0
Friday 21 Jul 2017 22:42
شہید حسن ترابی فاؤنڈیشن کی فعالیت کا محور اتحاد بین المسلمین ہوگا

شہداء کو تنظیموں میں محدود کرنا اور پھر انہیں زندہ رکھنے کیلئے ذمہ داری بھی ادا نہ کرنا ملی تنظیموں کی نااہلی ہے، فرزند علامہ حسن ترابی شہید

پاکستان میں اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المومنین، استحکام تشیع شہید علامہ حسن ترابی کا خواب تھا
شہداء کو تنظیموں میں محدود کرنا اور پھر انہیں زندہ رکھنے کیلئے ذمہ داری بھی ادا نہ کرنا ملی تنظیموں کی نااہلی ہے، فرزند علامہ حسن ترابی شہید
محمد عارف عباس ترابی اسلامی تحریک پاکستان صوبہ سندھ کے سابق صدر شہید علامہ حسن ترابی کے فرزند ہیں۔ انہوں نے شہید علامہ حسن ترابی کی شہادت کے بعد جامعہ اہل بیت اسلام آباد میں دینی تعلیم کا آغاز کیا، لمعہ تک تعلیم حاصل کی، اڑھائی سال بعد وہ علامہ سید جواد نقوی کے مدرسہ جامعہ عروة الوثقٰی لاہور منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے تین سال تک انسان شناسی و معاشرہ سازی کے موضوع پر تعلیم حاصل کی، بعد ازاں وہ کراچی واپس آگئے، وہ علوم منطق و فلسفہ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے قم المقدسہ ایران جانیکا ارادہ رکھتے ہیں، آج کل وہ شہید حسن ترابی فاؤنڈیشن کے قیام کے حوالے سے فعال ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے محمد عارف عباس ترابی کیساتھ شہید علامہ حسن ترابی کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید علامہ حسن ترابی کی اتحاد بین المسلمین کیلئے فعالیت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
شہید علامہ حسن ترابی نے مملکت خداداد پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے فروغ اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے عملی طور پر جدوجہد کی، وہ تعلیمات قرآن اور سیرت حضرت محمدؐ و آل محمدؐ کے مطابق عالم اسلام خصوصاً وطن عزیز پاکستان میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے، یہی ان کی زندگی کا اہم مشن تھا، انہوں نے پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی امریکی و اسرائیلی سازش کو ناکام بنا کر اتحاد بین المسلمین کے پیغام کو عام کیا۔ شہید کہتے تھے کہ ہم اپنے پیاروں کے سو سو جنازے تو اٹھا سکتے ہیں، مگر فرقہ واریت کی سازشوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دینگے، لہٰذا انہوں نے ملک میں تمام مکاتب فکر کے درمیان اتحاد اور وحدت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، اتحاد بین المسلمین کے دشمن عناصر جب اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت برادران کو دہشتگردی کا نشانہ بناتے تو شہید علامہ حسن ترابی لازمی طور پر ان کے جنازوں میں شرکت کرتے، ان سے اظہار یکجہتی کرتے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے، یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان میں امریکہ و اسرائیل کے مقامی ایجنٹ ان کی اتحاد بین المسلمین کی کامیاب جدوجہد کو روکنے میں ناکام رہے، تو انہوں نے اپنے بیرونی آقاؤں کی ایماء پر آج سے گیارہ سال قبل 14 جولائی 2006ء کو دہشتگردی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

اسلام ٹائمز: علامہ حسن ترانی کی شہادت کے بعد اتحاد بین المسلمین کیلئے جاری کوششوں کو شہید کی جدوجہد کے تناظر میں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
شہید علامہ حسن ترابی نے تمام تر سختیوں، الزامات، سازشوں و دھمکیوں کے باوجود اتحاد بین المسلمین کے فروغ اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے انتہائی تیز رفتار جدوجہد کی، ان کی شہادت کے بعد ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اتحاد بین المسلمین کی کوششیں اسی تیزی کے ساتھ جاری ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ اتحاد بین المسلمین کی جدوجہد رک گئی ہے، ہاں البتہ اس انداز میں تیزی نہیں ہے کہ جیسی شہید نے جدوجہد کی، اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ جو بھی اتحاد بین المسلمین کی راہ میں فعالیت دکھائے گا، اس کی راہ میں انتہائی زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی، یہ کوئی آسان راہ نہیں ہے، اس راہ پر چلنے کیلئے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی جیسا عزم و ہمت چاہیئے، شہید حسن ترابی جیسا جذبہ چاہیئے۔ اس راہ پر چلتے ہوئے لوگوں کی انتہائی منفی باتوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے، گالیاں کھانی پڑتی ہیں، حتٰی کہ اپنے آپ پر اٹھنے والے ہاتھوں کو برداشت رکنا پڑتا ہے، یہ سب کہنا سننا تو آسان ہے مگر برداشت کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی جدوجہد کو جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید شہید کے بعد والوں میں یہ صلاحیتیں نہیں پائی جاتیں یا کم ہیں یا رجحان نہیں ہے، لہٰذا تمام خواص کو، تمام تنظیمی طبقات کو اس طرف توجہ دینے کی، اس کا رجحان پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اتحاد بین المسلمین کی ضرورت موجودہ زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ ہے، مسلمانوں کو بیدار و متحد کرنے کی جدوجہد کرنا ہم سب پر واجب ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید علامہ حسن ترابی ساری زندگی تحریک جعفریہ سے وابستہ رہے، وہ دیگر ملی شیعہ تنظیموں کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
میں مختصر مثال کے تحت آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں، اگرچہ والد صاحب تحریک جعفریہ کا حصہ تھے، اہم تنظیمی ذمہ داری پر فائض تھے، اس کے باوجود ہمارا ایک بھائی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آئی ایس او) میں فعال تھا، ہمارا ایک بھائی علامہ مرزا یوسف حسین کے ساتھ وابستہ تھا، انہوں نے ہمارے لئے کبھی بھی کسی بھی ملی تنظیم میں فعالیت انجام دینے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ انہوں نے ہمیں کسی بھی تنظیم میں فعالیت کا اختیار دیا ہوا تھا، خود میں علامہ سید جواد نقوی کا شاگرد ہوں، شیخ محسن نجفی کا بھی شاگرد ہوں، علامہ ساجد نقوی کے ساتھ بھی رہا ہوں، کبھی بھی کسی تنظیم میں شمولیت یا وابستہ ہونے میں انہوں نے رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ یہ واضح مثال ہے کہ وہ دیگر تنظیموں اور انکی فعالیت کے مخالف نہیں تھے، انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المومنین کیلئے بھی عملی جدوجہد کی۔

اسلام ٹائمز: شہید علامہ حسن ترابی تمام مکاتب فکر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، اس حوالے سے کوئی واقعہ جو آپکی نگاہ سے گزرا ہو۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
تمام مکاتب فکر کے قائدین و علماء والد صاحب کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس حوالے سے ہر خاص و عام آگاہ ہے، میں آپ کو ایک واقعہ نقل کرتا ہوں، والد صاحب کی شہادت کے تین روز بعد جماعت اسلامی کے مرکزی امیر قاضی حسین احمد مرحوم ہمارے گھر تشریف لائے، قاضی صاحب نے ہمارے گھر کے باہر ہی اپنے جوتے اتار دیئے، جبکہ سب افراد جوتے پہنے ہی گھر کے اندر داخل ہو رہے تھے، لیکن انہوں نے ہمارے گھر کے باہر ہی جوتے اتار دیئے، انہوں نے کہا کہ اگرچہ تنظیمی حوالے سے میرا مقام بلند ہے، میں جماعت اسلامی کا مرکزی امیر ہوں، لیکن میرا امیر حسن ترابی ہے۔ یہ ایک واضح مثال ہے، اس کے علاوہ بھی بے نظیر بھٹو، جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت پاکستان کی صف اول کی شخصیات نے تعزیت نامے بھیجے، تقریباً تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین و شخصیات نے تعزیت کی، خود بھی تشریف لائے۔

اسلام ٹائمز: شہید علامہ حسن ترابی کی شخصیت کا کونسا پہلو ایسا تھا کہ جسے آج ملت کے ہر خاص و عام فرد کو اپنانے کی ضرورت ہے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
شہید والد صاحب کی شخصیت کے یوں تو کئی ایسے پہلو ہیں، جنہیں ہم سب کو اپنانے کی ضرورت ہے، لیکن شہید کی شخصیت میں جو پہلو سب سے زیادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہ تھا ضبط و برداشت اور صبر و تحمل۔ شہید کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ جذبات سے کام نہیں لیتے تھے، کبھی بھی جذبات کو اپنے اور اپنے فیصلوں کے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔ لہٰذا ناصرف علمائے کرام بلکہ تمام تنظیمی طبقوں کو چاہیئے کہ انفرادی و اجتماعی جدوجہد میں ضبط و برداشت اور صبر و تحمل سے کام لیں، اس سے ناصرف ہمارے درمیان جو فاصلے اور دوریاں ہیں، ان کا بھی خاتمہ ہوسکے گا اور آپس میں تعاون و ہم آہنگی کی فضا بھی پروان چڑھے گی۔

اسلام ٹائمز: شہید علامہ حسن ترابی کے کیا خواب تھے، جنہیں وہ پورا کرنا چاہتے تھے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
پاکستان میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومین، ملک میں بالعموم استحکام مسلمین اور بالخصوص استحکام تشیع شہید علامہ حسن ترابی کا خواب تھا، جسے پورا کرنے کی خاطر انہوں نے پوری زندگی صرف کر دی اور اسی راہ میں انہوں نے اپنی جان تک قربان کر دی، وہ تمام مسلمین کو ایک امت واحدہ کی شکل دینا چاہتے تھے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شہید علامہ حسن ترابی کو معاشرے میں زندہ رکھا گیا ہے یا انہیں بھی فراموش کیا جا چکا ہے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
جو قوم اپنے شہداء کو زندہ نہیں رکھتی، شایان شان طریقے سے شہداء کی یاد نہیں مناتی، وہ قوم مردہ مانی جاتی ہے، جو قومیں اپنے شہداء کو فراموش نہیں کرتیں، وہ قومی زندہ رہتی ہیں۔ ہمارے پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران کی مثال دنیا کے سامنے ہے، انہوں نے شہداء کو فراموش نہیں کیا، انہوں نے معاشرے میں شہداء کو زندہ رکھا، آج ایرانی قوم بھی سربلند اور زندہ ہے۔ ہمارے ہاں ایک تو شہداء کو زندہ نہیں رکھا جاتا اور اوپر سے شہداء کے ساتھ ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ شہداء کو تنظیموں میں مقید کر دیا جاتا ہے، جبکہ شہید پوری ملت کا ہوتا ہے، شہید پوری امت کا ہوتا ہے، شہید پوری قوم کا ہوتا ہے، اس کو کسی مخصوص تنظیم میں محدود کرکے اس کے ساتھ خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہیئے، یہ ملی تنظیموں کی نااہلی ہے کہ وہ شہداء کو تنظیموں تک محدود کر دیتی ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ پھر ان شہداء کو زندہ رکھنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری بھی ادا نہیں کر پاتیں۔

اسلام ٹائمز: اس سال کراچی سمیت ملک بھر میں شہید علامہ حسن ترابی کی 11 ویں برسی بھی خاموشی سے گزر گئی، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
اس سال خانوادہ شہید یعنی ہماری فیملی کی جانب سے شہید علامہ حسن ترابی کی 11 ویں برسی کی مناسبت سے عظیم الشان احیائے شہداء کانفرنس کا انعقاد 29 جولائی بروز ہفتہ بعد نماز مغربین بریٹو روڈ سولجر بازار نزد امام بارگاہ شاہ خراسان کیا جا رہا ہے، جس میں قائد محترم علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب شرکت کرینگے، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کی شرکت بھی ان شاء اللہ متوقع ہے، جعفریہ الائنس پاکستان کے سربراہ علامہ عباس کمیلی صاحب، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین، امت واحدہ کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی و دیگر شیعہ علمائے کرام و رہنماء بھی شرکت کرینگے، اس کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹو صاحب، متحدہ علماء محاذ کے بانی سیکرٹری جنرل علامہ امین انصاری و دیگر اہلسنت علمائے کرام و رہنماء بھی کانفرنس میں شرکت و خطاب کرینگے۔ شہید علامہ حسن ترابی کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ یہ کانفرنس ان شاء اللہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے عظیم الشان اجتماع اور ہماری کوششوں کا آغاز ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ شہید کے حوالے سے شہید علامہ حسن ترابی فاؤنڈیشن کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے، جو اتحاد بین المسلمین اور احیائے شہداء و فکر شہداء کے حوالے سے کام کریگی۔

اسلام ٹائمز: شہید علامہ حسن ترابی فاؤنڈیشن کے قیام اور فعالیت کے حوالے سے کیا تفصیلات بتانا چاہیں گے۔؟
محمد عارف عباس ترابی:
شہید علامہ حسن ترابی کے بعد اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں و کاوشوں میں جو خلاء پیدا ہوگیا ہے، اسی کو پورا کرنے کیلئے شہید علامہ حسن ترابی فاؤنڈیشن کی فعالیت کا محور اتحاد بین المسلمین ہوگا، سال بھر اس حوالے سے مختلف پروگرامات منعقد کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں، اداروں و شخصیات کی جانب سے اتحاد بین المسلمین کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو کامیاب بنانے کیلئے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرینگے، اس کے ساتھ ساتھ شہید کی شخصیت کو متعارف کرانے سمیت معاشرے میں احیائے شہیداء و فکر شہداء کے حوالے سے کام کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ فلاحی امور بھی انجام دیئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 654991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش