2
0
Saturday 30 Apr 2011 23:54

دنیا بھر کی مسلم و غیرمسلم اقوام بلاتفریق مظلوموں کی حمایت اور ظالموں سے نفرت کیلئے آواز اٹھائیں، علامہ سید عابد حسین الحسینی

دنیا بھر کی مسلم و غیرمسلم اقوام بلاتفریق مظلوموں کی حمایت اور ظالموں سے نفرت کیلئے آواز اٹھائیں، علامہ سید عابد حسین الحسینی
 علامہ سید عابد حسین الحسینی پاکستان کی معروف مذہبی اور سیاسی شخصیت اور سابق سینیٹر ہیں، بنیادی طور پر ان کا تعلق "پاکستانی غزہ" پاراچنار سے ہے، ان کا شمار شمار پاراچنار کی موثر اور تاثیر گزار شخصیات میں ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے مشرق وسطٰی میں جاری عوامی اور اسلامی بیداری، پاراچنار کی حالیہ گھمبیر صورتحال، ٹل پاراچنار روڈ کی مسلسل بندش اور لوئر کرم بگن کے مقام سے اغوا ہونے والے مظلوم مسافروں کے حوالے سے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے، جو قارئین کے استفادہ کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:آغا صاحب؛ پاراچنار کے راستوں کی بندش اور لوئر کرم بگن میں مسافروں کے اغوا کے  پیچھے کون سی قوتیں ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین: پاراچنار کے مسائل چاہے ٹل پاراچنار روڈ کی بندش ہو، پاراچنار کا انسانی المیہ ہو، وہاں پر اشیائے خورد ونوش کی قلت یا لوئر کرم بگن میں اغوا ہونے والے مغویان کی رہائی کا مسئلہ، یہ تمام مسائل آپس میں مربوط ہیں، ان تمام مسائل کے پیچھے دو اہم عوامل کارفرما ہیں، ان میں سے ایک خود حکومت و مقامی انتظامیہ (سول و ملٹری بیوروکریسی) کا متعصابانہ و سوتیلی ماں جیسا سلوک ہے، اور دوسرا اہم نکتہ چند مٹھی بھر زرخرید اور حکومت و مقامی انتظامیہ کے پٹھو و چمچے قبائلی عمائدین، جو کہ میدان جنگ (دفاع و مزاحمت) میں طوری قوم کی قربانیوں کو اپنے مفادات کی خاطر میز (جرگہ و مذاکرات) میں ایک دستخط کی نذر کر دیتے ہیں۔ اگرچہ ان مٹھی بھر زرخرید اور حکومت و مقامی انتظامیہ کے پٹھو و چمچے قبائلی عمائدین کو عوام کی اکثریت بالخصوص جوانوں کی تائید و حمایت حاصل نہیں، جس طرح مشرق وسطٰی کے ممالک مصر، بحرین و لیبیا کے عوام ظالموں اور ڈکٹیٹروں کے مظالم حتٰی کہ توپوں اور ٹینکوں کے آگے تسلیم ہونے کی بجائے حق کی راہ میں ثابت قدم ہیں، الحمد للہ پاراچنار کے عوام و جوان بھی تمام تر ریاستی دہشت گردی اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ سے معصوم بچوں و خواتین کی شہادتوں کے باوجود بھی مزاحمت و استقامت کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔
جسکی واضح مثال سال 2011ء کے اوائل میں ان زرخرید و پٹھو مشران قبائلی عمائدین کی طرف سے بعض خفیہ قوتوں اور طالبان گروپوں کے دباؤ پر اسلام آباد میں ایک نئے معاہدے پر دستخط کرنا تھا، جس پر پاراچنار کے باشعور عوام بالخصوص جوانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور جب کچھ جرگہ اراکین بشمول پی پی پی کے سابق وفاقی وزیر ملک وارث خان آفریدی اس نئے معاہدے پر میری حمایت حاصل کرنے کے لیے پاراچنار مدرسہ خامنہ ای آئے تھے تو میں نے سابق وفاقی وزیر ملک وارث خان آفریدی اور اس کے ساتھیوں پر دوٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ دو سال پہلے مری میں جو معاہدہ ہوا تھا اور وہ معاہدہ تمام فریقوں کے لئے قابل قبول بھی تھا، لیکن اب تک مخالف فریق اور طالبان کئی دفعہ مری معاہدے کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ لیکن حکومت نہ تو مری معاہدے پر عمل کر سکی اور نہ ہی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے سکی ہے۔ اس لیے نئے معاہدے کرنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، جب تک پرانے معاہدے کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دے کر مری معاہدہ کے تحت معین کردہ جرمانے کی رقم وصول نہیں کی جاتی، کیونکہ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی مسئلہ نہیں بلکہ حقوق و انصاف کی فراہمی کا مسئلہ ہے، جس میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہے۔
اسلام ٹائمز: حکومت بالخصوص رحمان ملک نے ایک بار پھر 48 گھنٹے میں ٹل پاراچنار روڈ کھول کر وہاں فورسز تعینات کرنے کا وعدہ کیا، لیکن اس پر عمل نہیں کروا سکا، اس کے بارے میں آپ کی کیا نظر ہے۔؟
علامہ سید عابد حسین: رحمان ملک یا کسی بھی حزب اقتدار یا حزب اختلاف یا سیاسی پارٹی کی سیاست کا مرکز و محور دروغ گوئی اور منافقت پر مبنی ہے، ان سے توقعات وابسطہ کرنا اور ان کے وعدوں پر یقین کرنا، اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالنا ہے۔ دیکھئے ہماری نظر میں نہ صرف ہماری نظر میں بلکہ دنیا کے تمام انصاف پسند و باضمیر افراد کی نظر میں مولائے متقیان امام علی ع بعد از رسول ص سب سے بڑے عادل و سیاستدان ہیں۔ لیکن جب امام علی ع جیسے عادل سیاستدان کے مقابلے میں منافقت پر مبنی سیاست کو رواج دیا گیا تو نعوزباللہ لوگ امام علی ع کے مقابلے میں ملوکیتی ٹولے امیر شام کو عقلمند سمجھنے لگے، حالانکہ سیاست کے بھی کچھ اصول و ضابطے ہونے چاہیں، جو کہ موجودہ حکومت بشمول رحمان ملک میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، میں نے پہلے بھی ایک جگہ عرض کیا تھا کہ ہمارے حکمران غلام ہیں اور ان کے گلے میں ڈالی گئی زنجیر ملک سے باہر آقاؤں کے ہاتھ میں ہے، اس لئے جب تک انہیں بیرونی آقاؤں کی طرف سے حکم نہیں ملتا، یہ کچھ نہیں کر سکتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں سینیٹر تھا اور اس وقت افغانستان میں شدت پسند طالبان اور پاکستان میں شدت پسند تنظمیں دہشت گردی و منافرت پھیلا کر اسلام کو عالمی سطح پر بدنام کر رہی تھیں، تو میں نے سابق وزیراعظم نوازشریف سے ان اسلام دشمن عناصر سے بیزاری اور ان کے خلاف کھل کر بیان دینے کا کہا تھا تو نوازشریف نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا آغا صاحب؛ ہماری بھی کچھہ مجبوریاں ہیں۔
اگر حکومت ٹل پاراچنار روڈ کے ٹل سے لے کر علی زئی تک صرف 30 کلومیٹر حصے کو  دہشت گرد طالبان سے محفوظ کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس کے لئے اضافی فوجی نفری کی ضرورت نہیں بلکہ حکومت نے استعماری قوتوں کی خوشنودی کے لئے جو کرائے کے فوجی بحرین میں بھیجے ہیں اگر انہیں واپس لا کر ٹل پاراچنار روڈ کی حفاظت پر مامور کیا جائے تو امن وامان قائم ہو سکتا ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ اپنا ملک آگ و خون میں ڈوبا ہوا ہے، چاہے وہ فاٹا اور خیبر پختنخواہ میں جاری دہشت گردی ہو یا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، لیکن بےحس حکمران دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کر رہے ہیں۔ وہی بات جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا کہ جب تک انہیں بیرونی آقاؤں کی طرف سے حکم نہیں ملتا یہ کچھ نہیں کرسکتے۔
اسلام ٹائمز:گذشتہ دو ہفتوں سے ملک کے مختلف شہروں جیسے اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں پاراچنار کے جوانوں نے یوتھ آف پاراچنار کے نام سے مطالبات کی منظوری تک مستقل احتجاجی کیمپ لگا رکھے ہیں اور موصولہ اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ دیگر ممالک جیسے آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا تک پھیل سکتا ہے، اس حتجاجی کیمپ کے بارے میں آپ کیا نظر رکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین:خداوند عالم ان جوانوں (یوتھ آف پاراچنار) کی توفیقات میں اضافہ کریے، ہم ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ انہیں میری طرف سے جس بھی قسم کی مدد و تعاون چاہیے میں حاضر ہوں، ساتھ ہی ان کو میں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ حکومتی شخصیات کے کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں پر راضی نہ ہوں، بلکہ عملی اقدامات تک اپنے احتجاجی کیمپ کو جاری رکھیں، کیونکہ یہ ھمارا تجربہ ہے کہ جب بھی مسائل کے حصول کے لئے اس طرح مسلسل احتجاجی کیمپ ہوتا ہے تو حکومتی اہلکار دباؤ میں آ کر منت و سماجت اور مطالبات کی مظوری کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ جس طرح ہم نے بالش خیل کے مقام پر طوری قبیلے کی ملکیتی اراضی پر دہشت گرد طالبان اور ان کے مقامی ہمدرد پاڑہ چمکنی قبیلے کے ناجائز مکانوں کی تعمیر کے خلاف احتجاجی کیمپ لگایا تھا تو آئے روز پولٹیکل ایجنٹ سمیت اعلٰی حکومتی عہدیدار تمام تر مسائل کے حل کی جھوٹی تسلیاں دینے آ جاتے یا فون پر جھوٹی تسلیاں دینے لگتے۔
علاوہ ازیں دیگر ممالک جیسے آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا میں مسلسل احتجاجی کیمپ اس حوالے سے مفید ہیں کہ پاراچنار کا انسانی المیہ اور چار سالہ محاصرہ غزہ کے انسانی المیے کی طرح بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کر جائے گا، جو کہ بہت ضروری ہے۔
اسلام ٹائمز:پاکستان میں موجود پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی اکثریت پاراچنار کے انسانی المیے پر خاموش کیوں ہے، جب کہ یہی میڈیا برطانوی شاہی جوڑے کی شادی، کرکٹر شعیب اختر کی شادی سمیت صومالیہ میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا 4 پاکستانیوں کے لئے گھنٹوں کوریج، حتٰی کہ مسلسل لائیو کوریج دیتا رہا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسین: اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو گا کہ گنتی کے چند ذرائع ابلاغ یا میڈیا کے علاوہ اکثریتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا، جو اپنے آپ کو آزاد میڈیا کہتے ہوئے نہیں تھکتا، پاراچنار کے انسانی المیے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ کیا صومالیہ میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا 4 پاکستانی ہیں؟ اور اور لوئر کرم بگن میں نام نہاد طالبان اور ان کے سرپرستوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے پاراچنار کے 33 محب وطن افراد کسی دوسرے ملک کے باشندے ہیں،؟ حکومت اور میڈیا کو طوری بنگش قبیلے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی۔ میں عرض کرتا چلوں کہ میڈیا کا طوری بنگش قبیلے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک آج کی بات نہیں ہے، جب میں سینیٹر تھا تو میں نے سینیٹ کے فلور پر 1982ء میں صدہ سے ضیاء دور میں جبری بے دخل کئے گئے طوری بنگش گھرانوں کے حقوق اور ان کی املاک، جائیداد و مارکیٹوں کو قابضین سے واگزار کر کے صدہ کے طوری بنگش کی دوبارہ آباد کاری کا کئی دفعہ پرزور مطالبہ کیا، لیکن اخبارات و میڈیا میں اس مطالبے و خبر کا سرے سے ذکر نہ ملتا۔ اگلے روز میں نے سینیٹ کے پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے پرزور تقریر کی اور کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے، میری تقریر کے بعد موجودہ گورنر بیرسٹر مسعود کوثر (جو اس وقت سینیٹر تھے) نے بھی صدہ کے طوری بنگش کی دوبارہ آبادکاری کے حق میں تقریر کی، تاہم صحافیوں میں سے بعض نے آکر مجھے بتایا کہ ہم پر خفیہ اداروں کا دباؤ ہے، یعنی اکثریتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ماسوائے گنتی کے چند آزاد ذرائع کے، وہی شائع کرتا ہے، جس کا حکم دیا جاتا ہے۔ بگن میں نام نہاد طالبان اور ان کے سرپرستوں نے جب پاراچنار کے 33 نہتے مسافر اغوا کئے تو اس کے دو تین دن بعد ہم نے پاراچنار میں احتجاجی ریلی نکالی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، لیکن پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے اسے کوئی کوریج نہیں دی۔ جو آزاد میڈیا کیلئے لمحہء فکریہ ہے۔
اسلام ٹائمز: آخر میں آپ مشرق وسطٰی میں عوامی بیداری اور پاراچنار کے انسانی المیے کے مستقل حل کے لئے پوری دنیا بالخصوص پاکستان کے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسین:میں پوری دنیا کی مسلم و غیر مسلم اقوام سے کہتا ہوں کہ وہ بلا کسی تفریق کے مظلوموں کی حمایت کریں اور ظالموں سے نفرت کر کے ان کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں۔ چاہے مظلوم مصر، بحرین، لیبیا، کشمیر، فلسطین غزہ یا پاراچنار کے ہوں یا کسی دوسری جگہ کے۔ کاش دنیا بھر کے غیرمسلم حقیقی معنوں میں انسان ہوتے اور پاکستان کے عوام اور بالخصوص حکمران حقیقی معنوں میں مسلمان ہوتے، تو یہ مسائل ختم ہو جاتے، کیونکہ حضور ص کا ارشاد ہے کہ.۔(جب کوئی مسلمان کسی بھی مظلوم (مظلوم چاہے مسلم ہو یا غیرمسلم) کی فریاد سنے، اور وہ اس کی مدد کے لئے نہ آئے یعنی حمایت نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں)۔
اسلئے دنیا کے تمام مسلم و غیرمسلم بالخصوص پاکستان کے مسلمان عوام کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مظلومین پاراچنار، مصر، بحرین، لیبیا، کشمیر، فلسطین و غزہ کے لئے جس سطح پر بھی آواز اٹھا سکتے ہوں یا حمایت کر سکتے ہوں، اپنے فریضے پر عمل پیرا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 68971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
علامہ عابد حسینی صاحب اور علامہ عرفانی صاحب پہلے اپنے مسایل حل کریں
اور پاراچنار کے مسایل کو حل کریں
جنکے گھر میں آگ لگی ہو وہ دوسروں کی نہیں بجھا سکتے
United Arab Emirates
salam u alikuam janab bahot achai baat kee han lakin
ہماری پیشکش