1
0
Thursday 6 Feb 2014 17:38

اگر دہشتگردوں نے پھر عاشقانِ رسول (ص)‌ کا خون بہایا تو جمہوریت لپیٹ‌ دینگے، سینیٹر فیصل رضا عابدی

اگر دہشتگردوں نے پھر عاشقانِ رسول (ص)‌ کا خون بہایا تو جمہوریت لپیٹ‌ دینگے، سینیٹر فیصل رضا عابدی

سید فیصل رضا عابدی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور وائس آف شُہداء پاکستان کے چیئرمین ہے۔ آپ پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر بھی‌ رہے ہیں۔ آپ کو سانحہ علمدار روڈ کے بعد دھرنا دیئے بیٹھے شیعہ ہزارہ قوم کیساتھ مذاکرات کرنے کو کہا گیا تھا۔ لیکن آپ مذاکرات کیلئے کوئٹہ جانے سے پیچھے ہٹ گئے۔ جسکی وجہ سے اگست 2012ء کو آپکو پارٹی کی کور کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ 2 فروری 2014ء کو کوئٹہ میں‌ منعقدہ پیام شُہداء و اتحاد ملت کانفرنس کے بعد ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملک میں جاری دہشتگردی، حکومت طالبان مذاکرات اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے مختصر مگر اہم انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کوئٹہ میں ہونیوالی دہشتگردی کو آپ ہزارہ نسل کشی سمجھتے ہے یا شیعہ نسل کشی۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: میں سمجھتا ہوں کہ نہ یہ ہزارہ نسل کشی ہے، نہ یہ پنجابیوں کی نسل کشی ہے اور نہ ہی کسی اور قوم کی۔ بلکہ یہ عاشقانِ رسول (ص) اور عاشقانِ حسین (ع) کی نسل کشی کی جا رہی ہیں۔ ایک ترتیب کیساتھ کوئٹہ سے لیکر کراچی اور کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک یہ قتل عام جاری ہیں۔ پچھلے بارہ سالوں سے یہی عمل جاری ہے، لیکن سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ اس پہ تو بہت ذکر ہوتا ہے کہ اس ناحق قتل عام پر آواز نہ اُٹھائی جائے، کیونکہ یہ ہمیں‌ مذہبی رجحان کی طرف لے آتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک جتنے خودکش بمبار کے سر ان کے ریکارڈ میں موجود ہیں اور جتنے بھی انکے حمایتی ہے، وہ ہمیں‌ مذاکرات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ ساری یزیدی قوتیں ہیں اور پورا پاکستان جانتا ہے کہ انکا مکتبہ فکر کونسا ہے، لیکن یہ ہمارے بڑے پن کا ثبوت ہے کہ ہم ان میں بھی اچھے اور برے لوگوں کی تفریق کرتے ہیں اور اسی کو انسانیت کہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ تاثر صحیح ہے کہ بلوچستان میں بلوچ بغاوت کو روکنے کیلئے اہل تشیع‌ کو مارا جا رہا ہے۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: سندھ و پنجاب میں‌ تو کوئی بلوچوں کی تحریک نہیں چل رہی۔ یہ تو ہر جگہ پردے ڈالے گئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں‌ نے عاشقانِ رسول (ص) اور عاشقانِ حسین (ع) قتل کرنا ہیں اور اپنی سوچ کو یہاں پر مسلط کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے انہیں بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔ پاکستان میں‌ کسی پاکستانی کو کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسکے پیچھے کون ہیں۔ امریکہ سے لیکر چین تک اور چین سے لیکر روس تک پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اسکے پیچھے کون ہیں۔ شام میں بلوچوں کی تحریک کی وجہ سے تو اہل تشیع کو نہیں مارا جارہا۔ بلکہ شام میں شامیوں، عراق میں عراقیوں‌، یمن میں‌ یمنیوں اور بحرین میں بحرینیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہیں۔ اسکے پیچھے بادشاہت کا پورا نظام ہے، جو اسلام کو اپنی بادشاہت کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: میڈیا میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار لڑی جا رہی ہے۔ کیا یہ واقعی پراکسی وار ہے۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: دیکھنا یہ پڑے گا کہ اسکے پیچھے محرکات کیا ہیں۔ ایک طرف آپ سر دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے کاؤنٹر کیا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان میں گن شوٹ پچھلے چالیس سال سے رائج ہے۔ اس گن شوٹ کو عدالتوں کے ذریعے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف کھلی دہشتگردی ہے، جسے وہ خود قبول کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اسکے پیچھے ہے۔ اگر سعودی عرب ہے تو وہ دھماکے کرکے فوج، عوام، علماء سمیت سب کو مار رہے ہیں اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ تیس فیصد اسلامی ممالک میں وہ یہی کام کروا رہے ہیں۔ اگر مجھے اور آپ کو شیعہ ہونے کی نسبت ایران سے تشبیہہ دیتے ہے تو ہم افواج کو مضبوط کر رہے ہیں۔ اگر یہ پراکسی وار ہے تو دونوں‌ ملکوں‌ کا کردار بھی سامنے ہے۔ اسکا کردار دھماکے کرکے فوج کو مروانا ہیں۔ جبکہ ہمارا کردار عوام میں فوج کی محبت پیدا کرنا ہے، تو اگر انہوں نے ممالک پر یہ ملبہ ڈالنا ہے تو ملکوں کا کردار بھی سب کے سامنے عیاں‌ ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر دہشتگردوں کی جانب سے پھر کوئی بڑا نقصان اُٹھانا پڑا تو پھر آپکا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: حکومت لپیٹ دینگے، ایسی نام نہاد جمہوریت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ آخری موقع افواج پاکستان کو دینگے۔ اگر یہ پھر بھی نہیں سنبھلے، پھر اٹھارہ کروڑ فوج نظر آئے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ کا کہنا ہے کہ یہ ایک مائنڈ سیٹ کی جنگ ہے، تو اس مائنڈ‌ سیٹ کا مقابلہ بندوق سے کیسے کیا جائے گا۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: جب میں‌ مائنڈ سیٹ کی بات کر رہا تھا تو اس وقت آپ سو رہے تھے۔ آپ لوگوں نے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جب سر پہ پڑی ہے، اس وقت آپ کو یاد آئی ہے۔ یہ بات آپ پانچ سال پہلے سمجھ جاتے، لیکن اگر اسکے باوجود بھی آپ جاگ جاؤ اور اس ملک کیلئے کام کرو تو اس ملک کے کام کیلئے آئین و قانون نے آپ کو اجازت دی ہے، کہ آپ اپنے افواج کو مضبوط بنائیں۔ ہم نے کونسا خود لڑنا ہے، بلکہ ہم تو اپنی افواج کو مضبوط بنائینگے اور جہاں‌ افواج نے آواز دی، تو ہم 1965ء کی طرح اپنے بزرگوں کی طرح سینوں پہ بم باندھ کر بھی دشمنوں پر کودیں گے۔ یہ پاکستان بچانے کی جنگ ہے، میرے گھر کی جنگ تو نہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن اگر یہی مائنڈ سیٹ پاک فوج میں بھی گھس گئی ہو تو۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: یہ مائنڈ سیٹ تو ہر جگہ ہے میاں! لیکن میں سمجھتا ہوں‌ کہ افواج کیلئے اسکا نظم و ضبط ہی اسکا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہیں۔ اب فوج کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ ان کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے ریاست کی رٹ قائم کرے۔ دنیا میں جہاں قانون نہیں، وہاں جانوریت پھلتی ہے اور پاکستان میں اب ان جانوروں‌ کی کارروائیاں آزادانہ طور پر دیکھی جاسکتی ہیں کہ آپ خود ایک ٹاؤن کے اندر محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور اگر آپ نے اپنی ساری زندگی آنے والی نسلوں کیساتھ اسی ٹاؤن میں گزارنی ہے تو خوش رہو، لیکن اگر آپ واقعی پاکستان کی بقاء کیلئے یہ جنگ لڑنا چاہتے ہیں تو کیا انبیاء‌ کرام، ائمہ طاہرین، خلفاء راشدین اور اصحاب کرام نے جنگیں نہیں‌ لڑیں۔ جب جنگیں مسلط کی گئی تو انہوں نے بھرپور جواب دیا۔

اسلام ٹائمز: اس سے قبل بھی ملک میں آمر آئے، جسکی وجہ سے دہشتگردی مزید بڑھی، تو کیا آپ اسے حل سمجھتے ہے۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: آمر نہیں‌ تھے وہ ڈرامے تھے۔ آمر جب آئے گا تو آپ کو پتہ چلے گا، کہ آمر کہتے کس کو ہیں۔ اس وقت پاکستان میں آمر کی نہیں مارشل کورٹس کی ضرورت ہے۔ ہم آمر کیلئے نہیں بلکہ مارشل کورٹس کیلئے آواز اُٹھاتے ہیں۔ ہمیں وہ عدالتیں چاہیئں جو صبح کیس سنیں اور شام کو فیصلہ سنا دیں۔

اسلام ٹائمز: اگر فوج نے بھی مذاکرات کیلئے حکومت کا ساتھ دیا۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: فوج آرٹیکل 256 کے تحت حکومت کے کسی بھی فیصلے کی پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج جنگ ڈکلیئر کرنے کے باوجود بیٹھی ہوئی ہے۔ اگر آنا ہوا تو وہ اپنے اختیارات کے تحت آئے گی، جسے مارشل لاء کہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر بلوچستان میں مارشل کورٹس لگیں تو تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں‌ بلوچوں‌ کو ہی زیادہ تر ٹارگٹ کیا جائے گا۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: بلوچستان صرف بلوچوں‌ کا تو نہیں۔ میں تو کبھی بھی کراچی میں‌ یہ سوچ کر نہیں بیٹھا کہ یہاں‌ جو بلوچ ہیں، وہ کراچی والوں کی سرزمین پر رہنے کو آئے ہیں۔ یہ سوچ تو آپ لوگوں‌ نے بنائی ہوئی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے۔ کراچی آپ کا بھی اتنا ہی ہے جتنا بلوچستان میرا۔ آپ پاکستان کی بات کریں۔

اسلام ٹائمز: کوئٹہ کے جوانوں‌ کو کیا پیغام دینگے۔؟
سینیٹر فیصل رضا عابدی: اسی طرح صبر کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھیں، جب تک کہ آئین و قانون اجازت نہ دیں، کیوںکہ ہماری سکیورٹی فورسز موجود ہیں اور ہمیں سب سے زیادہ ان پر اعتبار ہونا چاہیئے۔ اس ملک میں‌ پاک افواج کو بھی ہزاروں کی تعداد میں‌ مارا گیا ہیں۔ لاشیں صرف کوئٹہ والوں‌ کے پاس نہیں، بلکہ ہر جگہ لاشیں‌ ہیں۔ آپ نے مجھ سے کبھی بھی کراچی کے بارے میں نہیں پوچھا، اسے قوم پرستی کہتے ہیں۔ لہذا ان چیزوں کو اپنے ذہن سے نکالیں اور پاکستانی بن کر سوچیں۔

خبر کا کوڈ : 348981
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جیو فیصل بھائی جیو
ہماری پیشکش