0
Wednesday 19 Jan 2011 15:44

پاکستان کے موجودہ مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے،مولانا فضل الرحمان ایک وزارت جانے کے بعد حکومت سے باہر آئے،حاجی حنیف طیب

پاکستان کے موجودہ مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے،مولانا فضل الرحمان ایک وزارت جانے کے بعد حکومت سے باہر آئے،حاجی حنیف طیب
سنی اتحاد کونسل کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر حاجی حنیف طیب سے اسلام ٹائمز نے ملک کی موجودہ صورتحال، تحریک ناموس رسالت اور سنی اتحاد کونسل کے قیام سے متعلق جامع انٹرویو لیا ہے جو قارین کی خدمت میں پیش ہے۔
 
اسلام ٹائمز:حاجی حنیف طیب صاحب یہ بتائیں کہ سنی اتحاد کونسل بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ سنی مسلک کی کئی تنظیمیں کام رہی ہیں؟
حاجی حنیف طیب: سنی اتحاد کونسل کا قیام ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں امن وامان کی صورتحال نہ گفتہ بہ تھی،ہر طرف دہشتگردی کا دور دورہ تھا حتیٰ کہ داتا دربار کو بھی دہشتگردوں نے  نشانہ بنایا۔ پاکستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھائے جا رہے تھے۔ کوئی مذمت کرنے کیلئے تیار نہ تھا ایسے میں صاحب زادہ فضل کریم نے سنی اتحاد کونسل کی تشکیل دی،جس میں تمام اہلسنت جماعتیں شامل ہیں اور اس وقت صاحب زادہ فضل کریم اس کونسل کے سربراہ ہیں۔
اسلام ٹائمز:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس اتحاد کے قیام کے بعد ابتک وہ ٹارگٹس حاصل کر لیے ہیں جو اس کی تاسیس کے وقت متعین کیے گئے تھے؟
حاجی حنیف طیب: دیکھیں سنی اتحاد کی تشکیل ایسے وقت میں ہوئی جب ملک عجیب و غریب صورتحال سے گزر رہا تھا۔ اولیاءاللہ کے مزاروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا تھا حتیٰ ایک صوبے کا وزیر قانون دہشتگردوں کے ساتھ الیکشن کمپین میں مصروف دکھائی دیا، تب ہم نے علماءمشائخ کنونشن منعقد کرایا۔ ملک بھر سے علماء کرام کو اس کنونشن میں دعوت دی اور ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد سے لاہور لانگ مارچ کیا گیا۔ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت پر دباو ڈالا گیا کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کریں۔ جو الحمد للہ بہت کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ آپ دیکھیں سنی اتحاد کونسل نے 295 سی پر اسٹینڈ لیا اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ توہین رسالت قانون میں کسی قسم کی کوئی ترمیم نہ کریں۔ کراچی میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام سے رحمان ملک کی ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔ گستاخی کے الزامات کی چھان بین کیلئے تمام مکاتب فکر کے دو دو علماء پر مشتمل 10 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیر مذہبی امور اور وزیراعظم نے بھی کہا کہ وہ اس قانون میں کوئی ترمیم نہیں کریں گے۔ ہم نے رحمان ملک پر واضح کیا کہ وزیراعظم فلور آف دی ہاوس اس کا اعلان کریں اور امید ہے کہ وزیر اعظم اس کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔ اس کے علاوہ پوپ کے قرآن مجید اور اس قانون کے بارے میں بیان کے خلاف ایک موثر آواز اٹھائی گئی۔ سنی اتحاد کونسل آنے والے الیکشن میں اپنے مخصوص نشان سے الیکشن لڑے گی، جس کیلئے ابھی سے ہوم ورک شروع کر دیا گیا ہے اور امید ہے کہ انشاءاللہ ہم کامیاب ہوں گے۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ وہ لوگ جنہوں نے دہشتگردی کی کبھی کھل کر مذمت نہیں کی تھی وہ بھی تحریک ناموس رسالت کی آڑ میں کر اپنی سیاست چمکانے لگے۔ اس سے پہلے جب وہ حکومت میں تھے تو اس پر کبھی کھل کر بات نہیں کی تھی اور لگ ایسا رہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے جس ایشو پر اسٹینڈ لیا تھا اس سے وہ ٹریپ ہو گئی ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: مولانا کی سیاست کو سب سمجھتے ہیں، یہ لوگ جب حکومت کا حصہ تھے تو اس وقت انہوں نے اس ایشو پر کوئی بات نہیں کی۔ فقط ایک وزارت کے جانے پر یہ لوگ حکومت سے باہر آگئے۔ اس کے بعد تحریک ناموس رسالت میں شامل ہوئے۔ ہم کسی کو ایسے ایشو پر بات کرنے یا جلوسوں میں شامل ہونے سے نہیں روک سکتے۔ ہم پہلے دن سے ایشو کو لیکر چل رہے ہیں باقی لوگ بعد میں ملتے گئے۔
اسلام ٹائمز: سلمان تاثیر کے قتل سے متعلق آپ کیا کہیں گے، دوسرا یہ کہ ممتاز قادری کے اقدام پر سنی اتحاد کا کیا موقف ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: جب سلمان تاثیر نے 295 سی پر بات کی تو حکومت کا فرض بنتا تھا کہ وہ انہیں اس پر بیان دینے سے روکتی، اگر سندھ کے وزیر داخلہ ایم کیو ایم کیخلاف کوئی بیان دیتے ہیں تو صدر اور وزیراعظم انہیں فوراً بیان دینے سے روکتے ہیں لیکن اس حساس معاملے پر ایسا نہیں کیا گیا۔ عوام کے جذبات مجروح کیے گئے، گورنر صاحب بجائے یہ کہ وہ علماء کرام کے پاس جاتے اور اس قانون سے متعلق بات کرتے یا پھر اگر اُن کے پیروں میں مہندی لگی ہوئی تھی تو علماء کو اپنے پاس بلا لیتے، لیکن یہاں پر انہوں نے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ علماء کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ فوراً انہیں بیانات دیتے سے روکتی۔ اگر سلمان تاثیر ایسا نہ کرتے، علماء کے خلاف زبان درازی نہ کرتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، سلمان تاثیر اسلام کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے۔ ہم نے انہیں منع کیا کہ خدارا ایسی باتیں نہ کرو، لیکن وہ نہ مانے۔
اسلام ٹائمز:کیا ایک انسان کے بنائے ہوئے قانون سے متعلق کوئی رائے رکھنا یا اس قانون میں یا اس کے اطلاق میں کہیں کوئی سقم ہے اس پر بات نہیں کی جاسکتی یا ترمیم نہیں کی جاسکتی جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی معصوم اور بے گناہ شخص اسکی زد میں نہ آئے۔؟
حاجی حنیف طیب: دیکھیں ضیاءالحق کے دور کے دو حصے ہیں ایک 1977ء سے 85ء اور دوسرا 1985ء سے 1988ء تک کا ہے۔ پہلا دور مارشل کا دور تھا جبکہ دوسرا جونیجو کا دور تھا جونیجو نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ مارشل لا اور سول حکومت ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ قانون 1986ء میں بنا، اس قانون کو تمام مکاتب فکر نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ یہ قانون قومی اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی متفقہ طور پر پاس کیا گیا۔ اگر اس قانون کے اطلاق میں کہیں کوئی مسئلہ پیش آ رہا ہے تو وزارت داخلہ اس پر بریفنگ دے اور بتائے کہ اب تک کتنے کیس بنے اور کتنوں میں کہاں کہاں اس کے اطلاق میں مسئلہ پیش آیا ہے اور کتنے کیسز اس وقت زیر بحث ہیں۔ لا منسٹری تبدیلیاں تجویز کرے تو پھر کوئی بات کی جا سکتی ہے اور علماء کرام بیٹھ سکتے ہیں اور کوئی متفقہ چیز سامنے آ سکتی ہے۔
اسلام ٹائمز:حاجی صاحب آپ پاکستان کے موجودہ حالات اور مسائل کا ذمہ دار کسے قرار دیں گے؟
حاجی حنیف طیب:پاکستان کے موجودہ مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے، افغان باڈر کے اطراف سے پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے کیے جاتے ہیں، وہ علاقے جو ڈرون حملوں کی زد میں ہیں ان میں فاٹا، جنوبی و شمالی وزیرستان، مالاکنڈ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ جب اِن علاقوں میں ڈرون حملے ہوتے ہیں تو کئی معصوم شہری اس کی زد میں آتے ہیں جس کے سبب ملک میں دہشتگردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگ انتقام کی آگ میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ دہشتگردی اور ملک میں امن نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری حکمراں جماعت بھی پاکستان کے مسائل کی ذمہ دار ہے، کابینہ کا حجم نوے کے لگ بھگ ہے اور اوپر سے شاہ خرچیاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ میں خود بھی وزیر رہا ہوں، لیکن اس طرح فضول خرچی کبھی نہیں دیکھی اور نہ سنی ہے۔ حکومت کی جانب سے دو مرتبہ آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں آٹھ اقسام کی ڈیشیں پیش کیں گئیں، جو یقینا اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔ اس حکومت کا ہر منسٹر بجائے اپنے ریسٹ ہاوس میں رہنے کے فائیو اسٹار ہوٹل میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے روز پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے بھی عام شہری کی زندگی کو اجیرن بنا کے رکھ دیا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے انڈسٹری تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ لاکھوں افراد جو روزانہ اجرت پر کام کرتے تھے اس کی وجہ سے بے روزگار ہو رہے ہیں۔ یہ سب مسائل ہیں جنہیں حل کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ تاہم ان تین سالوں میں کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا گیا جیسے یہ سمجھا جائے کہ عوامی حکومت نے عوام کے مسائل کے حل کے لئے یہ کام کیا ہے۔
اسلام ٹائمز: حاجی صاحب یہ بتائیں کہ مولانا فضل الرحمان عمرے پر کیوں گئے۔ کیونکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا ایسے وقت میں عمرے پر گئے جب ملک میں سیاسی حالات ٹھیک نہ تھے اور خود مولانا صاحب اپوزیشن میں چلے گئے اور سننے میں آ رہا ہے کہ مولانا سعودی عرب سے ڈکٹیشن لینے گئے تھے۔؟
حاجی حنیف طیب: اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، مجھے نہیں پتہ کہ وہ ایسے وقت میں عمرے پر کیوں گئے۔ حاں البتہ انہیں ایسے حالات میں ملک میں رہنا چاہیے تھا۔ باقی ڈکٹیشن کی بات فی الحال مفروضہ ہے اور فقط مفروضے کی بنیاد پر کچھ کہنا مناسب نہیں۔
اسلام ٹائمز:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات خراب کرنے میں سعودی عرب کا بھی ہاتھ ملوث ہے اور اس وقت مذہبی انتہا پسندی میں اُن کا ہاتھ ہے،آپ کیا کہیں گے؟
حاجی حنیف طیب:جہاں تک ملک میں انتہاپسندی کی بات ہے تو وہ افغان وار کے بعد سے شروع ہوئی، یہاں پر بے پناہ اسلحہ جمع کیا گیا اور ڈالروں کی بارش ہوئی، لوگوں کے پاس بے پناہ رقم تھی جو اسے اس طرف خرچ رہے ہیں۔ اس حوالے سے جو بات اب تک سامنے آئی ہے وہ بھارت اور را کے ملوث ہونے کی ہے اس حوالے سے وزارت داخلہ اپنی رپورٹس میں کہہ چکی ہے۔ ملک میں بدامنی کو پھیلانے میں بھارت کا براہ راست کردار ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے ابھی تک وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی۔
اسلام ٹائمز:پاک ایران تعلقات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس میں بہتری آئی ہے یا نہیں، دوسرا یہ کہ پاکستان اس وقت توانائی کے بحران سے دوچار ہے، گیس لوڈشیڈنگ روز کا معمول بن چکی ہے، ایران کا کہنا ہے کہ انہوں اپنے باڈر تک گیس پائپ لائن بچھا دی ہے جبکہ ہماری طرف سے اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، کیا کہیں گے آپ؟
حاجی حنیف طیب: ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے پہلے د ن سے نہ صرف پاکستان کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا بلکہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں ایران سے اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا ہوں گے، اس وقت ایران سی این جی بسیں بھی بنا رہا ہے، ہمیں سی این جی بسیں لینا ہوں گی اور عوام کو اس حوالے ریلیف بھی ملے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ فوراً گیس پائپ لائن پر بغیر کسی دباو میں آئے کام شروع کرے تاکہ گیس کی قلت پر قابو پایا جاسکے۔
مصنف : نادر عباس بلوچ
خبر کا کوڈ : 51117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش