0
Saturday 18 Dec 2010 13:46

پاکستان کی مجبور اور غلام حکومت سے ہم کیا مطالبہ کر سکتے ہیں،علامہ عابد حسینی

پاکستان کی مجبور اور غلام حکومت سے ہم کیا مطالبہ کر سکتے ہیں،علامہ عابد حسینی
اسلام ٹائمز نے پارا چنار کے معروف عالم دین،شیعہ رہنما اور سابق سینٹر علامہ عابد حسینی سے کرم ایجنسی کے حالات کے بارے میں تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 
اسلام ٹائمز:کرم ایجنسی کی تقسیم بندی اور اس میں شیعہ آبادی کا تناسب کیا ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ آخری مردم شماری کے مطابق،کرم ایجنسی کی کل آبادی تقریبا پانچ لاکھ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق شیعوں کا تناسب نصف سے کم قرار دیا گیا ہے۔تاہم جو کچھ ہے اس کی تفصِیل میں نہیں جاتے۔باقی کرم ایجنسی تین تحصیلوں میں منقسم ہے۔
 1-اپر کرم [UK]کی آبادی نسبتا زیادہ ہے اور اس کی 95 فیصد آبادی شیعہ ہے۔
 2-لوئر کرم [LK]کی آبادی اس کے نصف سے بھی کم ہے اور اس میں شیعوں کا تناسب کوئی 50 تا 55 فیصد ہے
 3-ایف آر جسے اب سنٹرل کرم [CK] کا نام دیا جا چکا ہے۔اس میں شیعوں کا تناسب بہت کم ہے۔
اسلام ٹائمز:کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ اختلاف کی ابتدا وہاں کیسے ہوئی؟
علامہ عابد حسینی:تقریبا دو ڈھائی سو سال پہلے طوری قوم نے جنگلوں کی حفاظت اور پہاڑوں میں اپنے مال مویشیوں کی حفاظت کے لئے بعض افغان قبائل جیسے منگل،مقبل،خروٹی اور جاجی قبائل کو ارد گرد کے اپنے ملکیتی پہاڑی علاقوں میں بحیثیت مزارعین بسایا چونکہ ان پہاڑوں میں ساری آبادی اہلسنت کی ہے،اسکے علاوہ 1917ء میں اہل سنت میں سے جاجی قبیلہ،جسے روایتا طوری کا بھائی کہا جاتا ہے،کے مطالبے پر طوری قوم نے پاراچنار میں اپنی بنی بنائی مسجد انکے حوالے کی اور اپنے لئے دوسری مسجد بنائی۔یہ تمام حقائق کاغذات مال اور دفتری کاروائیوں کے لحاظ سے، جسکو ہم مثل یا فائلز کہتے ہیں،میں موجود ہے۔وہ سارے جنگل اور پہاڑی علاقے اہل تشیع کی ملکیت ہیں،شیعہ قبائل،طوری قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن اس وقت ابتدائی طور پر ایسے مسائل تھے۔ کہ انہیں بطور ہمسایہ لانا پڑا۔ہمسایہ ہماری اصطلاح میں مزارعے کو کہا جاتا ہے۔جنکی اس علاقے میں کوئی جائداد یا زمین نہیں ہوتی۔اور وہ کسی کے بنائے ہوئے گھر میں بستا ہو اور اس کی زمین کاشت کرتا ہو۔اور جب اصل مالک انکو نکالنا چاہے تو وہ نکل جائے گا۔وہ طوری قبائل کیلئے ایندھن کے لئے لکڑی بھی جمع کرتے تھے۔اور طوری جب پہاڑوں پر جاتے تو یہ اپنے بکرے اور دنبے ذبح کر کے ان کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔اب تک پاراچنار میں ہماری فائلز اور دفتری ریکارڈ میں سب کچھ موجود ہے، حتی کہ وہ گدھا جو وہ لیکر پہاڑوں میں لکڑیاں جمع کرنے جاتے تھے یا وہ پالان جس میں لکڑیاں جمع کی جاتی تھیں اسکی حفاظت کی ذمہ داری بھی ان ہمسایوں کی تھی۔اور یہ ابھی تک حکومتی ریکارڈ [مثل] میں موجود ہے۔ابتدا میں تو سلسلہ یہ تھا لیکن بعد میں حکومت اور مقامی انتظامیہ فریق بن گئی اور اس وقت مقامی انتظامیہ کی طاقت بھی زیادہ تھی،ایسی صورتحال بن گئی کہ طوری قبائل کے لوگ اپنے جنگلوں میں بھی نہیں جا سکتے تھے۔اس کے علاوہ 1960ء میں صدہ میں پہلی مرتبہ عاشورا کے جلوس پر حملہ کیا گیا۔اس سے فرقہ واریت کا عنصر پیدا ہو گیا۔اسکے بعد 1971ء میں شیعوں کی عطا کردہ مسجد جو جاجی قبیلے کی ملکیت سے چلی گئی تھی اور منگلوں کے ہاتھ لگی تھی۔اس پر منگلوں نے مورچہ نما مینار تعمیر کرنا شروع کیا،شیعہ سادہ مینار کی اجازت دیتے تھے لیکن اپنی ملکیت پر مورچہ کی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے تھے۔چنانچہ اس پر ایک ہولناک جنگ چھڑ گئی۔اور افغانستان کے قبائل نے حملہ کیا،لیکن اس تمام صورتحال میں مقامی انتظامیہ کا ہاتھ تھا،سنیوں کی طرفداری،انکو تقویت پہنچانا اور ہمارے لوگوں کو کمزور کرنے کی وجہ سے ہی یہ تمام حالات پیدا ہو گئے۔اس کے علاوہ حکومت ہمارے اندر ہی کے بعض قوم فروش لوگوں کو استعمال کرکے کام نکلواتی۔جیسا کہ موجودہ امن جرگے میں بھی حکومت اپنے ہی منظور نظر افراد کو شامل کرتی رہی ہے،جو اسکے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔لہذا ایسا مسئلہ ہو گیا کہ طوری قبائل کی وہ حیثیت نہ رہی کہ وہ اپنے جنگلوں میں لکڑیاں کاٹنے کیلئے جا سکیں۔
اسلام ٹائمز:یہ افراد جو آپ نے فرمایا کہ "ہمسایہ" کے طور پر آئے،یہ مقامی لوگ تھے،مہاجر تھے یا باہر کے تھے؟
علامہ عابد حسینی:یہ سب افغانی تھے۔اس وقت مہاجر کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔بلکہ یہ پاکستان کی آزادی اور انگریز کے آنے سے بھی قبل کی بات،جیسے کہ بتایا گیا۔کہ یہ سب لوگ افغانستان سے آ کر یہاں آباد ہو گئے تھے۔
اسلام ٹائمز:کرم ایجنسی میں اختلافات کی بنیاد کیسے پڑی۔
علامہ عابد حسینی:عرض یہ ہے کہ ہمسایہ جب رفتہ رفتہ طاقتور ہو گئے تو انہوں نے اپنے فرائض سے انکار حتٰی کہ شیعوں کو حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا،جنگلوں میں طوری املاک کی حفاظت کی بجائے خود ہی انکے مال مویشیوں،گدھوں کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔پھر ہمارے علاقوں پر قبضہ جمانے کی وجہ سے بھی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے اور جنگ کا مسئلہ سامنے آتا تھا،فائر کا سلسلہ سامنے آتا تھا،لوگ قتل ہوتے تھے،لیکن بہت جلد ہی مسئلہ ختم ہو جاتا تھا۔اتنا طولانی نہیں ہوا کرتا تھا،ہوتی تھیں ایسی جنگیں،مثلا وہ ہمارے املاک پر قبضہ کرنے کیلئے اور پھر قبضہ کرنے کے بعد ہمیں بے دخل کرنے کیلئے جنگ چھیڑ دیتے تھے،یہ سلسلہ شروع سے ہی تھا۔لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ نے ضیاء کے توسط سے کچھ ایسے حالات پیدا کئے کہ لوگوں کے پاس  بے انتہا چھوٹا بڑا اسلحہ،حتٰی راکٹ لانچر،مشین گنیں اور میزائل فراہم کئے، ضیاءالحق کے زمانے میں افغانستان کا مسئلہ سامنے آیا،جہاد کا مسئلہ سامنے آیا،مجاہدین کی تربیت کا مسئلہ سامنے آیا،اور پچھلی تمام چھوٹی جنگوں کے برخلاف 1987ء میں افغان مہاجرین کی جنگی تنظیموں اور مقامی افراد کے تعاون سے کرم پر ایک ہولناک جنگ مسلط کی گئی۔اس وقت شیعوں کے پاس وسائل اور اسلحہ کی کمی تھی،چنانچہ اس جنگ میں شیعوں کو تقریبا ایک درجن کے قریب دیہات سے ہاتھ دھونا پڑے،یہی سے یہ مسئلہ شدید تر ہوتا گیا۔اس دوران پورا پاکستان فرقہ واریت کے لپیٹ میں آچکا تھا،بلکہ 86ء میں پنجاب میں کئی امام بارگاہ جلائے گئے تھے۔پھر کچھ ایسے افراد بھی لائے گئے جنکے پاس امریکہ کے عطا کردہ کریڈٹ کارڈز ہوتے تھے،کراچی اور دوسری جگہوں میں شیعوں کے قتل کا مسئلہ سامنے آیا،اسی طرح پاراچنار میں بھی یہ اختلافات بہت شدت اختیار کر گئے۔وہ پہلے والی صورتحال جو پاکستان اور پاراچنار میں تھی کہ بعض اہلسنت ایسے بھی تھے جو ہماری مجالس میں شرکت کرتے تھے،باقی نہ رہی اور صورتحال بہت خراب ہو گئی۔
بعد میں جب افغانستان سے مہاجرین آ گئے اور سپاہ صحابہ کا مسئلہ سامنے آیا تو اگرچہ پہلے شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا،لیکن ان لوگوں نے اپنے پروپیگنڈے کی وجہ سے اتنی نفرتیں پیدا کیں کہ شیعہ کے نام تک کو برداشت نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے وہاں پر بھی اختلافات شدت اختیار کر گئے۔
اسلام ٹائمز: یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تعصب کی لہر جو پورے پاکستان میں ایجاد کی گئی تھی ،پاراچنار میں بھی اسی کا اثر ہوا ہے اور مقامی طور پر علیحدہ سے کوئی اختلاف نہیں تھا؟
علامہ عابد حسینی:جی،بالکل ایسا ہی ہے،وہاں مقامی طور پر مذھب کے نام پر کوئی مسئلہ نہیں تھا،اگر تھا بھی تو زمینوں پر تھا،پہاڑوں پر یا جنگل پر جھگڑا تھا۔لیکن یہ جو شدت کا مسئلہ ہے یہ جہاد کے نام سے بننے والی تنظیموں سے پورے پاکستان میں ایک ساتھ ہی شروع ہوا اور جو مذہبی فسادات پورے پاکستان میں شروع ہوئے یہ بھی اسی لہر کا حصہ ہے۔اور حتٰی پاراچنار جو کہ شیعوں کا گڑھ ہے اس میں بھی شیعہ کافر اور دوسرے دلآزار نعرے سننے میں آئے۔لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مقامی انتظامیہ بھی ان لوگوں کو زمینوں پر قبضہ جمانے میں سپورٹ کرتی تھی۔
مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ "سدہ" جو اس وقت ایک سنی علاقہ ہے،میں ہمارے شیعوں کی املاک،جائیداد اور دکانیں اہلسنت کی نسبت بہت زیادہ ہیں،لیکن 1983ء میں انہیں وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔اور وہ شیعہ افراد 27 سال سے مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ہم سینیٹ میں بھی بار بار فریاد کرتے رہے۔آپ کو پتہ ہے پاراچنار اور سدے کے درمیان تقریباً 35 کلومیٹر کا فاصلہ ہے،وہاں مہاجر بھی ہیں،یہ کوئی علاقہ غیر نہیں ہے بلکہ بندوبستی علاقہ ہے۔ یہاں سے شیعہ بے دخل ہو گئے ہیں، کئی سال ہو چکے ہیں لیکن کوئی ان کیلئے آواز بلند نہیں کرتا۔ دوسری طرف "تنگی" کے علاقے سے جب منگل بے دخل ہوتے ہیں،آپ نے سنا ہو گا "خیواس" کا جو مسئلہ تھا،جب تنگی سے اہلسنت بے دخل ہوتے ہیں حالانکہ علاقہ بھی شلوزان والوں[شیعوں] کا ہے،تو حکومت فوراً حرکت میں آتی ہے اور تنگی میں لوگوں کو دوبارہ آباد کروانے کی بھرپور کوشش کرتی ہےاور پھر اس علاقے کو "نو گو ایریا" قرار دیتی ہے،اور پھر حکومت کے ساتھ مربوط ہمارے اپنے ہی بعض ذلیل لوگ فوراً دستخط بھی کرتے ہیں۔جس کے خلاف ہمیں مجبورا قیام کرنا پڑا۔
بہرحال یہ مسائل ہیں جو انتظامیہ کی جانبداری کی وجہ سے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاراچنار میں جو شیعوں کا مضبوط گڑھ ہے شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے۔یہ سب شیعوں کو خراب کرنے کا سلسلہ ہے۔ہم کئی بار اپنی تقریروں اور اخباری انٹرویوز میں بھی یہ بات باربار کہہ چکے ہیں کہ طوری قبائل احساس کرتے ہیں کہ انہیں ذلیل کیا جا رہا ہے اور ایک دن انکے دل کی بھڑاس نکل کر باہر آ جائے گی اور پھر کوئی انہیں کنٹرول نہیں کر سکے گا۔
اسلام ٹائمز:جو افراد وہاں پر آپ سے دست بگریبان ہیں وہ کس مسلک سے ہیں یا کسی تقسیم بندی کے بغیر سنی کے نام سے محاذ آرائی میں مصروف ہیں؟
علامہ عابد حسینی:وہاں پر بریلوی یا دیوبندی کا مسئلہ نہیں تھا جس طرح سے پاکستان کے دوسرے حصوں میں ہے۔بلکہ پہلے تو سنی کا مسئلہ بھی نہ تھا،کوئی ایک سنی قبیلہ کسی شیعہ املاک پر قبضہ جمانے کی غرض سے اقدام کرتا تو وہ خود کو مضبوط کرنے اور دوسرے سنیوں کی ھمدردیاں حاصل کرنے کی غرض سے اس کو شیعہ سنی مسئلہ قرار دیتے۔چنانچہ یہاں سنی بمقابلہ شیعہ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔تاہم جب سے فرقہ واریت کی لہر پاکستان میں چل پڑی ہے اور سپاہ صحابہ کا سلسلہ شروع ہوا تو سب شیعوں کے دشمن ہو گئے۔
اسلام ٹائمز:پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں میں کس کا وہاں پر زیادہ اثر ہے،مولانا فضل الرحمان کا،مولانا سمیع الحق کا یا جماعت اسلامی کا؟
علامہ عابد حسینی:ان سب جماعتوں کا وہاں ہر اثر ہے،لیکن میرے خیال میں سب کا سلسلہ ایک ہی ہے۔انکا دشمن چونکہ ایک یعنی شیعہ تھا چنانچہ یہاں شیعوں کے مقابلے متحد ہو کر کام کرتے ہیں۔ جب کہ آپ پر واضح ہو کہ 1987 سے قبل یہاں تمام سنی بریلوی تھے اور یارسول اللہ کہتے تھے۔ 87ء کے بعد دیوبندیوں کی تبلیغ بڑھ گئی اور یہ سب دیوبندی ہو گئے۔میرے خیال میں اس وقت کرم ایجنسی کی سنی آبادی سو فیصد دیوبندی مسلک سے وابستہ ہے۔سیاسی اعتبار سے یہ لوگ پہلے مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی سے وابستہ تھے لیکن اب ان کی اکثریت سپاہ صحابہ سے وابستہ ہیں۔جبکہ آج کل طالبان کی شکل میں پاکستان میں جو منحوس سیلاب آیا ہے اس میں یہ لوگ سر فہرست ہیں۔
اسلام ٹائمز:پاراچنار کے فسادات میں مقامی افراد ملوث ہیں یا غیرمقامی افراد کا عمل دخل زیادہ ہے؟
علامہ عابد حسینی:پاراچنار کے فسادات میں مقامی اور غیرمقامی لوگوں کا ایک جیسا کردار رہا ہے، کچھ اسباب ایسے ہوتے ہیں جنکی کڑیاں آپس میں مل جاتی ہیں جس طرح سپاہ صحابہ کی وجہ سے جو تعصب کی لہر چل پڑی،طالبان کا مسئلہ چل پڑا،ساری دنیا میں اب انکا ایک نیٹ ورک ہے،یہ آپس میں ایک کڑی کی طرح ملے ہوئے ہیں۔پاراچنار میں انہوں نے ابتدا میں شیعہ کافر کے نعرے لگانے شروع کئے اور بعد میں[6 اپریل 2007ء کو] امام حسین علیہ السلام کی شان میں بھی گستاخی کی اور یزیدیت زندہ باد کے نعرے بھی لگائے،کوئی سنی یزیدیت زندہ باد نہیں کہتا۔اسی طرح نعوذ باللہ حسینیت مردہ باد کے نعرے لگائے جو کوئی سنی بھی برداشت نہیں کرتا۔لہذا پھر نفرتوں اور لڑائیوں کا سلسلہ چل پڑا۔اسکے باوجود شیعہ خاموش تھے۔کیونکہ شیعوں پر حکومت کی طرف سے دباو ہوتا تھا۔
بعض اوقات جب ہم قدس ریلی کیلئے نکلتے تھے تو وہ لوگ اسکی بھی مخالفت کرتے تھے حتٰی کہ محرم الحرام کے جلوس کی بھی مخالفت کرتے تھے اپنے ہی بازار میں ہمیں اتنا تنگ کیا کہ جینا مشکل کر دیا۔اور کئی بار راستے میں طالبان کی مسجد سے گرنیڈ بھی پھینکے گئے،جسکے بعد فسادات کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔وہ چاہتے یہی تھے کہ فسادات ہوں۔
اسلام ٹائمز:کیا یہ ایک سازش تھی یا یہ وہی پرانا سلسلہ تھا؟
علامہ حسینی:میرے خیال میں یہ سب کچھ کرم ایجنسی کو خالی کروانے کی ایک حکومتی سازش تھی،شاید اسے امریکی اپنا اڈہ بنانا چاہتے ہوں،یہ مسائل بہت پیچیدہ ہیں،اب تک طالبان کی حقیقت بھی کھل کر سامنے نہیں آ سکی،کبھی انکی حمایت کی جاتی ہے اور کبھی انکے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے۔یہ بھی واضح نہیں کہ طالبان کی کتنی اقسام ہیں،ممکن ہے بعض طالبان پاکستان کیلئے بھی دردسر ہوں اور بعض عناصر طالبان کے نام سے کاروائیاں کرتے ہوں۔ہم نے اکثر جنگ سے بچنے کی کوشش کی ہے۔اور بعض اوقات سنی بھی جنگ کے مخالفت کرتے تھے،لیکن پھر بھی جنگ چھڑ جاتی تھی۔پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ جنگ کیسے چھڑ گئی۔ہم نے ایسے بھی منصوبوں کے متعلق بھی سنا ہے کہ بعض اوقات جب گرنیڈ وغیرہ پھینکنے جیسے واقعات پیش آئے تو طالبان چاہتے تھے کہ شیعوں کی تمام دکانوں اور گھروں کو آگ لگا دیں،آپ یہ بھی جان لیں کہ پاراچنار میں جو مقامی سنی لوگ ہیں وہ نہایت کمزور اور تعداد میں کم تھے۔اور وہاں سب جانتے ہیں کہ جب تک باہر کے لوگ نہ آئیں جنگ کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا،باہر سے آنے والے افراد کی 100 یا 200 کی تعداد جنگ چھڑنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ستمبر2007ء کو طالبان کافی تعداد میں پاراچنار کی وہابی مسجد میں گھس گئے۔ ہمارے لوگوں نےحکومت سے مطالبہ کیا کہ طالبان کو نکالو لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ہمیں کوئی علم نہ تھا بعد میں پتہ چلا کہ وہ 16 ستمبر کی رات کو اچانک نہتے پاراچناریوں پر حملہ کرنے والے تھے لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ 16 ستمبر کے دن انہوں نے پاراچنار کی شیعہ اکثریتی شہر میں طاقت کا مظاہرہ کیا۔اور پورے پاراچنار میں مسلح گھومے پھرے۔اس پر شیعہ بپھر گئے اور حکومت سے انکے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔حکومت کی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے ایک مکان سے دستی بم پھینکا،جس سے کچھ شیعہ زخمی ہو گئے اور ایک گاڑی کو نقصان پہنچا۔اور پھر ایک دوسرے گھر میں داخل ہو گئے۔لوگوں نے گھر کا محاصرہ کیا تو اسی شیعوں کی عطا  کردہ مورچہ نما مسجد سے فائرنگ شروع کی اور انکے منصوبے کے برخلاف جنگ رات کی بجائے دن کو شروع ہو گئی۔اور ہمارے لوگوں نے مقاومت دکھائی اگرچہ انہیں حکومت کا تعاون حاصل تھا۔تاہم جنگ ایک ماہ تک جاری رہی،پاراچنار میں طالبان کے خلاف آپریشن کیا گیا جو کامیاب ہو گیا۔اور پاراچنار کو طالبان سے مکمل طور پر خالی کرایا گیا۔اسی طرح لوئر کرم میں طالبان نے ہمارے کچھ افراد حتٰی کے سکول کے چھوٹے بچوں کو اغوا کیا اور وہاں ہماری کمیونٹی میں ایک خوف کا ماحول پیدا کیا۔ گاڑیوں کو اغوا کیا گیا ایک ٹریکٹر پر فائرنگ کر کے اس پر سوار افراد کو شہید کر دیا گیا اور انکا ٹریکٹر بھی جلا دیا گیا۔جس پر جنگ چھڑ گئ اس علاقے میں چونکہ شیعہ کمزور اور کم تھے۔چنانچہ اپر کرم کے جوان وہاں مدد کے لئے پہنچ گئے اور اپنے مظلومین کو بچایا،اس کشمکش میں ہمارے بھی تین دیہات[جیلمئے،چاردیوال اور آڑاولی سیدانو کلے] جل گئے مگر طالبان کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا کہ اسکے بعد شمالی وزیرستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی حکومت کو ان سے لڑنے کی جرات ہو گئی،جبکہ اس لڑائی میں لوئر کرم کی سنی آبادی کی ملک کے مختلف علاقوں سوات،باڑہ،وزیرستان،باجوڑ اور دوسرے علاقوں کے طالبان کے علاوہ القاعدہ کے جنگجو چیچنیا،ازبکستان اور عرب ممالک کے افراد نے بھی مددکی،جس میں انکے بہت سارے لوگ مارے گئے۔
جن کا پتہ انکی لاشوں اور فرار و شکست کے بعد انکے رہ جانے والے مدارک اور تصاویر سے چلا جنہیں ہمارے جوانوں نے مختلف ڈاکومنٹری فلموں کی صورت میں شایع بھی کیا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام علاقوں کے راستے میں اضلاع پڑتے ہیں جن میں حکومت کا کنٹرول ہے اور وہاں بھاری اسلحہ تو کیا کلاشنکوف حتٰی پستول پر بھی پابندی ہے تو وہاں سے دوسری جگہوں جیسے باجوڑ،ڈیرہ اسماعیل خان اور سوات وزیرستان وغیرہ سے لوگ پک اپ بھر بھر کے اسلحہ لے کر آتے ہیں،کلاشنکوف کے علاوہ بھاری اسلحہ جیسے آر پی جی اور مارٹر،بھاری مشین گنیں وغیرہ بھی لاتے ہیں،تو یہ ملیشیا اور فوجیوں کی موجودگی کے باوجود کیسے آ جاتے تھے؟اگر کرم ایجنسی میں فسادات کا منشاء حکومتی نہ تھا اور حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی تو پھر ان لوگوں کو اسلحہ لانے کی اجازت کیوں دی گئی؟جب جنگ رک گئی تو کچھ افراد میرے پاس آئے،ان میں سے کچھ سینیٹرز تھے اور کچھ ایم این اے تھے۔ایک وزیر بھی تھا جسکا نام وارث خان آفریدی تھا جو پیپلز پارٹی کے زمانے میں وزیر قبائل تھا۔وہ میرے پاس مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں ملنے آئے،اور کچھ لوگ ہمارے گاوں تشریف لائے تھے۔انہوں نے مجھے کہا کہ آپ لوگ اہلسنت پر بھی رحم کریں،میں نے کہا۔ہم کیسے رحم کریں؟انہوں نے کہا کہ اگر آپ طالبان کے ساتھ کچھ مناسب رویہ اختیار کریں اور انہیں افغانستان جانے کا راستہ دے دیں،تاکہ وہ وہاں جا کر جہاد کریں کیونکہ انہوں نے اہلسنت کو بھی بہت تنگ کیا ہے اور سب بے آرام ہیں،آپ پھر بھی اچھے ہیں،پاراچنار کا منطقہ ابھی بہت پرامن ہو گیا ہے جبکہ اہلسنت کے علاقوں میں کوئی امن نہیں ہے اور وہ خود بھی ان لوگوں سے ڈرتے ہیں،میں نے ان سے کہا کہ یہی طالبان بھاری اسلحے کے ساتھ ہمارے گاوں کے سامنے سے گزرتے تھے،ہماری مساجد میں نماز پڑھتے تھے،کوئی ان سے متعرض نہیں ہوتا تھا،لیکن اس وقت بھی وہ شیعوں کے خلاف کاروائیاں کرتے تھے،فلان شیعہ کو یہاں سے اٹھا کر لے جاتے اور پہاڑوں میں جا کر ذبح کر دیتے، یا ایک بچے کو اٹھا کر لے جاتے اور قتل کر دیتے۔جب ہمارے پاس جنگ کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا تو ہم نے ان کو نکال دیا۔تو اب آپ ہی فرمائیں کہ اسکی ضمانت کون دے گا کہ وہ ایسی کاروائیاں دوبارہ نہیں کریں گے۔
ہم نے پہلے بھی انہیں کچھ نہیں کہا ہے اور وہ پہلے بھی آتے جاتے تھے لیکن اب ہم چونکہ محسوس کر چکے ہیں اس لئے ایسا نہیں کر سکتے۔میں انہیں یہ بھی کہا کہ طوری قوم بہت شریف قوم ہے،یہ باادب ہیں،بااخلاق ہیں،مہذب ہیں،نرم دلوں کے مالک ہیں۔معمولی سی عزت سے اور اچھی بات کہنے سے یہ لوگ نہایت متاثر ہو جاتے ہیں۔لیکن اب یہ اتنے مشتعل کیوں ہو گئے ہیں؟ اسکی کیا وجہ ہے؟، انہوں نے جب دیکھا کہ ہمارے افراد کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تو وہ بھی مشتعل ہو گئے۔وگرنہ طوری قبیلے والے اتنے مشتعل اور سنگدل نہیں تھے۔لہذا میں نے انہیں کہا کہ یہ ضمانت ہمیں کون دے گا؟
جہاں تک ان فسادات میں غیرملکی ہاتھ ہونے کا تعلق ہے تو وہ ایسا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فسادات میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ہم نے بار بار پکار کر کہا کہ پاکستان میں شیعوں کو جو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اسکے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔امریکہ کی طرف سے ضیاء کے زمانے سے یہ سلسلہ افغان مجاہدین کی شکل میں شروع ہوا پھر وہاں سے یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا پورے پاکستان کو جس طرح لپیٹ میں لیا اسی طرح کرم ایجنسی بھی اسی کی زد سے بچ نہ سکا۔دھشتگردوں کو لا محدود کریڈٹ کارڈ فراہم کئے جاتے تھے جس کا ثبوت پنجاب کے ایس پی اشرف مارتھ کے قتل کے بعد پکڑے جانے والے ملزموں سے برآمد کئے جانے والی اسناد میں امریکی سفارت کاروں کے ایڈریسز،کریڈٹ کارڈز ،اطلاع رسانی کے جدید آلات وغیرہ سے ملا۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت کے ہم زلف کے قتل میں ملوث ملزمان کا تعلق چونکہ ہمارے ملک کے سرپرست اور آقا امریکہ سے تھا،جسے میں نے بار بار سینیٹ میں بھی چیخ و پکار سے ذکر کیا ہے۔اور اب تو انکو فساد کی عادت پڑ گئی ہے اب انکو اگر بیرونی امداد نہ بھی ملے تو بھی یہ انکا مشغلہ بن گیا ہے بلکہ اب تو مولوی حضرات انہیں اس پر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:پاراچنار کے فسادات میں اب تک شہداء اور زخمیوں کی تعداد کتنی ہے؟ 
علامہ حسینی:زخمی اور شہداء کی تعداد کے بارے میں یہ ہے کہ حالیہ ستمبر کے فسادات میں اور اس سے پہلے تمام فسادات میں ہماری معلومات کے مطابق زخمیوں کی کل تعداد تقریباً 7000 سے کچھ زائد ہے۔کیونکہ اب جب انکی بس نہیں چلتی تو وہ کھیتوں،چراگاہوں،جنگلوں وغیرہ میں مائن بچھاتے ہیں جنکی وجہ سے مختلف افراد زخمی ہوتے رہتے ہیں،ہماری لوکل سطح پر سیاسی تنظیم تحریک حسینی کی جانب سے ان سے تعاون کیا جاتا ہے۔بعض زخمیوں کے کئی بار آپریشن کرنے پڑتے ہیں۔زخمیوں کی صحیح دیکھ بال اور علاج کے اخراجات اٹھانے کی غرض سے پاراچنار کے اسپتال اور میڈِکل سٹور والوں سے ہماری میٹنگز ہوتی ہیں کیونکہ فسادات کی ابتدا سے اب تک تمام زخمیوں کے اخراجات ہم برداشت کر رہے ہیں۔چنانچہ ہمارے پاس شہداء اور زخمیوں کا باقاعدہ ڈیٹا موجود ہے جو اس وقت میرے پاس نہیں،تاہم اندازا اب تک تقریباً 1300 تک افراد شہید ہوئے ہیں۔ان میں سے 78 افراد اسی عید الفطر کو خیواس کی لڑائی میں شہید ہوئے۔
اسلام ٹائمز:حکومت ان فسادات کو روکتی کیوں نہیں۔؟ 
عابد حسینی:حکومت کے اپنے مفادات ہیں۔حکومت صرف ہم پر دباو ڈالتی ہے،ہم انتظامیہ پر بار بار اعتراض کر چکے ہیں،حکومت صرف علاقے کے طوری قبائل کو تنگ کرنا چاہتی ہے،تاکہ وہ تنگ آ کر جو حکومت چاہتی ہے اسی کو مان لیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کرم ایجنسی کو کیا بنانا چاہتی ہے، آیا اس کو امریکہ کیلئے خالی کروانا ہے،کوئی اڈہ بنانا ہے،کیونکہ یہ علاقہ انتہائی اسٹریٹجک نوعیت کا ہے،لہذا حکومت وہاں امن نہیں چاہتی۔یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ طالبان حکومت کے اشاروں پر چلتے ہیں،ابھی خیواس[جو ایک شیعہ گاوں ہے] کا جو مسئلہ پیدا ہوا تھا خیواس کی سقوط سے پہلے لوکل ایک کرنل نے ہمارے جرگے کے کچھ افراد سے انتہائی بے شرمی سے کہا تھا کہ خیواس سے دستبردار ہو جاو۔تو آپ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے،راستہ بھی کھل جائے گا۔اور امن بھی برقرار ہو جائے گا۔حکومت ان علاقوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتی تھی،کیونکہ پورا کرم خصوصا خیواس بڑا اسٹریٹیجک علاقہ ہے ایک اطلاع کے مطابق حکومت اسے تورہ بورہ کی طرح دھشتگردوں القاعدہ اور طالبان کے راہنماوں کے لئے ایک پناہ گاہ بنانا چاہتی تھی۔کیونکہ یہ علاقہ کوہ سفید کے وسط میں نہایت محفوظ علاقہ ہے۔لیکن ہم انکے سامنے ڈٹ گئے اور انہیں روک دیا۔لہذا حکومت طوری قبائل سے اپنے مطالبات منوانے تک وہاں فسادات کو نہیں روکنا چاہتی،لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا،اب جوان بیدار ہیں،طوری قبائل کے افراد بھی بیدار ہیں۔
اسلام ٹائمز:اس پوری صورتحال میں حکومت کا کیا کردار رہا ہے اور آپ کا اس پر کیا رد عمل ہے۔؟
عابد حسینی:حکومت شیعوں کو مختلف طریقوں سے ڈرا دھمکا رہی ہے۔حکومت لوگوں کو جیل لے جانے اور جرمانہ لگانے،کرفیو لگانے اور آپریشن کرانے سے عوام کو ڈراتی ہے۔حکومت راستہ بند کر کے،رصد روک کر،بعض اوقات ہوائی راستے کو بند کر کے،ٹیلیفون لائنوں کو خراب کر کے اور اجناس کے داخلے پر پابندی لگا کر طوری قبائل کو مجبور کرنا چاہتی ہے کہ وہاں کے اہلسنت جو چاہتے ہیں اسکو مانیں۔لیکن ہم نے اعلان کیا کہ سب ڈٹے رہیں۔
ہماری قدس ریلی میں تقریباً تیس چالیس ہزار کا مجمع ہوتا ہے،ہم نے اس میں صاف کہا کہ یہ پی اے جو کہتے ہیں کہ ہم کرفیو لگائیں گے،یہ سب شوشے ہیں،انکا باپ بھی کرفیو نہیں لگا سکتا،یہ کہتے ہیں کہ ہم آپریشن کریں گے،انکا باپ بھی آپریشن نہیں کر سکتا،اور میں نے اس اجتماع میں بھی کہا کہ اگر کوئی آپریشن کا نام لے تو اس کے منہ پر ایسا مکہ لگائیں کہ جس سے اسکے دانت ٹوٹ جائیں۔
اب الحمد للہ یہ سب کچھ الٹا ہو گیا ہے،جیسے عراق میں ہوا،عراق میں امریکہ نے صدام کی حکومت کو ختم کرنا چاہا اور خدا نے چاہا کہ عراق اب واقعا عراق یعنی امریکہ کی غلامی سے آزاد عراق بن جائے۔امریکہ عراق کو خراب کرنا چاہتا تھا اور اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا لیکن خدا نے دشمن کو دشمن کے ذریعے ذلیل کروا دیا ورنہ صدام اور بعث پارٹی کو ختم کرنا جسکی جڑیں ہر گھر میں موجود تھیں اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا۔امریکہ کی وجہ سے صدام ختم ہوا اور اب امریکہ خود بھی ذلیل ہو کر دم دبا کر عراق سے نکل رہا ہے۔پاراچنار میں بھی یہی مسئلہ ہے،ہر جگہ انکا ایک منصوبہ ہوتا تھا مگر وہ ناکام ہو جاتے تھے،حکومت فسادات کے ذریعے سے اپنی باتوں کو منوانا چاہتی ہے،لیکن طوری قبائل انکی باتوں کو ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں۔
اسلام ٹائمز: راستہ بند ہو جانے سے پارا چنار کے لوگ کن مسائل سے دوچار ہیں۔؟
عابد حسینی:راستہ کی وجہ سے جو مشکلات پیدا ہوگئیں ہیں وہ کافی زیادہ ہیں مثلا پاراچنار کو اجناس کی رسد میں روکاوٹ کی وجہ سے مہنگائی کافی بڑھ گئی ہے۔مثلا ہم نے مساجد کی تعمیر کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔راستہ بند ہونے سے پہلے ایک اینٹ کی قیمت زیادہ سے زیادہ دو روپے تھی،مگر اب جب ہم نے پاراچنار میں مکتبہ امام باقر علیہ السلام کے نام سے ایک علمی مرکز کی تعمیر شروع کر رکھی ہے تو ایک اینٹ کی قیمت بارہ سے تیرہ روپے کے درمیان ہے۔اسی طرح پشاور سے پاراچنار تک ایک ٹرک لانے کا خرچہ پہلے زیادہ سے زیادہ دس ہزار تا پندرہ ہزار روپے تھا لیکن اب وہی ٹرک پچاسی نوے ہزار تک وصول کرتے ہیں۔اسکے علاوہ راستے میں طالبان وغیرہ اپنا ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔
اسکے علاوہ طلباء کو بروقت اپنی کلاسوں تک پہنچنے میں روکاوٹ۔اور پھر واپس گھر آنے میں روکاوٹ وغیرہ۔مریضوں کو پشاور اور اسلام آباد منتقل کرنے میں مشکل۔باہر مسافرین کے گھر آنے میں مشکل، اس کے علاوہ پاراچنار میں ٹماٹر اور آلو کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہوتی ہے اور انہیں پشاور کے راستے دوسرے شہروں تک بھیجنا پڑتا ہے۔جس میں کرم ایجنسی کے لوگوں کو کروڑوں اربوں کا منافع ہوتا ہے۔ اب راستہ بند ہونے کی وجہ سے یہ تمام کاروبار خراب ہو گیا ہے۔محصور شیعہ افراد کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اکثر افراد باہر سے آنے اور جانے والے ٹرکوں پر مزدوری کرتے تھے،اسی طرح کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے۔تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود پاراچنار کے عوام فساد کی بنیاد رکھنے والے بےدخل ہمسایہ اور ماتحت افراد کی واپسی پر راضی نہیں ہیں۔کیونکہ وہ یہاں آ کر دوبارہ وہی مسائل پیدا کریں گے۔
راستہ بند ہو جانے کے بعد اب ایک مدت سے ایک نجی کمپنی نے ہوائی جہاز کی سروس شروع کی ہے جو کافی حد تک لوگوں کے مشکلات کو دور کر رہی ہے۔تاہم ہوائی جہاز کے کرائے اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی کی برداشت سے باہر ہے اس وقت پاراچنار سے پشاور تک کرایہ،جن کا ہوائی فاصلہ 100 کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے 8700 روپے ہے۔ سیریئس مریض یا زخمی جنکو آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے پشاور لے جانا پڑتا ہے۔اس مریض کے ساتھ ایک دو افراد کو بھی جانا پڑتا ہے۔راستے کی بندش سے پہلے فلائنگ کوچ کے ذریعے ایک آدمی کا یکطرفہ کرایہ 180 روپے تھا لیکن اب یہ کرایہ آٹھ ہزار سات سو تک پہنچ چکا ہے۔
اسلام ٹائمز:حکومت پاکستان سے آپ کی کیا توقعات ہیں۔؟
عابد حسینی: ایسی حکومت سے جو سرتاپا ایک نوکر حکومت ہے؟ ہم کیا عرض کریں کہ اس سے ہم کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔اسکی اگر کوئی مرضی ہوتی تو ہم اس سے کچھ چاہتے۔ایسے شخص سے انسان توقع رکھتا ہے جو کم از کم خودمختار تو ہو،اپنے اختیار سے کچھ کر سکتا ہو۔ہم نے حکام کو  کئی بار اپنی مشکلات سے آگاہ کیا ہے لیکن اس نے ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا۔
اسلام ٹائمز:پاکستان کے مومنین کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔؟
عابد حسینی:ہم ان تمام مومنین کے شکر گزار ہیں جنہوں اب تک حسب توفیق ہماری مدد کی ہے۔ تاہم ہماری گزارش ہے کہ مختلف جہتوں سے خصوصا علاج معالجے کے حوالے کوئی شخص کسی ایک مریض کے علاج کا ذمہ قبول کر کے مدد کر سکتا ہے اسکے علاوہ ہماری گزارش ہے کہ کرم ایجنسی کی آواز کو دنیا کی سطح تک پہنچائیں۔کیونکہ غزہ کے محاصرہ کو میڈیا میں اتنی شہ سرخیوں سے دکھایا جاتا ہے جبکہ پاراچنار کے مسائل سے شاید دنیا لا علم ہے۔اسکے علاوہ ہماری یہ صدا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں تک پہنچائی جائے کہ پاراچنار تک بیں الاقوامی ہوائی سروس کا اجرا کیا جائے اور اس سلسلے میں کرایوں پر سبسڈی بھی فراہم کی جائے،تاکہ کم از کم عوام کو کرائے کی سطح پر مشکل میں کمی تو ہو۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو ملک کے متمول حضرات خود سرمایہ کاری کر کے یہاں مناسب کرایوں کے ساتھ فضائی سروسوں میں اضافہ کریں،جن سے انکو بھی روزانہ لاکھوں کا فائدہ ہو گا اور ہمیں بھی۔
خبر کا کوڈ : 47195
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش