0
Friday 21 Feb 2014 05:06
ہر سیاسی جماعت نے نوجوانوں کو ٹشو پیپر کیطرح استعمال کیا

موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی، حنان علی عباسی

موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی، حنان علی عباسی
حنان علی عباسی کا شمار پاکستان کے ان نوجوانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کے وقار کو بلند کیا۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو بیرونی دنیا میں پاکستان کا روشن اور ترقی پسند چہرہ متعارف کرانے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے حنان علی عباسی نیشنل یوتھ اسمبلی کے بانی صدر ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت اور ویژن کی بنیاد پر کامن ویلتھ یوتھ ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ پاکستان کی حکومت نے انہیں اعلٰی ترین سول اعزاز کے لیے بھی نامزد کیا۔ حنان علی عباسی چین، ایران، ہانگ کانگ میں پاکستانی نوجوانوں کی نمائندگی بھی کرچکے ہیں۔ ان کی تنظیم نے اپنی مدد آپ کے تحت ’’امید‘‘ پروگرام شروع کیا، جس میں ملک کے 14 اضلاع میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ غریب افراد کو اشیائے ضرورت فراہم کی گئی۔ ان کی تنظیم نیشنل یوتھ اسمبلی نے ’’چلو سبز نوجوان‘‘ شجر کاری مہم کا آغاز کیا، جس میں ملک کے دور دراز علاقوں میں جہاں پودے لگائے گئے وہاں ان کے باغباں بھی مقرر کئے۔ 27سالہ حنان علی عباسی دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’زمینی ستارے‘‘ جس میں پورے پاکستان کی نمایاں شخصیات سے ملاقاتیں اور ان کے حالات زندگی شامل ہیں، جبکہ ان کی دوسری کتاب ’’چین سے برطانیہ تک‘‘ ان کا سفر نامہ ہے۔ پاکستان جہاں کتب بینی کا رجحان حوصلہ افزاء نہیں ہے وہاں اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کے لیے حنان علی عباسی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام
ٹائمز
: آپ کی تنظیم نیشنل یوتھ اسمبلی کے اہداف اور مقاصد کیا ہیں۔؟
حنان عباسی: مجھے بچپن سے غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ سکول لائف میں ہی میں نے اپنا پہلا مضمون میرا گاؤں لکھا جو اس وقت کے مشہور اخبار میں بچوں کے ایڈیشن میں شائع ہوا۔ بس وہ ابتدا تھی اس کے بعد تعلیمی مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا اور لوگوں سے ملنا میرا شوق رہا۔ قدم قدم پر لیڈر شپ کا شدید فقدان دیکھنے کو ملتا تھا، پس میں نے نیشنل یوتھ اسمبلی کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی مقصد نوجوانوں میں لیڈر شپ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تھا۔ وفاقی ڈھانچے کی طرز پر یہ تنظیم ایک تربیت گاہ ہے جو مستقبل کے لیڈرز پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ہماری نظر میں موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی، جبکہ نوجوان جو اس ملک کا حقیقی سرمایہ ہیں، سب سے زیادہ اسی سرمایہ کو ہی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ 18 نومبر 2005ء کو نوجوان نسل کے نمائندہ ڈویژن کو مکمل وزارت کا درجہ دیا گیا تھا مگر 31 مارچ 2011ء وزارت کے اس وفاقی ڈھانچے کو تحلیل کرکے اس کے اختیارات صوبوں میں تقسیم کر دیئے گئے۔ جس سے وفاقی سطح پر نوجوان حکومتی سرپرستی سے مکمل طور پر محروم ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق کی سطح پر نوجوانوں کے لیے مربوط سیٹ اپ قائم کیا جائے۔ 
نیشنل یوتھ اسمبلی قانون ساز ادارے اور سماجی خدمت کی طرز پر ایک تنظیم ہے، اس میں امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں۔ 18 سے 35 سال تک سب کے لیے ممبر شپ کے مواقع موجود ہیں۔ ہماری تنظیم میں ممبران کو ٹھنڈے کمروں میں بٹھا کر لیڈر شپ کے موضوع پر لیکچر
نہیں دیئے جاتے بلکہ مختلف مشاہداتی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ چار سال کے مختصر عرصے میں ہماری تنظیم پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ عامر اطلس خان، یاسر بٹ، او لیولز کے امتحانات میں عالمی ریکارڈ ہولڈر ابراہیم شاہد، دنیا کے اعزازات اپنے نام کرنے والی ملالہ یوسف زئی ہماری تنظیم کی ممبر ہیں۔ نیشنل یوتھ اسمبلی مختلف تنظیموں کے ساتھ بھی منسلک ہے اور ان کے تعاون سے مختلف پروگرام مرتب کرتی ہے۔ جن میں ورلڈ یوتھ پارلیمنٹ، پنجاب اسمبلی، وزارت امور نوجوانان گلگت بلتستان، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، سرسید میموریل اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی کن پالیسیوں سے نوجوان زیادہ خائف ہیں اور اس سلسلے میں آپ کے کیا مطالبات ہیں۔؟
حنان عباسی: حکومت کی جانب سے نیشنل یوتھ روزگار سکیم کا اجراء کیا گیا ہے۔ انتہائی قابل تعریف ہے، لیکن یہ کوئی ادارہ جاتی یا مستقل بنیادوں پر نوجوانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس پروگرام کی سربراہی کے لیے اہلیت کا کیا معیار رکھا گیا ہے۔ یہ پروگرام ایک آدھ الیکشن میں حکومت کے لیے تو فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے لیکن ملک کے لیے شائد نہ ہوسکے۔ حکومت اگلے الیکشن کو مدنظر رکھنے کے بجائے اگلی نسل کو مدنظر رکھے۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرز پر نیشنل یوتھ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن دنیا کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جس نے بہت مختصر وقت میں زیادہ ثمرات سے نوازا ہے۔ حکومت قرضوں کے ذریعے اس ملک سے جہالت دور نہیں کرسکتی۔ سرمایہ کاری تعلیم پر ہونی
چاہیے اور ادارے بنانے چاہیے۔ سکولز سسٹم میں بچوں کے لیے کشش پیدا کرنی چاہیے۔ محنت کش بچوں کے لیے شام کی کلاسز کا اجراء کرنے چاہیے۔ ہماری ترقی صرف اور صرف تعلیم کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے۔ حکومت کو ملک میں تعلیم کی ایمرجنسی کا نفاذ کرنا ہوگا۔ آج اگر 45 فیصد بچے ناخواندہ ہیں اگلے دس سالوں میں یہ ان پڑھ بچے جب عملی زندگی میں آئیں گے تو ملک کو کیا دیں گے۔ میرے خیال میں 4 کھرب روپے روزگار سکیم کے بجائے تعلیم اور اداروں پر خرچ ہونے چاہیے تھے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی تنظیم دیگر سرگرمیوں میں پیش پیش نظر آتی ہے لیکن مغرب کی ثقافتی یلغار کے خلاف یا اپنی ثقافت کی نمائندگی کے حوالے سے زیادہ متحرک نہیں، حالانکہ ثقافتی حوالے سے آپ کی تنظیم اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔؟
حنان عباسی: ابھی کچھ عرصہ پہلے میں گلگت بلتستان ثقافتی فیسٹیول میں ہی شرکت کے لیے گیا ہوا تھا۔ جہاں تک ہماری تنظیم کی سرگرمی کا سوال ہے تو میں ایک مثال کے ذریعے آپ کو وضاحت کرنا چاہوں گا۔ انسانی فطرت ہے کہ بہتر سے بہتر کی جانب انسان جلدی راغب ہوتا ہے اور اسی بہتر کی طرز اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی غریب فقیر مزدور کی نقل نہیں اتارتا۔ ہر کوئی لیڈر، ایکٹر، رہنماء کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب معاشرہ ہی بے یقینی کا شکار ہو تو بیرونی چیزیں تو آسانی سے حاوی ہونگی۔ آپ دنیا بھر میں امداد مانگتے پھریں تو دنیا آپ کی نقل نہیں کرے گی بلکہ آپ کا معاشرہ ان کی نقل کرے گا جو آپ کو امداد دیں گے۔ یہاں لوگ نہ چلنے کی وجہ سے بیٹھ بیٹھ کر صحت خراب کرلیں گے، لیکن سائیکل نہیں چلائیں گے۔ جو کہ ایسی سواری ہے جس سے ماحول خراب
نہیں ہوتا، ٹریفک کے مسائل نہیں ہوتے، توانائی ضائع نہیں ہوتی، صحت اچھی رہتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک ایک بندہ الگ الگ گاڑی میں بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہم فقط منفی کاموں میں مغرب کی نقالی کررہے ہیں۔ چین میں سب سے زیادہ سائیکل ہیں۔ اولمپک گیمز سے پہلے برطانیہ نے پالیسی بنائی کہ شدید ٹریفک کو کنٹرول کیسے کیا جائے اور اپنے شہریوں کو متبادل راستے کیسے فراہم کئے جائیں تو ملک کے سربراہ برطانوی وزیراعظم نے سائیکل چلانا شروع کردی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آدھی سے زیادہ آبادی کی ترجیح سائیکل ہوچکی تھی۔ یہاں پر لیڈرز عوامی علامت بننے کو ہتک محسوس کرتے ہیں۔ ثقافت کو بچانے میں لیڈرز ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر لیڈرز کو صرف کھانا پسند ہو تو عوام بھی بسیار خوری کی جانب مائل ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں ائیر بلیو طیارے کے حادثے میں یوتھ پارلیمنٹ کے ممبران کے بچھڑنے کا دکھ پوری قوم کو ہے۔ نیشنل یوتھ اسمبلی ان کی یاد میں ہمیشہ پروگرام کرتی ہے۔ ملک بھر میں نوجوان جو دہشتگردی کا نشانہ بنے اس کے خلاف نیشنل یوتھ اسمبلی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ کیا نیشنل یوتھ اسمبلی کی پالیسی کا اطلاق ان نوجوانوں پر نہیں ہوتا۔؟
حنان عباسی: ملک بھر میں ہونیوالی دہشت گردی کے خلاف ہم نے آواز بھی اٹھائی ہے۔ میں نے ہمیشہ ٹی وی پر ٹاک شوز میں ایسے سانحات کی شدید مذمت کی ہے۔ البتہ ہماری تنظیم کوئی سیاسی اہداف کے تعاقب میں نہیں ہے اور نہ ہی توڑ پھوڑ اور مظاہروں کی جانب مائل ہے۔ پاکستان میں توڑ پھوڑ کے بجائے جوڑنے کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نیشنل یوتھ اسمبلی سے
یہ توقعات رکھیں کہ وہ بھی مخصوص سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی طرح نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے نوجوانوں کو ٹشو پیپر کی طرح صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ہم نے نوجوانوں کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی اور ہر فورم پر دہشت گردی کی مذمت بھی کی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے 18 سے 35 سال ممبر شپ کی حد مقرر کی ہے۔ اس لحاظ سے 8 سال بعد یہ ذمہ داری آپ کسی اور کو سونپ دیں گے، جبکہ جہاں آپ موجود ہوتے ہیں وہاں نیشنل یوتھ اسمبلی کا وجود نظر آتا ہے؟ آپ کے جانے کے بعد خلا پیدا نہیں ہوجائے گا۔؟ اور اس عرصے میں آپ نے بھی کسی ایسے ادارے کی بنیاد نہیں رکھی جو مستقل طور پر نوجوانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں مدد گار ثابت ہو۔؟
حنان عباسی: جہاں تک عمر اور اس تنظیم سے میری ریٹائرمنٹ کا سوال ہے تو میں نے پہلے بھی بتایا کہ یہ ایک تربیت گاہ ہے۔ یہاں سے نوجوان ایک کورس مکمل کرکے جاتے ہیں۔ کچھ نوجوانوں کی جب ممبر شپ ختم ہونے کے قریب آتی ہے تو وہ بیان دیتے ہیں کہ ہم نیشنل یوتھ اسمبلی سے مستعفی ہو رہے ہیں حالانکہ ان کی ممبر شپ ہماری جانب سے ختم ہوتی ہے، نہ کہ وہ چھوڑ کر جاتے ہیں۔ نیشنل یوتھ اسمبلی ملک کے تقریباً شہروں میں موجود ہے۔ فاٹا اور کوئٹہ میں گرچہ کم ہے لیکن وہاں بھی ہمارے ممبران ہیں۔ ہمارے پاس انتہائی محدود توقع سے بھی کم فنڈ موجود ہوتا ہے، جس میں ہم یہ تمام پروگرام سرانجام دیتے ہیں، ایسے میں ادارہ جاتی کام انتہائی مشکل ہے، لیکن انشاء اللہ نیشنل یوتھ اسمبلی ہمیشہ نوجوانوں کی لیڈر شپ سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 353896
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش