0
Sunday 13 Aug 2017 23:23
ملک میں صحیح معنوں میں سزاؤں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، جو دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے

عام انتخابات 2018ء سے پہلے اتحاد اہلسنت قائم ہو جائیگا اور ایک نئی طاقت وجود میں آئیگی، حامد محمود شاہ فیضی

متحدہ مجلس عمل یکجا ہو بھی جائے تو اسے انتخابات میں کامیابی اور عوامی پزیرائی نہیں مل سکے گی
عام انتخابات 2018ء سے پہلے اتحاد اہلسنت قائم ہو جائیگا اور ایک نئی طاقت وجود میں آئیگی، حامد محمود شاہ فیضی
سکھر کی ممتاز مذہبی شخصیت حامد محمود شاہ فیضی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) سے ہے۔ آپ جے یو پی (نورانی) کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جامعہ فیض العلوم سکھر کے مہتمم اور سلسلہ عالیہ چشتیہ فیضیہ نظامیہ کے سجادہ نشین بھی ہیں۔ جے یو پی سے پہلے آپ نظام مصطفیٰ پارٹی میں بھی فعال کردار ادا کر چکے ہیں۔ آپ کے والد مفتی سید محمد اقبال حسین شاہ فیضی کا شمار اہلسنت کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا، آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے ہیں، اور چودہ پندرہ سال امام شاہ احمد نورانی صدیقی کے ساتھ فعال رہے۔ آپ انگریزی اور اسلامیات دونوں میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ سکھر میں اجمیری دسترخوان سمیت کئی فلاحی و سماجی سرگرمیاں بھی انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے عام انتخابات 2018ء کے تناظر میں اتحاد اہلسنت و دیگر موضوعات پر حامد محمود شاہ فیضی کے ساتھ جامع مسجد امام شاہ احمد نورانی، کراچی میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے یہ ببتائیں کہ پاکستان میں آپریشن ردالفساد کے باوجود جاری دہشتگردی کے سلسلے کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔؟
حامد محمود شاہ فیضی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
کہیں پر بھی دہشتگردی کا واقعہ یا کارروائی ہو، مسجد میں ہو، امام بارگاہ میں ہو، چرچ یا مندر میں ہو، عوامی مقامات یا سیکیورٹی فورسز یا دیگر اداروں پر ہو، اگر ان کے دہشتگرد پکڑے جائیں تو انہیں سرعام پھانسی دی جائے، جو کہ عبرت کا نشان بنے گا، اس سے دہشتگردی کی فکر کو روکا جا سکے گا، دہشتگرد عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی، ہمارے ہاں ملک میں صحیح معنوں میں سزاؤں پر عملدرآمد ہوتا نہیں ہے، جو دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے، اگر سزاؤں پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہونا شروع ہو جائے، تو دہشتگردی اور جرائم میں کافی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بہرحال دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے بعد کراچی سمیت سندھ بھی میں کافی حد تک صورتحال میں بہتری آئی ہے، اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے، دہشتگردی کے جو متوقع خدشات ہیں، انہیں دور کرنا چاہیئے، کسی کو بھی تحفظات ہیں تو انہیں دور کرنا چاہیئے، جہاں جہاں دہشتگردی کے خلاف ایکشن نہیں ہو رہا ہے، وہاں وہاں کارروائی ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاناما فیصلے اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
پاناما فیصلہ ایک انتہائی شفاف تاریخ ساز فیصلہ ہے، سیاسی، سماجی، مذہبی، عوامی تمام حلقے اسے بہت احسن و مثبت انداز میں لے رہے ہیں، مستقبل میں بھی ہماری عدلیہ صرف اس ایک کیس کو نہیں بلکہ ایسے تمام کیسز پر فیصلہ جات کرتی رہی، تو یہ ملکی مستقبل کیلئے انتہائی مثبت ثابت ہوگا، صرف ایک جماعت کیلئے نہیں بلکہ تمام جماعتوں کا احتساب ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: نااہل سابق وزیراعظم نواز شریف اور انکی ٹیم پوری شدت سے پاناما فیصلے کو انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے، آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
کرپشن ثابت ہے، اگر یہ کرپٹ نہیں ہیں تو پھر انکے پاس اپنے کاروبار کے، اپنی دولت کے، اپنی جائیدادوں کے کوئی دستاویزات کیوں نہیں ہیں کہ یہ سب کیسے بنایا، کہاں سے آیا، اب یہ نہ تو ثبوت پیش کر پائے اور نہ ہی ثابت کر پائے، لہٰذا عدالت نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو فعال کرنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر اتحاد میں شامل ایک بڑی جماعت جے یو آئی (ف) نواز شریف کی حمایت میں جبکہ دوسری بڑی جماعت جماعت اسلامی نواز شریف کے خلاف ہے، ایسی صورتحال میں دینی جماعتوں کا اتحاد کیسے ممکن ہے؟ کیا اسے دوبارہ عوامی پزیرائی حاصل ہو سکے گی۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
میری ذاتی رائے کہ مطابق ایم ایم اے نے 2002ء کے عام انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کری اور اس نے عروج دیکھا، امام شاہ احمد نورانی صدیقی کی قائدانہ صلاحیتیں تھی کہ انہوں نے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو یکجا کیا اور اس کے بعد کامیابی بھی حاصل کی، لیکن لیکن جو ان کے ساتھ جماعتیں تھیں، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی، جنہوں نے اکثریت نشستیں حاصل کیں، انہوں نے اس کو ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کیا، جس کی وجہ سے 2008ء کے الیکشن دیکھ لیں، 2013ء کے الیکشن دیکھ لیں، ان جماعتوں کو ناکامی ہوئی ہے، اب اگر 2018ء کے عام انتخابات میں اگر ایم ایم اے دوبارہ یکجا بھی ہو جاتی ہے، تو پھر بھی وہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گی، جیسا کہ انہوں نے 2002ء کے عام انتخابات میں حاصل کی تھی، اس کی بنیادی وجہ مفاد پرستی، ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ مثال کے طور پر فضل الرحمان کی بلوچستان میں الگ پالیسی ہے، خیبر پختونخواہ میں الگ ہے، پنجاب میں وہ نواز لیگ کے ساتھ ہے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتی ہے، تو انہوں نے ایک سیاسی کھچڑی بنائی ہوئی ہے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول کیلئے، فضل الرحمان نے پانچ چھ سیٹوں کے ذریعے تقریباً تین سے چار وزارتیں لے ہوئی ہیں، جن میں وزارت سیاحت ہے، کشمیر سے متعلقہ معاملات ان کے پاس ہیں، جو تقریباً چھپی ہوئی ہیں، ان کا کوئی ریکارڈ تک نہیں ہے، جبکہ مولانا فضل الرحمان نے آج تک کشمیر کاز پر ایک بات بھی نہیں کی، اب جب یہ باشعور عوام کے پاس جائیں گے تو میرا ذاتی خیال ہے کہ ایم ایم اے کو عوام میں پزیرائی نہیں ملے گی۔

اسلام ٹائمز: اگر مولانا فضل الرحمان نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن کے باوجود حمایت پر اپنی مبنی پالیسی سے پیچھے ہٹتے ہیں، تو کیا اس سے بہتری کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
مولانا فضل الرحمان کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف اور صرف چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں، اگر وہ دیکھیں گے کہ آئندہ عمران خان یا کسی اور جماعت کے حکومت میں آنے کے چانس زیادہ ہیں، تو وہ اس کی حمایت کا اعلان کر دینگے، ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے، وہ نواز لیگ کی حمایت صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ حکومت میں ہے، وگرنہ آپ پچھلے حکومتی ادوار میں دیکھ لیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ اس کے ساتھ تھے، مشرف کے دور حکومت میں وہ اس کے ساتھ تھے، آج نواز لیگ کی حکومت ہے تو اس کے ساتھ ہیں، کل کسی اور جماعت کی حکومت ہوگی، بھلے سے وہ انہیں آج گالی دے رہے ہوں، بعید نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان ان کی حمایت کرینگے، لہٰذا میں سمجھتا ہو کہ اگر فضل الرحمان نواز شریف کی حمایت چھوڑ بھی دیں تو بھی ایم ایم اے اب عوام میں پزیرائی نہیں ملے گی۔

اسلام ٹائمز: دینی جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے علاوہ آپ کی نظر میں کیا آپشن ہے۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
اگر ہم اتحاد اہلسنت کی طرف جاتے ہیں، اہلسنت سیاسی مذہبی تنظیموں کو اکھٹا کر لیتے ہیں، اگر ہم نیک نیتی سے یہ کام کر لیں تو اہلسنت کی جماعتیں اقتدار میں آ سکتی ہیں، ایوانوں میں پہنچ سکتی ہیں۔ لہٰذا اس وقت زیادہ اتحاد اہلسنت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ ابتک اتحاد اہلسنت قائم نہیں ہو سکا۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
میری ذاتی رائے یہ کہتی ہے کہ ہمارے اہلسنت قائدین کے ساتھ جو مشیر ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے اتحاد اہلسنت قائم نہیں ہو رہا ہے، اگر نیک نیتی کے ساتھ سچی کوششیں کی جائیں، جو کہ ابھی ہو رہی ہیں، انشاءاللہ اتحاد اہلسنت ہو جائے گا، ہم مایوس نہیں ہیں، انشاءاللہ ہمیں امید ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے اتحاد اہلسنت قائم ہو جائے گا اور ایک نئی طاقت وجود میں آئے گی، جو اقتدار کے ایوانوں میں بھی پہنچے گی۔

اسلام ٹائمز: سیاسی جماعتوں میں موجود اہلسنت کی نمائندگی کرنے والے اتحاد اہلسنت کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
پیپلز پارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف و دیگر سیاسی جماعتوں میں اہلسنت کی نمائندگی موجود ہے، جو ایوانوں میں بھی بیٹھے ہیں، ان سے ہماری بہت بار بات ہوئی ہے، وہ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ جیسے ہی اتحاد اہلسنت ہوگا، ہم ان سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر اتحاد اہلسنت کا حصہ بن جائیں گے اور اتحاد اہلسنت کی طاقت میں اضافے کا سبب بنیں گے۔

اسلام ٹائمز: انتخابی اتحاد کے حوالے سے دیگر مکاتب فکر و سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
حامد محمود شاہ فیضی:
سیاست میں دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، ملی ترقی، استحکام و عروج کیلئے ہم کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے اتحاد کر سکتے ہیں، چاہے وہ اہل تشیع جماعت ہو یا کسی اور مکتب فکر سے اس کا تعلق ہو، لیکن سب سے پہلے ہم اتحاد اہلسنت کی کوشش کر رہے ہیں، اتحاد اہلسنت کے بعد انشاءاللہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں سے بھی اتحاد کا سوچا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 660980
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش