0
Friday 7 Feb 2014 13:57
پاک ایران کیس منصوبہ ختم ہوا تو یہ نواز لیگ کی سیاسی موت ہوگا

جب تک دہشتگرد ہتھیار نہیں پھینکیں گے معاملات حل نہیں ہوسکتے، جہانگیر بدر

جب تک دہشتگرد ہتھیار نہیں پھینکیں گے معاملات حل نہیں ہوسکتے، جہانگیر بدر
سینیٹر جہانگیر بدر پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور پی پی پی کے سینیئر رہنما ہیں۔ جہانگیر بدر نے اپنی سیاست کا آغاز 60ء کی دہائی میں کیا۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے جہانگیر بدر نے تعلیم کیساتھ سیاست کو بھی جاری رکھا۔ 1968ء میں جب جہانگیر بدر ہیلے کالج پنجاب یونیورسٹی کی یونین کے صدر تھے تو اس وقت کے آمر یحیٰی خان کی فوجی عدالت نے انہیں ایک سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی، جو انہوں نے شاہ پور جیل میں کاٹی۔ 1977-78 میں آمر وقت ضیا الحق نے ان کو ایک سال قید اور سخت کوڑوں کی سزا سنائی اور کوٹ لکھپت جیل میں مقید رہے۔ ضیاء الحق کا تقریباً پورا دور ان کا قید میں گزرا۔ 2001ء میں پرویز مشرف کی حکومت میں بھی انہیں ڈرایا دھمکایا گیا، لالچ دیئے گئے لیکن انہوں نے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا، جس پر انہیں اس دور میں بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے بہت سے عہدوں پر کام کیا۔ 1979ء میں پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ 1992ء میں ایل ایل بی اور 1997ء میں پنجاب یونیورسٹی میں قانون تجارت کی تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ جہانگیر بدر طویل پارلیمانی تجربے کے حامل سیاستدان ہیں۔ آپ پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ مذاکرات شروع ہوچکے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی۔؟
جہانگیر بدر: حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے جس کمیٹی کا اعلان کیا ہے اس کے ارکان میں سے بعض پر ہمارے تحفظات ہیں، اس کے علاوہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ کمیٹی کے ارکان کو وزیراعظم کی تقریر سن کر پتہ چلا کہ وہ اس کمیٹی کے رکن ہیں۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، خود ہی فیصلہ کیا اور پارلیمنٹ میں آکر امن کو آخری موقع دینے کیلئے سنا دیا، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کمیٹی کے ارکان کو پہلے تعین کیا جاتا، ان سے رائے لے لی جاتی کہ آپ کو منتخب کر رہے ہیں آپ کا کیا مشورہ ہے، کیا آپ یہ ذمہ داری پوری بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ بہرحال یہ
ایک احسن اقدام ہے کہ چلیں مذاکرات کا سلسلہ تو شروع ہوا، اس سے دہشت گردی اگر ختم ہوتی ہے تو اور کیا چاہئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جائے۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، اس لئے ان معاملات کو خفیہ رکھنے کے بجائے عوام کو بھی باخبر رکھا جائے، تاکہ انہیں علم ہو کہ ان مذاکرات کی حقیقت کیا ہے۔ ٹائم فریم دیئے بغیر مذاکرات وقت کا ضیاع ہوں گے۔ اس لئے اس دوران کوئی حملہ یا دھماکہ ہونے سے یہ مذاکرات میز الٹ نہ جائے۔ ہم مذاکرات کے خلاف نہیں، مگر جب تک دہشت گرد ہتھیار نہیں پھینکیں گے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔

دہشت گردی کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے، اس لئے مدرسوں، مسجدوں، سکولوں، شاہراہوں، پلازوں پر حملے کرنیوالوں کو قوم کس طرح معاف کرسکتی ہے۔ جو لوگ بھی ان حملوں میں ملوث ہیں یا ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، ان کے خلاف پوری قوم کو ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا۔ مذاکرات کے دوران اگر دہشت گردی بھی ہوتی رہے گی تو یہ سلسلہ کس طرح کامیاب ہوگا، یہ تو کھلی بلیک میلنگ ہوگی۔ دہشت گرد پہلے ہتھیار پھینک دیں، حکومت کی رٹ اور آئین کو تسلیم کریں، اس کے بعد اگر یہ سلسلہ آگے بڑھایا جاتا ہے تو اس کی کامیابی کے بھی امکانات ہیں، بصورت دیگر میرے خیال میں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ پائے گی۔ قوم کا مورال بلند رکھنے کیلئے حکمرانوں کو باوقار انداز میں مذاکرات کرنے چاہئے، چاپلوسانہ اور خوشامدانہ رویہ نہیں ہونا چاہئے۔ کسی سے دب کر یا خوف زدہ ہو کر بات نہ کی جائے۔ سٹیٹ کی اپنی طاقت اور رٹ ہوتی ہے۔ اسے قائم رکھتے ہوئے مذاکرات میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر حکومت نے اس پہلو پر کوئی توجہ نہیں دی، جس سے ان کی کمزوری واضح ہوتی ہے۔

ملک کے کچھ سیاستدان بھی ان دہشت گردوں سے خوف زدہ ہیں، لیکن ہماری جماعت نے شہادتوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔ ہم ملک کی آزادی، سالمیت اور وقار پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ کسی کی دھونس دھاندلی برداشت نہیں کریں گے۔ ملک کو آج بیک وقت اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا ہے، ایک طرف بھارت ہے تو دوسری طرف افغانستان ہے، ہم دوطرفہ مسائل میں گھر چکے ہیں، امریکہ افغانستان سے نکلنے کیلئے سامان باندھ رہا
ہے۔ اس کے جانے کے بعد بھی خطے پر منفی اثرات پڑیں گے، اس لئے امریکہ تناؤ کی کیفیت میں ہے۔ ان معاملات کو سلجھانے کیلئے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ملک میں قیام امن کیلئے ہمیں اے پی سی کی قراردادوں پر عمل کرنا ہوگا۔ حکومت پھر کہہ رہی ہے کہ اے پی سی بلانی ہے، اس کی کیا ضرورت ہے، پہلی اے پی سی کی قراردادیں موجود ہیں، ان پر عمل کیا جائے، بے مقصد ہی دوسری کانفرنس کیوں بلائی جا رہی ہے، یہ وقت کا ضیاع ہوگا۔ اس لئے حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور مذاکرات کے اس اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے دے۔ ملک میں جاری قتل و غارت گری اور فرقہ واریت کا یہ بازار اب بند ہونا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، نواز لیگ نے الیکشن سے قبل بڑے دعوے کئے تھے اور انہی دعوؤں کی بنیاد پر آپکی پارٹی کی شکست دے کر اقتدار میں آئی۔؟
جہانگیر بدر: حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ مسلم لیگ نون کے اقتدار میں آتے ہی بدامنی، لاقانونیت، مہنگائی اور بے روز گاری میں اضافہ ہوا، لوگوں نے ان سے جو امیدیں لگا رکھی تھیں، ان میں حکومت نے انہیں بری طرح مایوس کیا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ تھا، جس کیلئے میاں شہباز شریف نے ہمارے دور میں مینار پاکستان پر کیمپ لگا دیا تھا، مگر اب ان کے اپنے دور میں حالت یہ ہے کہ جو لوڈشیڈنگ گرمیوں میں ہوتی تھی اب سردیوں میں ہو رہی ہے۔ بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ان مسائل کے اثرات عوام پر پڑ رہے ہیں، وہ چڑچڑے اور بیزار ہو رہے ہیں، اس دور میں بے روز گاری بھی بڑھی ہے، جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لوگوں کو دوہرے عذابوں سے گزرنا پڑ رہا ہے، حکمران ہیں کہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ حکومت مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی، بیشتر وزراتوں پر وزیر ہی نہیں ہیں، مرکز میں نواز شریف اور پنجاب میں تمام اہم وزارتیں شہباز شریف نے سنبھال رکھی ہیں۔ نواز لیگ کی پالیسیوں سے صنعت کار اور سرمایہ کار فائدے اٹھا رہے ہیں جبکہ غریب طبقہ پس رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اب تو بعض اہم اداروں کی نجکاری کا منصوبہ بھی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس نجکاری سے صنعتکاروں
کو فائدہ دینا مقصود ہے۔؟

جہانگیر بدر: جی بالکل آپ نے درست کہا، ایسا ہی ہے، اہم قومی اداروں کی ناکامی کا علاج یہ نہیں کہ انہیں بیچ دیا جائے، اس کا حل تو یہ تھا کہ انہیں اچھے مینجرز کے سپرد کیا جائے جو بہتر انداز میں انہیں چلائیں، لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے، حادثے ہوں تو گاڑیوں کی سپیڈ روکنے کی بجائے سپیڈ بریکر بنا دیا جاتا ہے، یہ نجکاری تو ایسے ہے کہ جسم کے کسی عضو میں کوئی مسئلہ آیا ہے تو اس کے علاج کی بجائے اسے کاٹا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی اس نجکاری کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ اس لئے کہ اس سے بے روز گاری میں مزید اضافہ ہوگا، پھر ہم سمجھتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر کسی بھی طرح قومی اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دی جائے گی۔ ہم حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایوان میں اور اس کے باہر احتجاج کریں گے۔ نجکاری کے اس اقدام میں ہم مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ حکومت اگر لیپ ٹاپ سکیم پر 100 ارب روپے خرچ کرسکتی ہے تو پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کیلئے 28 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج کیوں نہیں دے سکتی۔ ہم ان تمام معاملات کو آئین کے تحت حل کرنا چاہتے ہیں، ہم حکومت کیلئے کسی قسم کی مشکلات کھڑی کرنے کے بھی حق میں نہیں، اس لئے ہم حکومت کو کوئی غیر قانونی اقدام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس لئے منافع بخش اداروں کی نجکاری نہ کی جائے  اور اگر یہ بہت ہی ضروری ہے تو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر اس میں اس پر بحث کی جائے اور پھر یہ کام کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔

اسلام ٹائمز: بلاول بڑی دھواں دار تقریریں کر رہے ہیں، کیا پیپلز پارٹی ایک بار پھر ابھر کر سامنے آنے کیلئے پر تول رہی ہے۔؟
جہانگیر بدر: پاکستان کی حقیقی قوت صرف پیپلز پارٹی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پی پی پی کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے۔ یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہوگئی ہے بالکل غلط اور بے بنیاد مفروضہ ہے، ہماری پارٹی چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مقبول جماعت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تربیت ان کی شہید والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی گود میں ہوئی، اسی لئے ان میں جوش و جذبہ اور ولولہ پایا جاتا ہے، وہ اپنے نانا شہید ذوالفقار
علی بھٹو کی تصویر نظر آتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر متحرک ہوگی۔ اس لئے کہ غریب عوام، مزدوروں، کسانوں، طالبعلموں میں اس کی جڑیں مضبوط ہیں۔ آج بھی عام آدمی کی امیدیں پیپلز پارٹی کیساتھ وابستہ ہیں۔ یہ غریب عوام کی پارٹی ہے۔ اس کے لئے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ اس کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے جام شہادت نوش کیا۔ جمہوریت کے استحکام کیلئے کارکنوں نے قربانیاں دیں اور آج ہماری ہی قربانیوں سے جمہوریت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف آج انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں انہیں سزا ہوگی یا وہ بچ نکلیں گے۔؟
جہانگیر بدر: آج سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹر کے خلاف اقدام اٹھانے کے سلسلہ میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ اب ڈکٹیٹر کو حساب دینا ہوگا۔ انہیں بھاگنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی ڈیل نہیں ہونے دی جائے گی، نہ آمر کو چور دروازے سے نکلنے دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی تو ہمیشہ آمریت کا شکار ہوئی ہے۔ ہمارے قائد ذوالفقار علی بھٹو آمر ضیاءالحق کی آمریت کا شکار ہوئے۔ ہماری قائد بے نظیر بھٹو پرویز مشرف کی آمریت کا نشانہ بنیں۔ ان آمروں کے ادوار میں سیاسی کارکنوں کو قلعے میں قید کاٹنا پڑی، کوڑے کھانا پڑے۔ سیاسی کارکنوں کو جیل میں ڈالنے والے آمر کو جب خود جیل نظر آئی تو دل چھوڑ گیا جبکہ سیاسی کارکنوں نے ہنستے ہوئے جیلیں کاٹی ہیں۔ ایک آمر جس نے ابھی جیل کی ہوا بھی نہیں کھائی، جیل کا نام سنتے ہی اس کی ٹانگیں کانپنا شروع ہوگئی ہیں۔ اب پرویز مشرف کا معاملہ عدالت میں ہے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ عدالت ملک، آئین اور عوام کیساتھ انصاف کرے گی اور آمر کو عبرت کا نشان بنائے گی، تاکہ آئندہ کوئی آمر آئین پامال کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی پارٹی نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کیا، موجودہ حکومت اسے التواء میں ڈالنے کیلئے حیلے بہانے تلاش کر رہی ہے، کیا کہیں گے۔؟
جہانگیر بدر: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہماری معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے ہم نے تمام بیرونی دباؤ خاطر میں
نہ لاتے ہوئے اس کا معاہدہ کیا۔ ہم سمجھتے ہیں ہمارے تمام مسائل اس منصوبے کی تکمیل سے حل ہوجائیں گے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں معیشت اہم کردار ادا کرتی ہے، توانائی بحران حل ہونے سے ہمارے ملک میں خوشحالی آئے گی اور عوام سکھی ہوجائیں گے۔ لیکن پتہ نہیں موجودہ حکمران امریکہ سے اتنا زیادہ کیوں ڈرتے ہیں یا پھر ممکن ہے امریکہ نے اپنے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو بھی یہ ٹاسک دیدیا ہو کہ آپ بھی نواز شریف پر دباؤ ڈالو، اور نواز شریف اس دو طرفہ دباؤ کا شکار ہوچکے ہوں، لیکن ایک چیز واضح ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو، اس کو ملکی مفاد ملحوظ رکھنا چاہئے، جب ہم نے یہ معاہدہ کیا، ہمیں بھی ڈرایا گیا، لیکن ہم نے بیرونی دباؤ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے اور ہماری ضرورت ہے۔ ہم نے امریکہ کو واضح کہا کہ اگر آپ ہمیں ایران سے گیس لینے سے روک رہے ہیں تو آپ ہمیں اسی ریٹ پر گیس دے دیدیں، ہم ایران سے نہیں لیتے تو امریکہ چپ ہوگیا۔

اب پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے، گھروں میں گیس نہیں آ رہی لیکن حکمران فیکٹریوں کو گیس فراہم کر رہے ہیں، جس سے وہ مائیں جن کے بچے صبح ناشتہ کے بغیر سکول جاتے ہیں، وہ حکومت کو بددعائیں دیتی ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو ایک اور اہم نقطہ ملا ہے، اس بنیاد پر بھی یہ امریکہ کو جواب دے سکتے ہیں، آپ کے علم میں ہے کہ بھارت نے پاک ایران گیس منصوبے میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔ اب بھارت اگر ایران سے گیس لے سکتا ہے تو ہمارے معاملے میں کیا امر مانع ہے، امریکہ بھارت کو تو روکتا نہیں، اسی طرح رشیئن ریاستیں بھی ایران سے گیس لے رہی ہیں، لیکن ادھر امریکہ کا زور نہیں چلتا، اس لئے کہ وہ امریکہ کو سمجھتے ہی کچھ نہیں، جبکہ ہمارے حکمران ان کے سامنے بچھے چلے جاتے ہیں، پاکستان غیور عوام کا ملک ہے اور انہیں غیرت مند حکمرانوں کی ضرورت ہے، بزدل حکمرانوں کو بہادر قوم پر حکمرانی کا حق نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم میاں نواز شریف کو مشورہ دیں گے کہ اگر وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتے ہیں تو پاک ایران گیس منصوبے پر تمام دباؤ مسترد کر دیں۔ اور اگر یہ منصوبہ ختم کر دیا گیا تو یہ نواز لیگ کی سیاسی موت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 349168
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش