0
Monday 30 Sep 2013 13:43

پاکستان میں دہشت گردوں کے عزائم کو ہر قیمت پر ناکام بنائیں گے، بشپ صادق ڈینئیل

پاکستان میں دہشت گردوں کے عزائم کو ہر قیمت پر ناکام بنائیں گے، بشپ صادق ڈینئیل
بشپ صادق ڈینئیل اس وقت بشپ آف سندھ اینڈ بلوچستان ڈائیوسیس کے عہدے پر فائض ہیں۔ آپ پاکستان میں مسیحی برادری کی آواز سمجھے جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ پاکستان بھر میں بین المذاہب یکجہتی کے فروغ کے حوالے سے بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور سانحہ پشاور جس میں دہشت گردوں نے آل سینٹس چرچ کو خودکش حملے کا نشانہ بنا کر پاکستان میں مختلف مذاہب کو آپس میں دست و گریباں کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کی تھی، بشپ صادق ڈینئیل نے دیگر مذاہب و مکاتب کے علماء و رہنماﺅں کے ساتھ مل کر اس سازش کو ناکام بنانے اور بین المذاہب یکجہتی میں فعال کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز نے بشپ صادق ڈینئیل کے ساتھ سانحہ پشاور اور اس کے پس پردہ عوامل، بین المذہب یکجہتی، پاکستان میں جاری دہشت گردی اور اسکے خاتمے سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے کراچی کے علاقے صدر میں واقع ہولی ٹرینیٹی کیتھڈرل چرچ آف پاکستان میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور جس میں دہشت گردوں نے آل سینٹس چرچ آف پاکستان کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا، دہشت گردی کے اس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے کیا کہنا چاہئیے گے؟
بشپ صادق ڈینئیل: پشاور میں چرچ پر حملہ دہشتگردی کا ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، ملک کے کونے کونے سے تمام مذاہب، مکاتب و مسالک سے تعلق رکھنے والوں نے، سیاسی و مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی نے اس واقعہ کی مذمت کی، مشکل اور دکھ کی گھڑی پر ہمارا ساتھ دیا، ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا جس پر ہم ان تمام لوگوں کے شکرگزار ہیں۔ تمام مذاہب و مکاتب نے ہمارے ساتھ دہشت گردی کے اس واقعے کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم صرف چرچ پر ہونے والی دہشت گردی کی بات نہیں کرتے بلکہ دہشت گردی چاہے مسجد میں ہو یا امام بارگاہ پر یا کہیں بھی، ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، ہمیں ان تمام جگہوں پر ہونے والی دہشت گردی کا بھی اتنا ہی دکھ اور افسوس ہوتا ہے جس طرح کسی چرچ پر دہشت گردی کا۔

اسلام ٹائمز: تمام مذاہب و مکاتب سے تعلق رکھنے علماء و رہنماﺅں نے سانحہ پشاور پر مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کیاہے، کیا علماء و رہنماﺅں سے ملاقاتوں میں پاکستان میں دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے حوالے سے کسی مشترکہ جدوجہد کی بات ہوئی ہے؟
بشپ صادق ڈینئیل: دیکھیں ہمارا تعلق الگ الگ مذاہب و مکاتب سے تو ہو سکتا ہے لیکن ہم سب پاکستانی ہیں اور یہ ہم سب کے درمیان سب سے بڑا اتحاد کا عنصر ہے۔ تمام مذاہب و مکاتب کے علماءاور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں سے ملاقات میں سب نے اس نکتہ پر اتفاق کیا کہ ہمیں یہ پیغام ہر پاکستانی تک پہنچانا ہوگا کہ سب کو زندہ رہنے کا حق ہے اور ہمیں چاہئیے کہ آپس میں پیار، محبت و بھائی چارے کی فضاء قائم کریں۔ تمام علماء و رہنماﺅں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم پاکستان میں دہشت گردوں کے عزائم کو ہر قیمت پر ناکام بنائیں گے۔ سب نے اس نکتہ پر اتفاق کیا ہے کہ ہم سب اپنے اتحاد و وحدت سے دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنا کر پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرینگے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ہم سب مل کر پوری کوشش کریں گے کہ شرپسند لوگ اور دہشت گرد ہمارے درمیان داخل ہو کر کوئی بھی ایسی کوشش انجام نہ دے سکیں کہ جس سے ہمارے درمیان اتحاد و وحدت کی فضاء اور بھائی چارگی کو نقصان پہنچے اور انتشار پھیلا کر پاکستان کو کمزور بنانے کی سازش کرے۔

اسلام ٹائمز: دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستانی عوام کے کردار کے حوالے سے کیا کہیں گے اور سیاسی جماعتوں سے کیا مطالبہ کرینگے؟
بشپ صادق ڈینئیل: بنیادی چیز تو یہ ہے کہ ہم اس بات پر متفق اور ایک ہو جائیں کہ ہم نے پاکستان میں دہشت گردی کو پروان نہیں چڑھنے دینا۔ جب ہر شخص اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گا، دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کریگا تو ہی اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے علاقوں میں، کمیونٹی میں عملی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ عوام، علماء، مذہبی رہنماء، سیاسی جماعتیں کو اکٹھا ہوکر مشترکہ کاوشیں کرنی ہونگی، اس طرح سے ہم دہشت گردوں کو واضح پیغام دے پائیں گے کہ ہم سب دہشت گردی کے خلاف اکھٹا ہو چکے ہیں۔ پھر ہم اپنے اتحاد سے سیاسی جماعتوں کو بھی پیغام دینگے کہ اپنی اپنی سیاست کرو، جو بھی پاکستان کا صدر بنے، وزیراعظم بنے لیکن ہم پاکستان میں دہشت گردی کو قبول نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: دہشت گردوں پاکستان میں تمام مذاہب و مکاتب فکر کو نشانہ بنا رہے ہیں، فوجی و سول ادارے ہوں یا عوامی مقامات، کوئی بھی جگہ ایسی نہیں ہے کہ جو ان دہشت گردوں سے محفوظ ہو، تو کیا ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرنی چاہئیے؟
بشپ صادق ڈینئیل: دیکھیں اب معاملہ اسی طرف جا رہا ہے کیونکہ جب آرمی کا جرنیل ہی محفوظ نہیں رہا پاکستان میں، تو باقی کیا رہا۔ فوج جس نے ملک و قوم کو بچانا ہے اگر وہ محفوظ نہیں تو باقی کیا رہ جائے گا۔ ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ ہماری فوج کو بھی بے بسی کا شکار کیا جا رہا ہے ہے کہ وہ بھی کچھ نہیں کر سکیں۔ خبروں کے مطابق دہشت گرد مزاکرات کیلئے مان نہیں رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مزاکرات کرنا نہیں ہیں مگر ہم پھر بھی ان کے پیچھے مزاکرات کیلئے بھاگ رہے ہیں تو پھر اس صورتحال میں ہم کس کے ساتھ مزاکرات کرینگے۔ تمام لوگ اس دہشت گردی کے کلچر کے خلاف ہیں، ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے، اب تو سڑک پر چلنے والا شخص بھی پریشان رہتا ہے کہ میں گھر پر پہنچوں گا یا نہیں۔ اب شاید حکومت اور فوج کے پاس بھی کارروائی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہا ہے۔ اب تو ملک کو بچانا ہے، عوام کو بچانا ہے یہی ایک ایجنڈا ہے اور ہونا بھی چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: آخر سوال یہ کہ سانحہ پشاور سمیت دہشت گردی کے تمام واقعات کے پس پردہ کیا عوامل کر فرما ہیں؟
بشپ صادق ڈینئیل: دیکھیں پاکستان میں دہشت گردی کا مقصد ملک کو کمزور کرنا ہے، ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ملک کو الجھا کر رکھ دیا ہے، لیکن ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے اس ملک کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے، پاکستان کو بچایا ہوا ہے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں ملک کو تباہ کرنے کیلئے کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ واقعی خدا کا فضل ہے کہ یہ ملک اس کی حفاظت میں قائم ہے اور قائم رہے گا۔ بین المذاہب یکجہتی اور بھائی چارے کو اب کوئی کمزور نہیں کر سکتا، اس میں اب دن بدن اضافہ ہوگا، یہ بھائی چارہ اور مضبوط ہو گا، ہم سب ملکر پاکستان کو پہلے کی طرح پرامن بنائیں گے۔

اسلام ٹائمز: عوام کے نام کیا پیغام دینا چاہئیں گے؟
بشپ صادق ڈینئیل: میں صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ جتنی جلدی ہو سکے سب کو مل جل کر پاکستان میں امن و امان کی بحالی کے اتحاد و اتفاق سے کوششیں کرنی چاہئیے تا کہ ہمارا ملک پھر سے امن و امان کا گہوارہ بن سکے۔ ہم کو مل کر آپس میں اتحاد و وحدت کی فضاء قائم کر کے متحد ہو کر دہشت گردی، چور بازاری اور دیگر جرائم و کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہئیے، دہشت گردی و دیگر جرائم میں ملوث عناصر کو رد کریں، انہیں قبول نہ کریں، ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں بے نقاب کریں، ایسے بدعنوان عناصر کو معاشرے سے علیحدہ کر دیں تاکہ ہم اپنے ملک کو خوبصورت اور پرامن بنا سکیں جہاں لوگ مل جل کر پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں، ملک ترقی کرے اور عوام خوشحال ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 306601
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش