0
Monday 12 Dec 2016 20:52
دہشتگردی کرنیوالے اسلام دوست ہیں نہ ہی پاکستان دوست

پاکستان میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کلمہ گو کی تکفیر کرے، پروفیسر نور احمد شاہتاز

پاکستان میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کلمہ گو کی تکفیر کرے، پروفیسر نور احمد شاہتاز
پروفیسر نور احمد شاہتاز اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں، تقریباً 7 سال تک اسلامک سنٹر میں ڈائریکٹر کے خدمات انجام دے چکے ہیں، اسکے علاوہ 27 سال تک کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے ہیں، رواں سال مئی میں خود ہی ریٹائرمنٹ لے لی، اسکے علاوہ ماہنانہ رسالے فقہ اسلامی کے مدیر بھی ہیں، اس رسالے میں فقہی مسائل پر بات کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فیڈرل شریعت کورٹ میں وزیراعظم کے مشیر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پروفیسر نور احمد سے مسئلہ تکفیر اور اسلامی نظریاتی کونسل سے متعلق عموماً کئے جانے والے سوالوں سے متعلق ایک انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں کرائی جاتی۔؟
پروفیسر نور احمد:
جی اس کی دو اہم وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ کونسل کی حیثیت ایک سرکاری مفتی کی سی ہے، جیسے کسی دارالعلوم میں دارالافتاء ہوتا ہے، اس میں کوئی مفتی صاحب ہوتے ہیں، اس سے لوگ آکر مسائل پوچھتے ہیں، جیسے طلاق اور دیگر مسائل ہیں، اس پر مفتی صاحب فتویٰ دے دیتے ہیں، اب یہ لوگوں پر ہے کہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں، تو حکومت نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک سرکاری مفتی کی حیثیت کا ایک ادارہ بنایا دیا ہے، جس سے سوال تو پوچھیں گے، عمل کریں یا نہ کریں، یہ حکومت کی مرضی ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت جو بھی آتی ہے، اس کے اپنے مقاصد اور ایجنڈا ہوتا ہے، ابتک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، ان میں سے شائد ہی کوئی ایسی حکومت ہو، جس کے ایجنڈے میں پورا اسلام نافذ کرنا ہو، جب حکومت کے ایجنڈے میں ہی پورا اسلام نافذ کرنا نہیں ہے تو پھر کونسل کی سفارشات کو ڈسکس کرکے جہاں گے کہاں۔ اب اگر کوئی حکومت کونسل کی سفارشات پر اسمبلی کے فلور پر بحث کراتی ہے اور قانون بناتی ہے تو اگلا سوال ان سفارشات پر عمل درآمد کا ہے، اب جب کونسل کسی قانون میں ترمیم کا کہتی ہے اور حکومت کی نیت ہی نہ ہو کہ اس قانون میں کوئی ترمیم کی جائے، تو ظاہر ہے کہ اس کا یہی طریقہ ہے کہ ان سفارشات کو پارلیمنٹ کے فلور پر ڈسکس ہی نہ کیا جائے، تاکہ عمل درآمد کا کبھی موقع ہی نہ آئے۔

اسلام ٹائمز: کونسل نے حال ہی میں پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کے خواتین پر تشدد سے متعلق بلوں کو مسترد کیا ہے، کونسل نے بذات خود خواتین کے حقوق اور تشدد سے متعلق کیا کیا ہے۔؟ کیا فقط بل مسترد کرنا ہی وظیفہ ہے۔؟
پروفیسر نور احمد:
پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ کچھ بنیادی نظریاتی اختلافات ہیں، وہ یہ ہیں کہ سیکولر ذہن رکھنے والا شخص عورتوں کے حقوق سے متعلق جو سوچتا ہے، وہ اسلامی ذہن رکھنے والا نہیں سوچتا۔ اسلامی ذہن رکھنے والے شخص کیلئے عورت کے حقوق وہی ہیں، جو قرآن اور اسلام نے مقرر کر دیئے ہیں، جبکہ سیکولر ذہن رکھنے والے کیلئے عورتوں کے حقوق وہی ہیں جو مغرب میں دیئے جا رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ مغرب میں جو حقوق دیئے جا رہے ہیں، وہ یہاں کیوں نہیں دیئے جا رہے۔ مغرب میں ایک عورت ایک سے زائد مردوں کے ساتھ تعلقات رکھ سکتی ہے، جس میں شوہر کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے، اب اگر ہم یہ قانون بنائیں تو ہماری مشرقی اقدار ہیں یا اسلامی اقدار ہیں، اسکے مطابق یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ کئی ایسی چیزیں ہیں، جن کا اسلام نے پہلے سے انتظام کر دیا ہے، بنیادی طور پر دو مختلف چیزیں ہیں، ان مختلف نظریات کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کیونکہ اسلام کی بات کرتی ہے، اس لئے لبرل اور سیکولر لوگوں کو وہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل اسلام کے مطابق قوانین چاہے گی، جبکہ سیکولر ذہن رکھنے والا کہے گا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ اسلام ہے یا نہیں، لیکن جو مغرب میں ہو رہا ہے، وہ یہاں بھی ہونا چاہیئے۔ اب آپ کے سوال کا اگلا حصہ کہ کونسل نے بذات خود کیا ہے، اس پر یہی کہوں گا کہ اگر کونسل کو یہ کہا جاتا ہے کہ اس پر قانون سازی کرنی ہی ہے، لہذا اپنی سفارشات دیں تو کونسل یہ اقدام ضرور کرتی، یا کہا جاتا کہ آپ اس بل کا متبادل بل بنا کر دیں، تو کونسل متبادل بل بھی بنا کر دیتی، لیکن یہ مطالبہ کہیں سے سامنے نہیں آیا۔ لیکن اس کے باوجود کونسل نے متبادل بل تیار کرنا شروع کر دیا ہے، تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ کونسل خود کچھ نہیں کرتی، فقط بل مسترد ہی کرتی ہے۔ اس لئے کونسل نے مسودہ تیار کیا ہے، اس پر تین میٹنگز بھی ہوچکی ہے، ہر میٹنگ میں مسودہ کا شق وار جائزہ لیا جاتا ہے، تقریباً 70 فیصد مسودہ فائنل ہو چکا ہے۔ یہ ایسا ڈرافٹ ہے جو کونسل اپنی سفارشات کی شکل میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کو بھیجے گی۔

اسلام ٹائمز: یہ سوال عموماً اٹھایا جاتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا موضوع عورت ہی کیوں ہوتا ہے۔؟
پروفیسر نور احمد شاہتاز:
یہ ایک غلط تاثر ہے کہ کونسل کا موضوع ہی عورت ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے، کونسل کے دستور میں یہ بات لکھی ہے کہ صوبائی، قومی اسمبلی، سینیٹ، وزیراعظم، صدر مملکت یا کسی وزیر یا وزارت سے کوئی سوال آئیگا تو کونسل اس پر بحث کے بعد جواب دے گی یا اپنی سفارش پیش کرے گی۔ اگر میڈیا مسلسل بچوں کے بارے میں سوالات کرے اور وزارتیں بھی بچوں کے بارے میں ہی سوالات کرتی رہیں تو کونسل میں جو موضوع زیر بحث آئیگا ظاہر ہے کہ وہ بچوں کا ہی آئیگا۔ اسی طرح دو صوبائی اسمبلیوں میں عورت سے متعلق یہ بحث چل رہی تھی اور ایک نے باقاعدہ اپنا مسودہ بھیجا اور دوسری سے منگوا لیا گیا، تو لازمی سی بات ہے کہ کونسل میں اسی موضوع پر ہی ڈسکس ہوگا۔ اگر اسمبلیوں کی جانب سے دہشتگردی سے متعلق سوال آئیگا تو کونسل اس موضوع کو دیکھے گی، یا مردوں کے حقوق کے بارے میں پوچھے جائیگا تو کونسل اس پر جواب دے گی، ازخود کونسل کوئی موضوع انتخاب نہیں کرتی۔ جب تک کہ کوئی بڑا ایشو سامنے نہ آجائے، جیسے اب سندھ کے چیف جسٹس نے ایک آڈر پاس کیا ہے کہ شراب خانے بند کئے جائیں، کیونکہ ان شراب خانوں سے مسلم زیادہ شراب لیتے ہیں، جبکہ غیر مسلم اقلیتیں بہت ہی کم شراب خریدتی ہیں، ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب ہمارے قانون میں لکھا ہے کہ شراب خانے ہمارے ملک میں قائم ہونا جرم ہے۔ اس لئے کونسل نے اس ایشو کو اٹھایا ہے، کیونکہ آئین میں یہ بات درج ہے۔

اسلام ٹائمز: سندھ اسمبلی میں ایک بل پاس ہوا ہے کہ 17 سال تک کوئی غیر مسلم نوجوان اسلام قبول نہیں کرسکتا، کیا کونسل اس ایشو کو بھی اٹھا سکتی ہے۔؟
پروفیسر نور احمد:
ابھی تک یہ سوال کسی کی طرف سے آیا نہیں، کونسل یہ دیکھتی ہے کہ جو سوال آئے، اسے پہلی فرصت میں نمٹایا جائے، ابھی کیونکہ یہ مسئلہ نہیں آیا تو فی الحال اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کونسل کے کسی ممبر نے بھی تحریری شکل میں اس موضوع کی طرف توجہ دلائی تو کونسل اس پر بات کرے گی۔ ممکن ہے کہ آئندہ میٹنگ میں اس موضوع پر بات ہو۔ ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ کونسل کی میٹنگ ہر تین ماہ بعد ہوتی ہے، جب اس ایشو پر بات ہوگی تو یہ ایشو پرانا ہوچکا ہوگا، لوگ کہیں گے کہ کونسل نے پرانے ایشو کو اٹھا لیا ہے، قانون کے مطابق ہر تین ماہ بعد کونسل کی میٹنگ ہوگی۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی اور تکفیریت ملک کا اہم مسئلہ ہے، خود کونسل نے اس معاملے سے نمٹنے کیلئے ابتک کیا اقدامات کئے ہیں، کونسل کہہ سکتی ہے کہ بھائی یہ مسلمہ مکاتب فکر ہیں، جن کی تکفیر نہیں ہوسکتی۔؟
پروفیسر نور احمد:
میں نے خود کونسل کے سابقہ اجلاسوں کی رپورٹس پڑھی ہیں، جو چھپ چکی ہیں، اس میں یہ مسئلہ زیر بحث آچکا ہے۔ میں نے خود وہ رپورٹس پڑھی ہیں، جن میں کونسل نے اپنی سفارش مرتب کی ہے کہ جو بھی کلمہ گو ہے اور خود کو کلمہ گو کہتا ہے کہ اس کو مسلمان سمجھا جائے، تکفیر کرنا انتہائی درجہ کا اقدام ہے، اجتماعی طور پر کسی پر تکفیر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا، کیس ٹو کیس ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی نے کفریہ کلمات کہے ہوں اور آپ اس کو بتا سکتے ہیں، کفریہ کلمات ہیں، لہذا ایسا نہ کہو، لیکن کسی گروہ کو، مکتب کو، کسی مذہبی گروہ کو جو کہ کلمہ گو ہے، اس پر تکفیر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے حوالے سے کونسل نے کیا سفارشات مرتب کی ہیں، کوئی چیز شئیر کرنا چاہیئں گے۔؟
پروفیسر نور احمد:
دہشتگردی کے حوالے سے گذشتہ میٹنگز میں کسی نے سوال بھیجا تھا، کونسل نے دہشتگردی کی مذمت کی تھی، کہا تھا کہ دہشتگردی کرنے والے ملک کے دشمن ہیں، چاہے وہ مذہبی تعلق رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ دہشتگردی کی پوری کونسل نے بھرپور مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ دہشتگردی کرنے والے اسلام دوست ہیں نہ ہی پاکستان دوست ہیں۔

اسلام ٹائمز: چیئرمین کونسل کا کل آخری سیشن ہے، اگلا چیئرمین کون آرہا ہے۔؟
پروفیسر نور احمد:
ابھی تو شیرانی صاحب کے دس پندرہ روز باقی ہیں، آخری سیشن تو ہے لیکن آخری دن نہیں، جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو یہ حکومت کا کام ہے کہ اس نے پہلے چیئرمین کا تقرر کر دینا ہے یا آخری دن کو کرنا ہے، یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ مختلف افواہیں اخبارات میں چل رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں ارکان کا تعین سیاسی رشوت کے طور پر ہوتا ہے، جو بھی حکومت آتی ہے، وہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کو نوازتی ہے۔؟
پروفیسر نور احمد:
جی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں بھی یہی کہتا ہوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سیکولر حکومت آتی ہیں تو ٹرنڈ بدل جاتا ہے، وہ سیکولر ذہن رکھنے والے ارکان کو مقرر کرتی ہے، چاہے وہ عالم ہو یا نہ ہو، اب اگر کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کو لگا دیا جاتا ہے تو وہ بھی اسکالر ہی کہلاتا ہے۔ فزکس، کیمسٹری پڑھانے والا بھی اسکالر ہی کہلاتا ہے۔ آپ اسکالر کے نام پر اسلامی نظریاتی کونسل میں ایک پروفیسر کو بیٹھا دیں، بھلے وہ کونسل کے نظریئے سے ہی مطابقت نہ رکھتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کونسل کی اساس کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ کونسل کے ممبرز کے تعین کے وقت حکومت پریشرائز ہوتی ہے، مذہبی جماعتیں پریشرائز کرتی ہیں، وہ اپنے لوگ بھیجتی ہیں، حکومت پھر ایسے لوگوں کا تعین کر دیتی ہے جو کہ اہل ہی نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: کیا کونسل اپنے ممبرز کے تعین کا کوئی معیار نہیں بنا سکتی۔؟
پروفیسر نور احمد:
کونسل کیوںکہ ایسا ادارہ نہیں ہے کہ اپنا ممبر خود مقرر کرے، کیونکہ کونسل کے ارکان کے ممبرز کا تعین حکومت کی طرف سے ہونا ہوتا ہے، اس لئے وہی کرتی ہے۔ فرض کیجیے کہ فلاں فلاں ممبرز ہیں، وہ ٹھیک نہیں ہیں اور کونسل کوئی اعتراض اٹھاتی ہے تو اس حوالے سے کونسل کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ وہ یہ اعتراض اٹھائے۔ ہاں اگر کوئی ممبر اسلام کے منافی اقدام کرے، جو اسلام اور کونسل کی اساس سے مطابقت نہ رکھتا ہو، اس پر پوری کونسل اپنی سفارش بھیج سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 591133
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش