0
Monday 24 Mar 2014 19:41
پاکستان میں فرقہ واریت نہیں ہے ورنہ گلی گلی لڑائی ہوتی

پاکستانی آئین و قانون تسلیم نہ کرنیوالے طالبان کیساتھ سختی اور طاقت سے نمٹا جائے، شبیر ابوطالب

ہمیں اسلام و پاکستان دشمنوں سے مقابلہ کرنے کیلئے 99 فیصد مشترکات پر متحد ہونا پڑیگا
پاکستانی آئین و قانون تسلیم نہ کرنیوالے طالبان کیساتھ سختی اور طاقت سے نمٹا جائے، شبیر ابوطالب
کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف اہلسنت مذہبی و سیاسی رہنما محمد شبیر ابوطالب اس وقت جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ آپ میمن گجراتی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور مشہور و معروف نعت و ثناء خواں بھی ہیں۔ اس وقت آپ درس نظامی کے آخری سال میں ہیں اور مفتی بننے کے مراحل میں ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگرامات کرتے رہتے ہیں اور آجکل ایک نجی ٹی وی چینل سے بھی وابستہ ہیں۔ محمد شبیر ابوطالب اس وقت کئی مساجد کے ٹرسٹی ہیں، درجنوں انجمنوں کے سرپرست اعلٰی ہیں، آپ نے 1989ء میں جمعیت علماء پاکستان میں شمولیت اختیار کی، انجمن نوجوانان اسلام کراچی کے صدر بھی رہ چکے ہیں، 2002ء کے عام انتخابات لڑنے کے بعد آپ جمعیت علماء پاکستان کراچی کے سینئر نائب صدر مقرر کئے گئے، اسکے بعد جے یو پی کراچی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اسلام ٹائمز نے محمد شبیر ابوطالب کے ساتھ مختلف ایشوز کے حوالے سے انکے آفس میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ


اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپکی نگاہ میں کراچی بدامنی کے عوامل کیا ہیں، کون ذمہ دار ہے، نیز کراچی بدامنی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
محمد شبیر ابوطالب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ کراچی شہر ناصرف پاکستان کیلئے بلکہ پورے خطے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کی شہہ رگ حیات و معاشی حب ہے، دو ڈھائی کروڑ کی آبادی ہے، بہت بڑی تجاری منڈی کی حیثیت رکھتا ہے، سمندر کے کنارے آباد ہے، بندرگاہ ہے، صرف ساحلی پٹی اور بندرگاہ سے ہی صحیح استفادہ کر لیا جائے تو اربوں روپے روزانہ کی آمدنی کوئی بڑی بات نہیں، لہٰذا اسلام و پاکستان دشمن عالمی طاقتیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپے ہیں انکے ایجنڈے میں کراچی سرفہرست ہیں اور ہر عالمی طاقت یہی چاہتی ہے کہ کسی طرح اسکا کراچی پر کنٹرول ہو جائے، ماضی میں بھی ان عالمی طاقتوں کی کوشش رہی تھی کہ کسی طرح کراچی کو بھی ہانگ کانگ، دبئی طرز پر فری پورٹ بنا کر اس پر قابض ہوا جا سکے، یہاں کی عوام کی دینی غیرت و حمیت، دینی وابستگی کو ختم کیا جا سکے، لیکن کراچی کی عوام محب وطن ہے، اسلام پسند ہے لہٰذا عالمی قوتوں کو براہ راست دخل اندازی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنی چاہی، لسانیت اور مسالک کی بنیاد پر اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے عوام کو لڑانے کی سازشیں رچائی گئیں، ان عالمی قوتوں کو لاجسٹک سپورٹ کے حوالے سے مقامی ایجنٹ مل گئے۔
 
دوسری جانب ریاست بھی اس بدامنی کی ذمہ دار ہے، کیونکہ جن عناصر کی ملک دشمنی، کراچی دشمنی، امن دشمنی عیاں ہے انکے ساتھ مل کر حکومتیں بنائی جاتی رہیں اور اب بھی بنائی جا رہی ہیں، ان عناصر سے بلیک میل ہوا جاتا ہے۔ بدامنی کے خاتمے کیلئے حکومتوں اور فورسز کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے فورسز جب اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو حکومتیں آڑے آ جاتی ہیں، کیونکہ ان کے مفادات ان عناصر کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اپنی حکومتیں چلانی ہوتی ہیں، حکومتوں کے گر جانے کا ڈر ہوتا ہے، لاء اینڈ آرڈر کے مسائل کھڑے ہونے سے بچنا چاہتی ہیں، تو کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ لاء انفورسمنٹ ایجنسیز اور ادارے اپنا کام کرنا چاہتے ہیں مگر حکومتیں نہیں کرنے دیتیں۔ مختصراً یہ کہنا چاہوں گا کہ امن و امان پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر حکومتیں اور لاء انفورسمنٹ ایجنسیز اس بات پر عملی طور پر متفق ہو جائیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی بدامنی کے حوالے سے طالبان و دیگر مذہبی انتہاء پسندوں کا نام آتا ہے وہیں سیاسی و لسانی جماعتوں کا بھی نام لیا جاتا ہے، جبکہ بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کی ایماء پر مذہبی و غیر مذہبی عناصر مشترکہ کارروائیاں کر رہے ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
محمد شبیر ابوطالب: جب سب کا پیر ایک ہو تو مریدین چاہے الگ الگ آستانے کھول لیں، سب کا مرکز تو ایک بن گیا نا، دیکھیں جب کراچی عالمی ایجنڈے پر آ گیا تو عالمی قوتیں اس ساری صورتحال کو مانیٹر کر رہی ہیں، اب انہوں نے لسانی و نسل پرستی کیلئے زبان کی بنیاد پر بھی کلین شیو طالبان کھڑے کر دیئے، دہشتگردی کیلئے بھی طالبان کھڑے کر دیئے، مسلکی تفریق کیلئے بھی طالبان کھڑے کر دیئے، کہیں طالبان، کہیں دہشتگرد تنظیمیں، کہیں کالعدم جماعتیں، مگر اصل بات یہ ہے جتنے بھی عناصر ہیں ان سب کا مرکز ایک ہی ہے، ان سب کو ایک ہی مرکز سے فنڈنگ ہو رہی ہے، مختلف مواقعوں پر اسلحہ پکڑا جاتا ہے اور جب اس کا لیب ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کسی ایک ہی قسم کے اسلحہ سے پنجابی کا قتل ہوا، اسی سے مہاجر کا قتل ہوا، اسی سے شیعہ کا قتل ہوا، اسی سے سنی کا قتل ہوا، تو ایک ہی قسم کے اسلحے سے الگ الگ زبان بولنے والوں کا، مختلف مسالک و مکاتب سے تعلق رکھنے والوں کا قتل ہوا، لہٰذا صاف نظر آ رہا ہے کہ کلین شیو طالبان ہوں یا داڑھی والے طالبان، پگڑی والے ہوں یا ٹوپی والے، بالوں کا اسٹائل اسپائیکس ہو یا گنجے ہوں، جتنے بھی عناصر اس شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں یا دہشتگردی میں ملوث ہیں، ان سب کے تانے بانے ایک ہی جگہ سے ملتے ہیں اور وہ مرکز یا ٹرائیکا امریکا، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل ہے۔

اسلام ٹائمز: یوں تو طالبان کی دہشتگردی سے پاکستان کا ہر طبقہ متاثر ہے مگر سب سے متاثر ہونے والوں بریلوی اہلسنت مسلمان اور اہل تشیع مسلمان ہیں، مگر ان دونوں بڑے مکاتب سے تعلق رکھنے والی جماعتیں طالبان سے مذاکرات اور انکے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے حوالے سے تقسیم نظر آتی ہے، آپ کا مؤقف کیا ہے؟
محمد شبیر ابوطالب: دیکھیں طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کے حوالے سے تین مختلف سوچ پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو ہر صورت طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں، کسی صورت میں بھی طالبان کیخلاف آپریشن نہیں ہونا چاہیئے، طالبان اگر مذاکرات سے انکاری بھی ہوں تو مذاکرات پر زور دینا چاہئیے، چاہے وہ پاکستان کے آئین و قانون کو مانیں یا نہ مانیں ان سے مذاکرات ہی ہونا چاہیئیں۔ دوسری سوچ کا حامل طبقہ ہر صورت میں مذاکرات کا مخالف ہے، فورسز جائیں اور طالبان کو مارنا شروع کر دیں مگر جمعیت علماء پاکستان کی سوچ ان دونوں سے مختلف ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ جو پاکستان کو مانتا ہے، پاکستانی آئین و قانون کو تسلیم کرتا ہے، جو جنگ بندی کریں، ہتھیار پھینک دیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہاں ہم نے ماضی میں کچھ سختی کر دی، گلے کاٹ دیئے، تباہی پھیلائی، ہم سے غلطی ہو گئی، ہم اس پر معذرت خواں ہیں، پہلے کی غلطیوں کو تسلیم کریں، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم سے مذاکرات کر لیں، ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں، تو جمعیت علماء پاکستان کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم آپ کی یہ تمام باتیں نہیں مانتے، ہم تو آپ پر بم ماریں گے، تو جمعیت علماء پاکستان کہتی ہے کہ ایسے لوگوں سے آپ مذاکرات کر لیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو پاکستان کو مانتے ہیں، نہ آئین و قانون کو تسلیم کرتے ہیں، ہم جنگ بندی بھی نہیں کرینگے، ہم بم دھماکے بھی کرتے رہیں گے، ہتھیار بھی نہیں پھینکیں گے، فورسز کو بھی نہیں چھوڑیں گے، آپ مذاکرات کرتے رہیں مگر ہم یہ سب کرتے رہیں گے، تو جمعیت علماء پاکستان کا مؤقف ہے کہ ان طالبان عناصر سے سختی سے نمٹا جائے، ان سے طاقت سے نمٹا جائے۔ تو جن طالبان عناصر کا فعل بتا رہا ہے کہ ہم نہ تو پاکستانی آئین کو مانتے ہیں نہ قوانین کو، بلکہ ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک دو، تو جمعیت علماء پاکستان کہتی ہے کہ ایسے عناصر کے ساتھ طاقت کے ذریعے سے نمٹنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت پاکستان کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں بعض عرب ممالک کے شہزادوں اور آفیشلز کے پاکستان کے دورے، پھر ایک عرب ملک کی جانب سے ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کی امداد کا چرچا ہے اور یہ رائے سامنے آئی ہے کہ بعض عرب ممالک امداد کے بدلے افواج پاکستان کی شام و بحرین میں عوامی تحریکوں کو کچلنے کیلئے بطور کرائے کی فوج تعیناتی کی خواہاں ہیں، آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
محمد شبیر ابوطالب: درحقیقت ہمارے ہاں کسی بھی معاملے کے حوالے سے بہت جلدی رائے قائم کر لی جاتی ہے، مثال کے طور پر کرکٹ کا میچ ہے، ہار جائیں گے تو کہیں گے سٹہ کھیل لیا اور جیت جائیں گے تو کہیں گے ”ہمیں تم سے پیار ہے“۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جو امداد آئی ہے یہ خالصتاً اقتصادی حوالے سے ہو یا اس کا تعلق پاکستانی معیشت کی بہتری کے عنوان سے ہو، اور اس کا اس سے تعلق ہی نہ ہو کہ جو ہم سوچ رہے ہیں کہ فوج، تعیناتی، طالبان، مذاکرات، میرا یہ خیال ہے کہ اس کو آنے والے وقت پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ دیکھیں اس کے کیا اثرات آتے ہیں۔ ویسے تو سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کا دوست رہا ہے مگر ہاں یہ بات عجب نظر آتی ہے اور ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر جیسی بہت بڑی امداد اور فائدہ سمجھ نہیں آتا، مگر جمعیت علماء پاکستان اس کی بھی حامی نہیں ہے کہ ابھی اس بات کو پندرہ دن بھی نہیں ہوئے اور ہم کہیں کہ اس کی ہمیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ فرض کریں کہ یہ معاملہ فوجیوں کی تعیناتی کا ہے تو پاک فوج پیسوں کی خاطر اتنا بڑا کام کر جائے اس حوالے سے ہمیں حسنِ ظن رکھنا چاہئیے، ایسا نہیں ہے کہ ہر کسی کی بات yes sir کہہ کر مان لی جائے، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس حوالے سے فوری طور پر کسی تشویش میں مبتلا ہونا چاہیئے، انشاءاللہ پاکستان کا وقار نیچے نہیں آئے گا۔ دیکھیں اقوام متحدہ کے تحت، اسکی درخواست پر دنیا کے ممالک اپنی فوجیں دوسرے ملکوں میں بھیجتی ہیں، اگر مستقبل میں کوئی ایسی چیز سامنے آتی ہے، اقوام متحدہ کے ذریعے تعیناتی کی بات ہوتی ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئیے جیسا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اقوام متحدہ کی چھتری تلے پاکستانی فوج بھی تعینات ہیں، ہاں مگر ہم اپنے تحفظات پیش کر سکتے ہیں لیکن اگر براہ راست مداخلت کی بات کی جائے تو پھر آپ کی بات مانی جا سکتی ہے، پھر اس میں تشویش کی بات ہوگی کہ براہ راست ایک ملک کہے کہ آپ میرے پڑوسی ملک میں آ جائیں، مجھے پڑوسی سے خطرہ ہے۔ لہٰذا ابھی ہمیں تھوڑا انتظار کرنا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی سازشوں کے مقابلے اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
محمد شبیر ابوطالب: دیکھیں ہر اختلاف کو شر کہنا، لڑائی کہنا، ہر اختلاف کو تقسیم کہنا، صحیح نہیں ہے، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ جب دشمن مشترکہ ہو تو پھر ایک دائرہ بنایا جائے گا کہ اس دائرے سے باہر دشمن ہے، اس دائرے کے اندر وہ ہیں جو اس مشترکہ دشمن سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، اب چاہے دیواروں پہ نعرے لکھے ہوں کہ یہ بدعت کرتا، یہ شرک کرتا ہے، یہ مشرک ہے، یہ کافر ہے، لکھتے رہیں، لیکن جب دائرہ بنے گا، تو اس دائرے کے اندر وہ سب ہونگے جو اس مشترکہ دشمن کے سامنے کھڑے ہونگے، یہ ایک سوچ تھی مولانا نورانی کی جس نے پاکستان میں فرقہ واریت کی کمر توڑ دی، اس کے مقابلے میں جو چھوٹے موٹے گروہ تھے جنہیں اپنی دکانیں چمکانی تھیں، وہ کوششیں کرتے رہے لیکن کوئی بڑا انتشار امت میں نہیں ہو سکا۔ ملی یکجہتی کونسل اور جمعیت علماء پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر زبیر جو کہ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے سیاسی جانشین ہیں انہوں نے بھی اسی فکر کو اپنایا، ہم اگر اتحاد بین الاہلسنت کی بات کرتے ہیں تو ہم اتحاد بین المسلمین کی بھی بات کرتے ہیں۔ ہم اپنے مسلک کے لوگوں کا اتحاد اس لئے چاہتے ہیں کہ سارے متحد ہو کر اتحاد بین المسلمین کا حصہ بنیں گے، اسی طرح سارے اہل تشیع کے گروہ مل کر شامل ہوں گے، سارے دیوبندی حضرات مل کر شامل ہونگے، سارے غیر مقلدین یا اہلحدیث مل کر شامل ہونگے تو پھر اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کا فائدہ زیادہ ہوگا ورنہ کسی نہ کسی سمت سے اختلاف کی آواز آتی رہے گی، تنگ کرتی رہے اور ہمارا دشمن خوش ہوتا رہے گا، لہٰذا ہمیں اسلام و پاکستان دشمنوں سے مقابلہ کرنے کیلئے 99 فیصد مشترکات پر متحد ہونا پڑے گا۔
 
ملی یکجہتی کونسل اپنے اعتبار سے ایک انوکھا اتحاد ہے، دنیا میں ایسی بہت کم مثالیں آپ کو دیکھنے کو ملیں گی، اب لاکھ تقریریں ہوں، لاکھ کتابیں لکھی جائیں، لاکھ مناظرے ہوتے رہیں، لیکن تمام مسالک سے تعلق رکھنے والی 30 سے زائد مذہبی جماعتیں ایک میز پر جمع ہوتی ہیں، اکھٹے بیٹھتی ہیں، مشترکہ فیصلہ کرتی ہیں، ایک کھڑکی کھلی ہے جہاں سے ہوا آ رہی ہے، ایک راستہ کھلا ہوا ہے بات چیت کا، ایک پلیٹ فارم ہے جہاں گفتگو ہو سکتی ہے، تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ قائدین اور عوام میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بس شرپسندی ہے، جو کہ کہیں بھی ہو سکتی ہے، ان چیزوں کی اہمیت نہیں ہے اور نہ اہمیت دینی چاہئیے، اہمیت قائدین اور عوام کا متحد رہنا ہے جو کہ الحمدللہ ملی یکجہتی کونسل اور اس جیسے دیگر اداروں کے وجہ سے یہ اتحاد برقرار ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت نہیں ہے، ورنہ گلی گلی، لڑائیاں ہو رہی ہوتیں، ایسا نہیں ہے اور پاکستانی عوام متحد ہے۔ ہاں اگر کہیں شرپسندی کی جاتی ہے تو علماء بیٹھ کر تدبر و حکمت کے ساتھ اُس مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں، اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کسی بھی مسلک سے نہیں ہوتا، وہ فرقہ واریت کے ہتھیار سے دیگر جگہوں پر بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں، ایسے شرپسند عناصر پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 365005
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش