقے میں موجود ہر باثر طبقے اور سیاسی جماعت کے ساتھ ہم آھنگی رکھے۔ انکے ساتھ مشورہ کرے، ہر ایک کی بات سنے۔ جو بھی مناسب تجویز ملے اس کو عملاً نافذ کیا جائے۔ اگر حکومت انہیں ساتھ ملا کر چلنے کی سیاست سے گریز کرتی رہے تو اسے لوگوں کا تعاؤن کیا خاک حاصل ہوگا، اور یہ تو واضح سی بات ہے کہ جب تک عوام الناس کو ساتھ ملا کر چلنے کی پالیسی نہیں اپنائی جاتی، حکومتیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
 و ما علینا الا البلاغ۔
خبر کا کوڈ : 241623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

khobsorat.
acha admi he. awr
ہماری پیشکش