0
Thursday 25 Aug 2016 21:54
پاکستان میں دہشتگردی سمیت بہت سارے مسائل کے پیچھے سعودی امریکی فنڈنگ کام کر رہی ہے

کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی کھلے عام فعالیت سے پاک فوج اور ایجنسیوں کی ساکھ متاثر اور مجروح ہو رہی ہے، راؤ کامران محمود

نواز حکومت پنجاب میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کارروائی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے
کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی کھلے عام فعالیت سے پاک فوج اور ایجنسیوں کی ساکھ متاثر اور مجروح ہو رہی ہے، راؤ کامران محمود
راؤ کامران محمود پاکستان عوامی تحریک کی سینٹرل کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں، اس سے قبل وہ یوتھ ونگ کراچی و سندھ کے صدر رہ چکے ہیں، تحریک منہاج القرآن کے بھی عہدیدار رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے راؤ کامران محمود کے ساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کراچی کے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی پاکستان، آرمی چیف، آئی ایس آئی، ڈی جی رینجرز مخالف تقریر اور میڈیا ہاؤسز پر حملے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
راؤ کامران محمود:
میڈیا پر حملہ کسی بھی طرف سے ہو، وہ انتہائی قابل مذمت ہے، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی اس کی کھل کر مذمت کی ہے، جہاں تک پاکستان اور پاک فوج مخالف تقریر کی بات ہے، تو دیکھیں اس وقت فوج ایک ایسا واحد ادارہ ہے جس پر عوام کا اعتماد باقی ہے، اگر آپ اس کو بھی متنازعہ بنا دینگے تو یہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کیلئے انتہائی خطرناک ہے، جو اردو اسپیکنگ طبقہ ہے، جو ہندوستان سے یہاں آیا ہے، انہوں نے تو پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرکے یہاں آئے ہیں، ان کے دلوں میں تو پاکستان کی بے پناہ محبت ہے، اگر آج کوئی شخص پاکستان مخالف بات کر رہا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے، اس کا اردو اسپیکنگ طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا مائنس الطاف فارمولہ پاکستان کیساتھ ساتھ خود ایم کیو ایم کیلئے بھی لازم ہوچکا ہے۔؟
راؤ کامران محمود:
یہ ایم کیو ایم کا خالصتاً تنظیمی معاملہ ہے، لیکن ایم کیو ایم کیلئے اب یہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہوچکا ہے کہ وہ الطاف حسین کے ساتھ چلے گی یا ان کے بغیر۔ ریاستی ادارے کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کیلئے جو بھی کوششیں کر رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اگر آپ کراچی کے امن کیلئے کسی ایک مخصوص جماعت کو نشانہ بناتے ہیں اور باقی دہشتگرد و جرائم پیشہ عناصر سے چشم پوشی کرتے ہیں تو یہ بھی کوئی مناسب روش نہیں ہے، اسی وجہ سے ایک عام سیاسی کارکن اور اردو اسپیکنگ طبقے میں بہرحال یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کو یا اردو اسپیکنگ طبقے کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے، لہذا اگر اعتدال کے ساتھ چلا جائے، تمام دہشتگرد اور جرائم پیشہ سیاسی و مذہبی عناصر کے خلاف آپریشن کیا جائے تو اس سے ریاستی اداروں کی ساکھ بھی بحال ہوگی اور عوام کی تائید و حمایت بھی ان کے ساتھ ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کراچی سمیت ملک بھر میں کالعدم دہشتگرد تنظیمیں بھی تو آزادی کیساتھ فعال ہیں، اسکی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔؟
راؤ کامران محمود:
ملک بھر میں تکفیری و طالبان مائنڈ سیٹ کی حامل کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی کھلے عام فعالیت افسوسناک اور حیران کن ہے، یہ دہشتگرد عناصر جب عوامی مقامات پر، سڑکوں شاہراؤں پر فعال نظر آتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، تو میں بحیثیت سیاسی کارکن کے یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں میں کہیں نہ کہیں منافقت سے کام لیا جا رہا ہے، ایک طرف تو آپ طالبان مائنڈ سیٹ کو تباہ و برباد کرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف ہمیں طالبان مائنڈ سیٹ کی حامل کالعدم دہشتگرد تنظیمیں سڑکوں پر سرگرم نظر آتی ہیں، لہٰذا اس حوالے ریاستی اداروں کو سوچنا چاہئے، کیونکہ اس سے پاک فوج اور ملکی ایجنسیوں کی ساکھ متاثر اور مجروح ہو رہی ہے، پاکستان میں طالبان و تکفیری مائنڈ سیٹ کی حامل تمام کالعدم دہشتگرد تنظیموں پر حقیقی معنی میں پابندی عائد ہونی چاہیئے، ان کے نام بدل کر کام کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیئے، کیونکہ جب تک پاکستان میں کالعدم دہشتگرد تنظیمیں اور نام نہاد جہادی عناصر آزادی کے ساتھ فعالیت جاری رکھیں گے، اس وقت تک مسائل اور بحران رہینگے، لہٰذا ان تمام دہشتگرد عناصر کو آہنی ہاتھ سے کچلنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ آپکی جماعت پاکستان عوامی تحریک کا مؤقف ہے کہ نواز حکومت دہشتگردوں کی سرپرست ہے۔؟
راؤ کامران محمود:
پچھلے ادوار میں رانا ثناء اللہ سمیت دیگر نواز لیگی رہنما کالعدم تنظیموں کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیتے رہے ہیں، یہ سب میڈیا نے دکھایا ہے، یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، جب بھی ان کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے خلاف آپریشن کی بات ہوتی ہے تو ہر جگہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ فوج پہل کر رہی ہے، جبکہ نواز لیگ کی حکومت پس و پیش سے کام لے رہی ہوتی ہے، تاخری حربے استعمال کر رہی ہوتی ہے، سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد کارروائی بھی فوج نے ہی شروع کی، آپریشن ضرب عضب کو اپنے آغاز سے پانچ چھ مہینے پہلے ہی شروع ہو جانا چاہیئے تھا، فوج مسلسل یہ چاہ رہی تھی، لیکن نواز حکومت نے تاخیری حربے استعمال کئے، یہی نواز حکومت پنجاب میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ نواز حکومت پر امریکی و سعودی نواز ہونے الزام عائد کیا جاتا ہے، آیا اس میں کوئی صداقت بھی ہے یا یہ صرف ایک الزام ہے۔؟
راؤ کامران محمود:
پاکستان میں دہشتگردی سمیت بہت سارے جو مسائل موجود ہیں، اس کے پیچھے سعودی امریکی فنڈنگ کام کرتی نظر آتی ہے، جب نواز شریف پاکستان سے فرار ہوتا ہے تو سعودی عرب ہی اسے پناہ دیتا ہے، سعودی عرب ہی پرویز مشرف سے نواز شریف کو بچانے کیلئے سارا معاہدہ کرتا ہے، پناہ کے دوران نواز شریف دس سال سعودی عرب میں رہے، وہاں کاروبار چلایا، پھر نواز شریف کی پاکستان واپسی میں بھی میں سعودی عرب کا عمل دخل نظر آتا ہے، اس سے شک کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ نواز شریف پر سعودی بادشاہت کا ہاتھ بھی ہے، وہ انہیں سپورٹ بھی کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب پاکستان سمیت پوری دنیا میں زبردستی ایک مخصوص مکتب فکر کو پھیلانے کیلئے کام کر رہا ہے، یہ سب بھی دنیا کے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: 28 اور 30 اگست کے احتجاجی مارچ و دھرنے کے حوالے سے مختصر آگاہ کر دیں۔؟
راؤ کامران محمود:
28 اگست کا احتجاجی مارچ و دھرنا تسلسل ہے ہماری تحریک قصاص و سالمیت پاکستان کا، جس کا آغاز 6 اگست سے ہوچکا ہے، جس کے تحریک پاکستان بھر میں احتجاجی دھرنے دیئے گئے، اس کے بعد 20 اگست کو دھرنے دیئے گئے، اب 27 اور 28 کو دھرنے اور مارچ ہیں، یہ ایک تسلسل کے تحت چل رہا ہے، 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، اس کے قصاص کیلئے ہم ہر ادارے کے پاس جا رہے ہیں، اپنے حق کیلئے گھوم رہے ہیں، ملک کا پہلا واقعہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کی گئی، ان میں افراد کو نامزد کیا گیا ہے، لیکن ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جا رہی، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان کے خلاف ایک بار پھر ابھی دوبارہ سے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے ہیں، لیکن 14 پاکستانی معصوم بے گناہ شہریوں کو بیچ سڑک پر دنیا کے سامنے شہید کر دیا گیا، اس کی ایف آئی آر بھی درج ہے، لیکن نامزد افراد کیلئے نا تو کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا، ظلم تو یہ ہے کہ پاکستانی شہریوں کے قاتل تو خود وزیراعظم اور وزیراعلٰی بنے ہوئے ہیں، ہمیں ان سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے۔ ہم فوج کو دعوت نہیں دے رہے، لیکن جب ہمیں دو سال سے کسی جانب سے انصاف نہیں ملا تو جس فوج کے کہنے پر جنرل راحیل شریف کے کہنے پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کاٹی گئی، جسے پوری دنیا جانتی ہے، تو ہم اب کہیں سے بھی انصاف نہ ملنے پر جنرل راحیل شریف سے ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو فوجی عدالت میں لے جا کر مقدمہ چلایا جائے، ہمیں انصاف دلایا جائے، ابھی کراچی الطاف حسین کی تقریر کے بعد کراچی کے جو حالات ہوئے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے تو جنرل راحیل شریف نے شرپسند عناصر کو فوری پکڑنے کا حکم دیا تو جب آپ یہاں اپنا کردار ادا کر رہ ہے تو ہم جو 14 لاشیں اٹھا کر دو سال سے اپنے حق کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں، تو ان کا قصاص دلانے کیلئے بھی جنرل راحل شریف اپنا کردار ادا کریں، اسی لئے ہماری یہ تحریک قصاص و استحکام پاکستان جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 563197
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش