0
Wednesday 28 Oct 2015 13:59

ماہ محرم ہمیں اسلام ناب لوگوں تک پہنچانے کیلئے بہترین امکانات فراہم کرتا ہے، مولانا غلام محمد گلزار

ماہ محرم ہمیں اسلام ناب لوگوں تک پہنچانے کیلئے بہترین امکانات فراہم کرتا ہے، مولانا غلام محمد گلزار
مولانا غلام محمد گلزار کا تعلق وسطی کشمیر شالنہ پانپور سے ہے، ابتدائی تعلیم مقبوضہ کشمیر ہی میں حاصل کی، پھر اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لئے 1992ء ہندوستان، اور پھر جنوری 1998ء میں اسلامی جمہوری ایران کا رخ کیا، 15 سال تک وہاں زیر تعلیم رہ کر تقریبا درس خارج تک محصل رہے، یہاں تک کہ اکتوبر 2012ء میں سرزمین انقلاب (قم) سے بعنوان مسئول دینی و تربیتی پیام ایجوکیشنل اکیڈمی شالنہ پانپور کشمیر واپس لوٹ آئے اور آجکل وہیں مصروف خدمت ہیں، اس کے علاوہ علماء کشمیر کے واحد پلیٹ فارم ’’مجمع اسلامی کشمیر‘‘ کے روح رواں بھی ہیں، مجمع اسلامی کشمیر، کشمیری طلباء کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے جس کے ساتھ کشمیر سے لے کر قم المقدس تک کم و بیش 150 علماء کشمیر وابستہ ہیں، اس تنظیم کی بنیاد 2007ء میں ایران میں زیر تعلیم طلباء کی بےانتہا جدوجہد کے بعد پڑی، جس کے بعد سے مجمع اسلامی کشمیر نے اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کو بنحو احسن انجام دیتے ہوئے قوم کی رہنمائی اور مثالی معاشرہ کی ترویج کے لئے مختلف میدانوں میں بہت سارے مفید قدم اُٹھائے، مولانا غلام محمد گلزار جموں و کشمیر کے علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم ترین رول نبھائے ہوئے ہیں، اسلام ٹائمز نے مجمع اسلامی کے روح رواں غلام محمد گلزار سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ماہ غم و حزن میں مجالس حسینی برپا کرنے میں کیا مثبت پہلو ہمارے ہاتھ میسر آتے ہیں۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
اسلامی مہینوں میں محرم ایک ایسا مہینہ ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے اور جو ہمیں مثبت امکانات فراہم کرتا ہے، اگر دیکھا جائے کہ دوسرے مہینوں کے دوران کوئی بھی پروگرام کرنے کے لئے پہلے جگہ دیکھنی پڑتی ہے کہ کہاں کریں مگر محرم فقط ایسا مہینہ ہے جو خود دعوت دینے کے علاوہ ان کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے اور اسلام ناب لوگوں تک پہنچانے کے لئے بہترین امکانات فراہم کرتا ہے، دوسری بات محرم کے پلیٹ فارم سے ہم اسلام کی حقیقی تصویر دنیا تک پہنچا سکتے ہیں، آپ دیکھیں کہ اس مہینے میں لوگوں کا خاص کر جوانوں کا جوش و ولولہ امام حسین (ع) کے تئیں قابل فخر اور قابل دید ہوتا ہے، تیسرا معاشی اعتبار سے دیکھیں محرم وسائل سے پُر ہے اگر ہم باقی مہینوں میں کوئی مجلس کرنا چاہیں تو معاشی لحاظ سے کافی ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا مگر محرم میں مجالس برپا کرنا بہت آسان ہوتا ہے اس اعتبار سے بھی محرم کا یہ ایک اور مثبت پہلو ہے۔

اسلام ٹائمز: دشمنان اسلام اپنے مکروہ عزائم پورا کرنے کے لئے اس مقدس مہینے کو اپنی اصل روش سے منحرف کرنا چاہتے ہیں اس حوالے آپ کی تشویش کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
دشمن اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن اس محرم کے مہینے میں وہ سب سے زیادہ افراط و تفریط کا ماحول پیدا کرنے میں لگ جاتے ہیں، اگر عام مہینوں میں دیکھیں تو تمام شیعہ ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور بھائی کی طرح رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب ماہ محرم آتا ہے تو تمام جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں جس کی سازش کہیں اور سے رچی جا رہی ہوتی ہے، یہ ماہ مقدس ہمیں ولایت سے قریب تر کرتا ہے لیکن دشمن کی سازش ہوتی ہے کہ اسی مہینے میں ان کو ولایت سے دور کیا جائے، آپ دیکھیں کہ عزاداری کے نام پر کتنی جگہوں پر پرآشوب ماحول پیدا کیا جاتا ہے، ان سب چیزوں سے بچنے کے لئے مبلغین حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں تک حقیقی اسلام پہنچائے اور جو دشمنوں کی دوسری سازشیں جیسے عزاداری کو فقط ذکر تک ہی محدود رکھنا تاکہ فکر حسینی ان میں نہ آجائے یا غلط رسم و رواج اور خرافات مختلف شکلوں میں عزاداری میں داخل کرنا وغیرہ کا قلع قمع کرنا۔

اسلام ٹائمز: ان رسومات اور خرافات کو اسلام ناب محمدی (ص) سے الگ کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیئے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
اس میں پہلی ذمہ داری ہمارے مبلغین کی ہے کہ وہ اسلام حقیقی لوگوں تک پہنچائیں، دوسرا ہماری مجلسیں رونے اور رلانے تک محدود نہیں ہونی چاہیئیں، میں سمجھتا ہوں کہ عزاداری میں یا دین میں تبھی خرافات یا رسومات داخل ہوتے ہیں جب ہمارے مبلغین حضرات مجلس کو جمانے کے لئے جھوٹی اور من گھڑت روایات کا سہارا لیتے ہیں، مبلغین حضرات کو چاہیئے کہ ان چیزوں سے اجتناب کریں اور واقعہ کربلا کے حقیقی واقعات لوگوں تک پہنچائیں اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ کربلا ایک دل سوز واقعہ ہے کہ جسے سن کر آنکھوں سے خود بہ خود آنسو نکل آتے ہیں، اگر ہماری یہ روش اسی طرح سے باقی رہی تو ایسا وقت آئے گا کہ لوگ شک و شبہات ظاہر کریں گے اور واقعہ کربلا ایک سنی سنائی کہانی محسوس ہوگی، ہمیں کربلا کو اس طرح دنیا کے سامنے بیان کرنا چاہیئے جس طرح واقعہ پیش آیا ہے، دوسری چیز مبلغین حضرات لوگوں میں جرأت پیدا کریں کہ وہ جھوٹی اور من گھڑت روایات بیان کرنے والے ذاکرین و واعظین کو ٹوک سکیں۔

اسلام ٹائمز: عزاداری اور مقصد حسین (ع) کو فراموش کرنے میں کیا عوامل کارفرما ہیں۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
میری نظر میں ہم نے وسیلہ کو ہدف بنا لیا ہے یعنی عزاداری ایک وسیلہ ہے حسین (ع) کے انقلاب اور مقصد شہادت تک پہنچنے کے لئے، جب ہم اپنا ہدف ہی کھو بیٹھے ہیں تو ہم عزاداری کرنے میں ہی محدود رہیں گے، دوسری بات ہم وراثتی عزاداری کر رہے ہیں اگر ہم کسی سے بھی پوچھیں گے کہ آپ عزاداری کیوں کر رہے ہیں تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ ہمارے جد و اجداد عزاداری کر رہے تھے تو ہم بھی کر رہے ہیں، ہماری عزاداری میں وہ روح و جان نہیں ہے جو ہونی چاہیئے، تیسری بات ہم نے عزاداری کو ہی وسیلہ نجات سمجھ رکھا ہے، یعنی عزاداری کرو اور دو آنسو بہاؤ تو جنت کے حقدار ہو جاو گے، دراصل عزاداری ایک مسلسل تحریک ہے۔

اسلام ٹائمز: معاشرے میں عزاداری اور تقلید کو لاگو کرنے کے لئے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیئے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
ہمارے اکثر لوگ تقلید سے ناآشنا ہیں یعنی ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ تقلید کسے کہتے ہیں اکثر لوگ مجتہدین کے ناموں کو یاد رکھنے کو تقلید سمجھتے ہیں، پہلی فرصت میں ہمیں لوگوں کو تقلید سمجھانی چاہیئے اور پھر ان کو تقلید کی اہمیت و افادیت بتانے کی ضرورت ہے اور تقلید کا دائرہ کہاں تک ہے لوگوں کو سمجھانا چاہیئے، اس کے علاوہ ہمیں لوگوں کو بتانا چاہیئے کہ ان کے حلال اور حرام کی بنیاد تقلید ہی ہے اور تقلید کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے، مبلغین حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ عزاداری مجتہدین کے فتوات کے مطابق کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا گروہ زدہ ذہنیت اور اوقاف اسلامی کی خاندانی تقسیم جو خاص طور سے کشمیر میں نظر آرہی ہے کہ کوئی شرعی اور اخلاقی جوازیت ہے کیوں کہ کہا جارہا ہے کہ اگر یہ اوقاف منظم ہو جائے تو تشیع کے تمام تر مسائل حل ہوجائیں گے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
ہمارے قومی مسائل میں سے اوقاف کا مسئلہ بہت ہی بڑا اور بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہمارے اوقاف کے علاوہ دیگر بہت سے ذرائع آمدن ہیں جس سے ہم اپنے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں ان میں نذر و نیاز کی آمدنی، تبرکات کی آمدنی، علم شریف و ذوالجناح کی آمدنی، سہم سادات، سہم امام وغیرہ جن سے سال بھر میں ایک خطیر رقم جمع ہوتی ہے کو اگر منظم کیا جاتا اور ایک پورے نظم کے ساتھ ایک بورڈ تشکیل دیا جاتا تو یقیناً ہمارے تمام مسائل چاہے اقتصادی مسائل ہوں، معاشی مسائل ہوں، دینی، ثقافتی، فرہنگی وغیرہ حل ہوگئے ہوتے، اگر شعیان کشمیر کے اوقاف سمیت تمام ذرائع آمدن منظم ہوتے تو آج قوم کی یہ حالت نہیں ہوتی، رہا سوال گرہ زدہ ذہنیت یا گروہ بندی کا تو اس کا نہ اخلاقی جواز ہے اور نہ شرعی۔

اسلام ٹائمز: مجالس حسینی کا سلسلہ جو سال بھر یہاں جاری رہتا ہے، جو منظم نہیں ہوتی ہیں، کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیئے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
اگر یہ مجالس صحیح ڈھنگ سے منعقد کی جائیں تو قوم کے بہت سارے مسائل کا حل نکل سکتا تھا، مثال کے طور پر اگر کسی علاقے میں مجلس ہوتی تو اس کے اثر سے ہمارے سماجی، دینی و سیاسی مسائل کا حل نکل سکتا تھا، یعنی اس علاقے کے یتیموں کے لئے جارہ جوئی ہو سکتی تھی، غریب والدین کی بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل کا حل انہیں مجالسوں سے نکل سکتا تھا، میں مجالس حسینی کا مخالف نہیں ہوں لیکن ایک ہی علاقے میں مختلف گروہوں کی مجالس کبھی ایک گروہ کی تو کبھی دوسرے گروہ کی اس سے لوگوں کے اقتصادی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ تنگ آکر کنارہ کشی کر لیتے ہیں، ہم ان مجالسوں سے بہت سے قومی و اجتماعی فائدے اٹھا سکتے تھے اگر نظم و ضبط کے ساتھ ان مجالسوں کا اہتمام کیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: لاوڈ اسپیکر بلند آواز سے آن رکھے جاتے ہیں جس سے مریضوں، طالب علموں اور غیر مسلموں کو ذہنی تکلیف پہنچتی ہے، کیا لاوڈ اسپیکروں کو بلند آواز سے رکھنے میں کوئی شرعی جوازیت ہے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
دیکھئے تمام مجتہدین کا اس معاملے میں متفقہ فتویٰ ہے کہ صرف اذان کے لئے آپ لاوڈ اسپیکر کا استعمال کر سکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہم نے تقلید کا دامن چھوڑ دیا ہے اور رسومات میں کھو چکے ہیں اور انھیں کو دین سمجھ بیٹھے ہیں جس کی کوئی شرعی یا اخلاقی جواز نہیں ہے، علماء ایک جگہ جمع ہو جائیں اور آپسی تضاد کو چھوڑ کر لوگوں کو اس مسئلے کی طرف رہنمائی کرتے تو اس کیسے مسائل کب کے حل ہوگئے ہوتے۔
خبر کا کوڈ : 494225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش