0
Thursday 27 Apr 2017 23:51
حکومت نے راحیل شریف کے معاملہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں ہی نہیں لیا

یمن جنگ کا حصہ بننا ہرگز پاکستان کے مفاد میں نہیں، سینیٹر ستارہ آیاز

فورسز اہلکاروں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والے ہرگز معافی کے حقدار نہیں
یمن جنگ کا حصہ بننا ہرگز پاکستان کے مفاد میں نہیں، سینیٹر ستارہ آیاز
محترمہ ستارہ آیاز کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے، وہ رکن سینیٹ کی حیثیت سے ایوان بالا میں عوامی نیشنل پارٹی کی نمائندگی کرتی ہیں، اس سے قبل وہ عوامی نیشنل پارٹی کی خیبر پختونخوا میں حکومت کے دوران صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر کی ذمہ داریاں بھی ادا کرچکی ہیں، وہ ایک ملنسار طبعیت کی حامل خاتون سیاست دان ہیں اور ہر فورم پر انسانی حقوق بالخصوص حقوق نسواں کیلئے آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے محترمہ ستارہ آیاز کیساتھ مختلف ملکی اور بین الاقوامی امور پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو میڈیا پر پیش کیا گیا، جس میں انہوں نے تحریک طالبان کے کئی پول کھول دیئے، اب طالبان کی معافی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں، آپ اس حوالے سے کیا موقف رکھتی ہیں۔؟
ستارہ آیاز:
پاکستان میں دہشتگردوں نے بے گناہوں کا خون بہایا، خودکش حملے کئے، لوگوں کے گلے کاٹے، فورسز کے اہلکاروں کے سروں کیساتھ فٹ بال کھیلی، پاکستان کی سلامتی پر حملے کئے۔ اس کے باوجود خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت کے دور میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی گئی، تاہم یہ تمام کوششیں ناکام رہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ لوگ معافی کے مستحق نہیں، جو لوگ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کیلئے دروازے کھلے ہونے چاہئیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ قوم کے قاتلوں کو معاف کر دیں۔ قوم ان دہشتگردوں کا انجام دیکھنا چاہتی ہے۔ ان دہشتگردوں نے قوم کی ماوں کی گودیں خالی کی ہیں۔

اسلام ٹائمز: عوامی نیشنل پارٹی بھی دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوئی اور آپکی جماعت کے لگ بھگ 500 سے زائد رہنماء و کارکنان شہید ہوئے، کیا آپ سمجھتی ہیں کہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے جاری آپریشن درست سمت میں چل رہا ہے۔؟
ستارہ آیاز:
پاکستان دہشتگردی کا شدید شکار رہا ہے، اس پر قابو پانے کیلئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت تھی، لیکن اس طریقہ سے تو دہشتگردی ختم نہیں کی جاسکی، جسکی قوم توقع کر رہی تھی، تاہم پاک فوج نے بہ قربانیاں دیکر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو کافی حد تک بہتر کر لیا ہے۔ اے این پی دہشتگردی سے متاثرہ سب سے بڑی جماعت ہے، ہماری مرکزی، صوبائی اور ضلعی قیادت سمیت صوبائی وزراء اور کارکنان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ہم روز اول سے دہشتگردوں کیخلاف میدان میں ہیں اور ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کا کلی طور پر خاتمہ ہو۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کو کیسا دیکھتی ہیںِ اور اگر بہتری آئی ہے تو اسکا کریڈٹ کس کو دیں گی۔؟
ستارہ آیاز:
ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن اس میں صوبائی حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ یہ لوگ تو دہشتگردوں کی ترجمانی کرتے آئے ہیںِ۔ جو لوگ دہشتگردوں کی ترجمانی کریں، وہ کیسے ان کیخلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔؟ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا حکومت کا کام تھا، اگر یہاں نیشنل ایکشن پلان پر درست عمل ہوتا تو امن و امان کی صورتحال میں مزید بہتری آسکتی تھی۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کے عدالتی فیصلہ پر آپکی قیادت کیا موقف رکھتی ہے۔؟
ستارہ آیاز:
جناب اسفندیار ولی خان صاحب نے کہا ہے کہ ہم عدالتی فیصلہ کو قبول کرتے ہہیں اور وزیراعظم کے استعفے کے حوالے سے اے این پی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ ہم کسی ایک فرد یا جماعت کیساتھ نہیں بلکہ ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں اور وزیراعظم کے استعفے کی حمایت کسی صورت نہیں کرینگے۔ اگر نواز شریف اپنی مرضی سے وزارت عظمٰی چھوڑ دیں تو وہ ایک الگ بات ہے۔ ہم نے جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کیا، اسی طرح جے آئی ٹی کے بعد آنے والے عدالتی فیصلے کو بھی تسلیم کرینگے۔ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے پانامہ کا کیس خود سپریم کورٹ لیکر گئے اور دنیا کے آگے بارہا تسلیم کیا کہ جو بھی عدالتی فیصلہ ہوگا، وہ اُسے تسلیم کریں گے۔ اب پہلے وہ یہ بتائیں کہ اُنہوں نے عدالتی فیصلہ تسلیم بھی کیا ہے یا نہیں۔؟ عدالت کی جانب سے نواز شریف کو کلین چٹ نہیں دی گئی، تاہم اختلافی نوٹ ہر جگہ ہوتے ہیں، فیصلہ وہی ہوتا ہے جو اکثریت کا ہو۔

اسلام ٹائمز: خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال نامی طالب علم کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات معمول بن چکے ہیںِ، انکا تدارک کیسے ممکن ہے اور وجوہات کیا ہیں۔؟
ستارہ آیاز:
ہمارا معاشرہ غلط طرف چل پڑا ہے، مذہب کا نام لے کر معصوم لوگوں کو مارنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ لوگوں میں برداشت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات جنم لے رہے ہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایسا کون لوگ کر رہے ہیں، کون لوگ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ مشعال کے قتل کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مذہب سے وابستگی کا مطلب جنونیت ہرگز نہیں ہے، ہمارا مذہب تو امن، محب اور رواداری کا مذہب ہے۔ ہمارا مذہب تو کسی جانور کو بھی بلاوجہ قتل کرنے سے روکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے علمائے کرام کا کردار کلیدی ہے، علماء کو معاشرہ سے شدت پسندانہ رجحات کو ختم کرنے کیلئے مثبت رول ادا کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: سننے میں آیا ہے کہ پاکستان عملی طور پر یمن جنگ کا حصہ بن گیا ہے، آپ ایوان بالا کی رکن ہیں، اس حوالے سے تو پارلیمنٹ نے واضح موقف دیا تھا کہ پاکستان اس معاملہ میں غیر جانبدار رہیگا۔؟
ستارہ آیاز:
جی بالکل۔ پالیسی یہ طے ہوئی تھی کہ پاکستان اس حوالے سے غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنا مثبت رول ادا کرے گا، اگر اس بات میں حقیقت ہے تو یہ بہت تشویشناک بات ہے۔ یمن جنگ کا حصہ بننا ہرگز پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ہم ماضی میں اس مناسبت سے تجربات دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے اپنے ڈھیر سارے مسائل ہیںِ، ہمیں سوچ سمجھ کر چلنا ہوگا، ہمیں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے، جس کی وجہ سے پاکستان کیلئے مسائل بنیں اور عالمی سطحی پر اس کا امیج خراب ہو۔ عوامی نیشنل پارٹی نے شروع دن سے اس حوالے سے بڑا واضح موقف اپنایا تھا۔

اسلام ٹائمز: جنرل (ر) راحیل شریف نے سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھال لی ہے، اے این پی اس حوالے سے کیا موقف رکھتی ہے۔؟
ستارہ آیاز:
اس حوالے سے تو حکومت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں ہی نہیں لیا، حکومت نے اپنے طور پر اتنا بڑا فیصلہ کر لیا ہے، جب تمام بڑے فیصلے حکومتی ایوانوں میں ہونے ہیں تو ہم ایوانوں میں کس لئے بیٹھے ہیں۔؟ میں سمجھتی ہوں کہ یہ فیصلہ کسی طور پر دانشمندانہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے خطہ اور عالمی حالات کا جائزہ لیکر فیصلے کرنے چاہئیں، کسی ایک ملک کو بلاوجہ ناراض کرکے دوسرے ملک کیساتھ تعلقات مضبوط کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 631484
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش