0
Thursday 17 Oct 2013 12:56

ایجنسیاں چاہیں تو کوئٹہ میں امن و امان کے مسئلے کو حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، محمود خان اچکزئی

ایجنسیاں چاہیں تو کوئٹہ میں امن و امان کے مسئلے کو حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں، محمود خان اچکزئی

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور پشتون قوم پرست رہنماء محمود خان اچکزئی 1948ء میں ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کے گاؤں کلی عنایت اللہ کاریز میں عبدالصمد خان اچکزئی کے گھر پیدا ہوئے۔ محمود خان اچکزئی نے سیاست کا آغاز اپنے والد خان عبدالصمد خان اچکزئی کی شہادت کے بعد کیا، جو پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی (پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) کے چیئرمین تھے۔ عبدالصمد خان کی شہادت کے بعد محمود اچکزئی کو اس پارٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ وہ 2 فروری 1974ء کو ضمنی انتخاب میں بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن بنے۔ اس کے علاوہ وہ قلعہ عبداللہ اور کوئٹہ سے کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں کوئٹہ کے حلقہ این اے 259 سے ایک مرتبہ پھر منتخب ہوئے اور بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہے۔ "اسلام ٹائمز" نے ان سے پاکستان کو درپیش مسائل، کوئٹہ میں امن و امان کی صورتحال سمیت دیگر امور سے متعلق مختصر ٹیلیفونک گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔؟
محمود خان اچکزئی: گذشتہ 11 برس سے جو مسئلہ بہت سنگین ہے، اس مسئلے کا نام "مذہبی جنونیت" ہے، جو فاٹا میں ہو رہا ہے اور جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے، پاکستان میں خودکش حملے متعارف ہوچکے ہیں اور دوسری طرف سے ہمارا نیو کلیئر پروگرام جو ہماری طاقت ہے وہ بھی ہمارے لیے ایک سنجیدہ مسلئہ بن گیا ہے۔ وہ اس لیے کہ امریکہ کسی صورت میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت رہے، کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نیو کلیئر ہتھیار مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ان کی یہ دلیل درست ہے یا غلط، یہ میں آپ کی عقل اور سمجھ پر چھوڑتا ہوں۔ مذہبی جنونیت نے اگر ملک پر قبضہ کر لیا تو ایٹمی ہتھیاروں پر بھی وہ قبضہ کر لیں گے۔ دوسری طرف امریکہ چاہتا ہے کہ سنٹرل ایشیاء کے قدرتی وسائل کو حاصل کیا جائے۔ یا افغانستان کو کنٹرول میں رکھا جائے یا ایران کے خلاف اگر کوئی کارروائی کرنا درکار ہو تو وہ یہ تمام مقاصد بلوچستان کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا انڈیا بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے میں ملوث ہے۔؟
محمود خان اچکزئی: اس میں بھی حقیقت ہے کہ انڈیا کا بلوچستان کے معاملات میں سو فیصد ہاتھ ہے۔ انڈیا ہمارا دشمن ہے اور اگر ہم نے دشمن کو موقع دیا ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ انڈیا کی مداخلت بند کی جائے، افغانستان ہمارے معاملات میں کچھ نہ کرے اور ہم اس کے معاملات میں کچھ نہ کریں۔ امریکہ کی اس خطے میں مداخلت بند کی جائے۔ ہماری ریاست کو دیگر ممالک میں مداخلت کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دینی ہوگی، کیونکہ افغانستان میں منفی مداخلت کا براہ راست اثر پاکستان اور بالخصوص بلوچستان پر پڑ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: محترمہ بینظر بھٹو کے قتل میں کون ملوث ہوسکتا ہے۔؟
محمود خان اچکزئی: بے نظیر بھٹو انتہائی بہادر اور ذہین خاتون تھیں۔ انہیں اس پیغام کو سمجھنا چاہیے تھا کہ انہیں مار دیا جائے گا، بلکہ انہیں یہ بات معلوم بھی تھی۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو کراچی پہنچی تو اس وقت پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کی قیادت ان کے ساتھ تھی، پھر ان پر حملہ کیا گیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا دلیر اور پاگل انسان کون تھا، جو ان سب کو مارنا چاہتا تھا۔ اگر میں بے نظیر بھٹو کی جگہ ہوتا تو  اپنی مہم کو روک کر دنیا سے اپیل کرتا کہ میرے آنے پر کسی کو اعتراض کیوں ہے اور میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی باڈی لینگویج سے معلوم ہو رہا تھا کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اب اس مسئلے کو ان کی پارٹی نے کو اٹھانا چاہیے، لیکن اُن کے قتل کے پیچھے کونسے ہاتھ ملوث ہیں، یہ اُنکے پارٹی عہدیداران سے پوچھا جائے۔

اسلام ٹائمز: کوئٹہ میں دہشتگردی کی کارروائیوں اور بالخصوص شیعہ ہزارہ قوم کے قتل عام کے پیچھے کونسے محرکات ہے۔؟
محمود خان اچکزئی: کوئٹہ 16 گلیوں کا شہر ہے۔ ایجنسیاں اتنی نااہل نہیں کہ وہ ان دہشتگردوں کو ڈھونڈ نہیں سکتی۔ ہماری ایجنسیاں گدلے پانی سے بھی سوئی ڈھونڈ نکال سکتی ہیں۔ اگر ہم ایمانداری سے کام لے کر سچ بولیں تو پاکستان کو نہ صرف چلایا بلکہ ایک ترقی یافتہ ملک بنایا جاسکتا ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا قتل شیعہ سنی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے کچھ اور مقاصد ہیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ہزارہ قبیلے کو بطور شیعہ ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا۔ وجوہات جو بھی ہیں، ہماری ایجنسیاں بہتر بتاسکتی ہیں۔ اگر شیعہ سنی کی جنگ ہوتی تو پھر پنجاب شیعوں سے بھرا پڑا ہے، وہاں کیوں قتل عام نہیں ہو رہا۔ اگر ہم نے واقعی پاکستان کو صحیح طریقے سے چلانا ہے تو ہمیں اپنے ہر عمل میں ایمانداری دکھانا ہوگی اور لوگوں کو جھوٹ و نفرت کی بجائے حب الوطنی اور سچ کی تربیت دینا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: افغانستان کے مسئلے کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہے۔؟
محمود خان اچکزئی: افغانستان کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرکے وہاں پر مداخلت ختم کر دینی چاہیئے اور پاکستان کی نئی آزاد جمہوری حکومت کو افغانستان اور انڈیا کیساتھ صلح کرکے خطے کی امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہوگا۔ پرامن افغانستان ہی خطے کی امن کا ضامن ہے۔ جب تک افغانستان میں امن کا قیام اور اس کی آزادی و خود مختاری کا احترام نہیں کیا جاتا، اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا پاکستان سمیت سب کو اس سلسلے میں واضح پالیسی اختیار کرکے دہشتگردی اور بدامنی کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا اور ملک و خطے کے کروڑوں انسانوں کو آگ و خون کے شعلوں سے بچانا ہوگا۔

خبر کا کوڈ : 311643
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش