1
0
Saturday 17 Dec 2016 23:56
امام خمینیؒ کے اعلان کردہ ہفتہ وحدت کے پروگرامات کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے

امریکا شام میں ناکامی کے بعد انتہا پسند و دہشتگرد عناصر کو کہیں اور منتقل کرکے نیا فتنہ برپا کرنا چاہتا ہے، مولانا قاضی احمد نورانی

پاکستان کے اپنے حالات اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کسی عالمی جنگ میں فریق بننے کا متحمل ہو
امریکا شام میں ناکامی کے بعد انتہا پسند و دہشتگرد عناصر کو کہیں اور منتقل کرکے نیا فتنہ برپا کرنا چاہتا ہے، مولانا قاضی احمد نورانی
معروف اہلسنت عالم دین مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور اسوقت جے یو پی کراچی کے صدر ہونے کیساتھ ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ اسکے ساتھ آپ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان اور اسکی بعض ذیلی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں اور رابطے کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی پاکستان میں مسئلہ فلسطین کیلئے آواز بلند کرنے والے ادارے فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان (PLF Pakistan) کے مرکزی ادارے "سرپرست کونسل" کے مرکزی رکن بھی ہیں۔ آپ ہمیشہ اتحاد امت و وحدت اسلامی اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں، ان حوالوں سے پاکستان بھر اور ایران، شام، لبنان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کے ساتھ ہفتہ وحدت، مسلم بلاک کی ایرانی تجویز، قضیہ شام سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: 12 تا 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت بفرمان حضرت امام خمینیؒ منایا جاتا ہے، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ماہ ربیع الاول نبی کریم سرکار دو عالم آقائے دو جہان حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی آمد باسعادت کا مہینہ ہے، آپ سے امت کا ایک انتہائی گہرا اور والہانہ لگاؤ ہے، دنیا بھر کے مسلمان ماہ ربیع الاول میں حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی آمد کا جشن انتہائی شان و شوکت کے ساتھ مناتے ہیں، امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت کے نام سے 12 تا 17 ربیع الاول ایک ہفتہ جشن عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے منانے کا اپنی حیات میں اعلان کیا، کیونکہ دنیا کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد 12 ربیع الاول جشن ولادت کے خاص دن کے قائل ہیں اور ایک طبقہ 17 ربیع الاول کی روایت کرتا ہے، لہٰذا امام خمینیؒ نے دونوں طبقات کو شامل کرنے کیلئے کہ جشن عید میلاد النبیؐ اس شایان شان طریقے سے منایا جائے کہ دو مختلف تاریخوں کو جوڑ کر ایک پورا ہفتہ کر لیا جائے، تاکہ یہ ذہنی اختلاف باقی نہ رہے اور اس جشن عید میلاد النبیؐ میں سب طبقات شامل ہو جائیں، جو دو مختلف تاریخوں کے قائل ہیں، امام خمینی کی جانب سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا یہ ایک انتہائی دانشمندانہ و عاقلانہ اعلان تھا، امام خمینیؒ کی اعلان کردہ اس روایت کو دنیا بھر میں اہل محبت نے جاری رکھا ہوا ہے، اسی ہفتہ وحدت کی مناسبت سے ہر سال ایران میں عالمی میلاد کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

اس سال بھی تہران میں عظیم الشان عالمی میلاد کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دنیا بھر سے بڑی تعداد میں علمائے کرام، مشائخ عظام، دانشور حضرات سمیت مختلف طبقہ ہائے زندگی کے افراد وہاں جمع ہوئے، اس موقع پر آیت اللہ خامنہ ای کا اہم خطاب اور دنیا بھر سے اہم دانشوروں کا ایک چھت کے نیچے جمع ہونا اسلامی اخوت و محبت کا عظیم الشان مظاہرہ ہوتا ہے، اپنے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے زور دیا کہ ملت اسلامیہ کو اپنے تمام تر مسائل کے حل کیلئے اتحاد و وحدت قائم کرکے یکجا ہونا چاہیئے اور اپنے وسائل کو بروئے کار لانا چاہئے، یہی پیغام دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے میلاد کا پیغام ہے، حضرت محمد مصطفٰی پیغمبر انقلاب بن کر تشریف لائے، 23 سال کے مختصر عرصے میں آپ نے جو انقلاب برپا کیا، تاریخ عالم اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی، آپ کے ماننے والے اپنے معاملات زندگی میں اتنے نہ الجھ جائیں کہ کوئی اور کام نہ کر سکیں، بلکہ فعال ہو کر اپنی عملیت کا مظاہرہ کریں، نبی کریم کے لائے ہوئے دین اور انکے پیغام کی حفاظت کیلئے مستعد ہوں، یہی پیغام میلاد ہے اور یہی امام خمینیؒ کے ہفتہ وحدت کا پیغام ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں حضرت امام خمینیؒ کے اعلان کردہ ہفتہ وحدت کو شایان شان طریقے سے منانے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
پاکستان اہلسنت کی اکثریتی آبادی والا ملک ہے، یہاں 12 ربیع الاول جشن عید میلاد النبیؐ کی سرکاری تعطیل ہوتی ہے، اس لئے کثرت سے جو پروگرامات ہوتے ہیں وہ یکم تا بارہ ربیع الاول ہوتے ہیں، اس کے بعد بھی پورا مہینہ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ 12 تا 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کی مناسبت سے بھی پروگرامات منعقد ہوتے رہتے ہیں، لیکن ہفتہ وحدت کے پروگرامات کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے، ان پروگرامات کو جشن عید میلاد النبیؐ کے عنوان سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے، تمام مکاتب فکر کی شخصیات کو مدعو کرتے ہوئے ملک بھر میں کانفرنسز منعقد کرکے امت مسلمہ بالخصوص پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، کے حل کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے دانشوروں کی آراء کے حصول کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اس ہفتہ وحدت کے مقاصد حاصل کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم اسلامک جہاد کے سیکرٹری جنرل رمضان عبداللہ کی سربراہی میں آنیوالے وفد سے ملاقات میں کہا ہے کہ جدوجہد اور اتحاد جاری رہنے کی صورت میں اگلے 25 سال میں اسرائیل کا خاتمہ ہو جائیگا، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
اسرائیل ناقابل تسخیر طاقت نہیں ہے، کوئی بعید نہیں کہ 25 سال تو بہت لمبا عرصہ ہے، اگر امت مسلمہ تھوڑی توجہ و ہوشمندی کا ثبوت دے تو ان شاء اللہ اسرائیل بہت جلد نابود ہو جائے گا۔ اسلامی مقاومتی تحریک ان شاء اللہ اسرائیل کے خلاف جاری رہے گی۔ امت مسلمہ آنکھیں کھلی رکھے، ہوشمندی و عقلمندی کا ثبوت دے، فتنے سے بچاو، اتحاد و وحدت کے عملی مظاہرے کو فروغ دے، اسلامی دنیا ہر صورت مسئلہ فلسطین پر اپنی تمام تر توجہ مبذول رکھے۔

اسلام ٹائمز: ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی کیجانب سے سکیورٹی کانفرنس میں دہشتگردی کیخلاف مسلم بلاک بنانیکی تجویز کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
ایران کی جانب سے انتہائی مثبت تجویز سامنے آئی ہے، دہشتگردی سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے مسلم بلاک بننا چاہیئے، اس کا باقاعدہ عملی مظاہرہ ہونا چاہیئے، او آئی سی کی طرح برائے نام صرف ایک ادارہ نہ ہو، لیکن باقاعدہ طور پر اس کے اجلاس ہوں، امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد میں متفقہ فیصلے ہوں، جن پر عمل درآمد ہو، تمام مسلم ممالک اس بلاک میں شامل ہوں، تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ مسلم ممالک اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف تو مسلم امہ دہشتگردی کا شکار ہے تو دوسری جانب اسی پر ہی دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
مسلمانوں پر دہشتگردی کا لیبل لگانے والا صیہونی میڈیا ہے، جو خود دہشتگرد ہے، مقبوضہ کشمیر و مقبوضہ فلسطین میں قتل مسلمانوں کا، عراق، افغانستان، شام، بحرین، یمن، لیبیا، روہنگیا میں قتل و ظلم و ستم مسلمانوں کا، کون سا ایسا مسلم خطہ ہے جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں ہو رہا ہے، لہٰذا مسلمان تو خود مظلوم ہیں، خود دہشتگردی کا شکار ہیں، نہ کہ دہشتگرد، مسلم میڈیا کمزور ہے، وہ دوسروں کی سازشوں کا شکار ہو جاتا ہے، مسلم دانشور و زعماء سامنے آئیں اور اس پروپیگنڈے کا تدارک کریں، اس منفی تاثر کو زائل کرکے اسلام کا حقیقی رنگ سامنے لایا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کے بحران کو لے کر امت مسلمہ کے درمیان تفرقہ ایجاد کیا جا رہا ہے، اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
شام کو عالمی طاقتوں نے اپنی پنجہ آزمائی کا مرکز بنا کر تباہ کر دیا، غلط فیصلہ کرنے والوں اور عالمی طاقتوں کا ایجنٹ بننے والوں پر شامی مسلمانوں کا خون ہے، اب بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیئے، اس کے ساتھ ساتھ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ انتہائی سخت نگرانی کی جائے کہ وہ انتہا پسند و دہشتگرد عناصر جو شام میں قتل و غارتگری کے ذمہ دار ہے، وہ کہیں ایشیا میں منتقل نہ ہو جائیں، جنوبی ایشیا میں نہ پہنچ جائے، کیونکہ امریکا شام میں اپنے عزائم میں ناکام ہونے کے بعد یہی سازش کریگا کہ ان انتہا پسند و دہشتگرد عناصر کو کہیں اور منتقل کرکے ایک نیا فتنہ برپا کرے، اس حوالے سے مسلم امہ کو انتہائی محتاط رہنا چاہیئے، بالخصوص افغانستان میں امریکا کی جانب سے ان انتہا پسند و دہشتگرد عناصر میں سے کچھ کو منتقل کئے جانے کی اطلاعات انتہائی خطرناک ہیں، ایسا نہ ہو کہ ہم دوبارہ پھر کسی ان دیکھی جنگ کا حصہ بن جائیں اور اپنی قوم کو ایک بار پھر تباہ کر بیٹھیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو اس ممکنہ خطرے سے بچانے کیلئے حکمران و مذہبی طبقے کو کن اقدامات کی ضرورت ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
پاکستان کے اپنے حالات اس قابل نہیں ہیں کہ ہم کسی عالمی جنگ میں فریق بننے کے متحمل ہوں، علماء و دانشور سمیت ہم سب کو بردباری و ہوشمندی سے کام لینا چاہیئے، کسی بھی موقع پر کسی بھی ملک کے ایجنٹ کا کردار ادا نہ کریں۔ ہمیں پاکستان عزیز ہے اور ہونا چاہیئے، پاکستان کے علماء یہ شعور رکھتے ہیں کہ وہ ہرگز ہرگز کسی بھی پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونگے اور کسی بھی انتہا پسندی کو فروغ پانے کا موقع نہیں دینگے، امن و اخوت، اتحاد و وحدت کی فضا کو قائم و دائم رکھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 592510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
کیا کراچی میں اور کوئی نہیں۔
ہماری پیشکش