0
Wednesday 21 Mar 2018 19:54
تقسیم ہند کے بعد بھارتی مسلمانوں کو محروم کرنیکی منظم منصوبہ بندی ہوتی رہی

اگر بدعنوانی بڑا مسئلہ ہے تو فرقہ واریت بھی اس سے کم بڑا مسئلہ نہیں، ڈاکٹر منظور عالم

آر ایس ایس نے مسلمانوں کیخلاف ذہن سازی کی
اگر بدعنوانی بڑا مسئلہ ہے تو فرقہ واریت بھی اس سے کم بڑا مسئلہ نہیں، ڈاکٹر منظور عالم
ڈاکٹر محمد منظور عالم کا تعلق بھارتی ریاست بہار سے ہے، وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں، جسکا قیام بھارتی مسلمانوں کے اتحاد و ملی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1992ء میں عمل میں لایا گیا، وہ Institute Of Objective Studies کے چیئرمین بھی ہیں، جو قوم کے وسیع مفادات کیلئے وجود میں آئی ہے، مسلمانوں کو کلمہ لا الہ الا اللہ پر متحد کرنا، مسلمانوں کی جان و مال و عزت کے تحفظ کے اقدام کرنا اور بھارت میں بے قصور مسلمانوں پر ہونیوالی زیادتی اور ناانصافی کیخلاف جدوجہد کرنا ملی کونسل کے اہم اہداف میں شامل ہے۔ ڈاکٹر منظور عالم اسکے علاوہ کئی رسالوں کے مدیر اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ 1986ء میں تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس) قائم کیا، جس سے مختلف شعبوں میں پالیسی اور ادارہ سازی کی راہیں ہموار ہوئیں۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم رکن بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ڈاکٹر منظور عالم سے نئی دہلی میں ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اولاً جاننا چاہیں گے کہ آپکی نظر میں بھارت کو درپیش اصل مسائل کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
اس وقت بھارتی آئین کا جمہوری ڈھانچہ خطرے میں ہے اور جب آئین کا جمہوری ڈھانچہ خطرے میں ہوگا تو سوشل فیبرک خطرے میں گھرے گا اور جب یہ صورتحال پیدا ہوگی تووہ ڈھانچہ جو جمہوریت کو نافذ کرتا ہے متاثر ہوگا۔ آج ہمارے ملک میں یہی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ پڑ رہا ہے کہ حصہ تقسیم کرنے کے معیار میں جو عدم توازن تھا، وہ بڑھتا چلا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کا سرمایہ کچھ ہاتھوں میں سمٹتا چلا گیا۔ سیاسی ایشوز کو دبانے کے لئے بہت سارے میکنزم کا استعمال ہوا۔ علاوہ ازیں اس حصے سے مسلمانوں کو محروم کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہوتی رہی، جس کے لئے کئی طرح سے کوشش کی گئی۔ مثلاً تقسیم کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کی گئی، آر ایس ایس نے باضابطہ طور پر عوام میں یہ ذہن سازی شروع کردی کہ تقسیم ہند کے بعد مسلمان ہندوستان پر بوجھ ہیں۔ دوسری طرف آر ایس ایس نے ملک کے بنیادی ڈھانچے میں گھس کر اپنا اثر ڈالا اور مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی۔

اسلام ٹائمز: بھارتی مسلمانوں کو درپیش مسائل کی وجوہات کی وضاحت چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
تین ایسے اہم مسائل ہیں جو فی الحال بھارتی مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ پہلا مسئلہ تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ دوسرا مسئلہ قانون و دستور کے پروویژن سے جڑا ہوا ہے اور تیسرا مسئلہ قانون کے نفاذ سے متعلق ہے۔ یہ تینوں مسئلے ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور جب تک ان تینوں کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، اس وقت تک مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ایک چوتھا مسئلہ بھی ہے جو کہ مسلمانوں سے جڑا ہوا ہے۔ تقسیم کے وقت ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے تھے جس کا منفی اثر مسلمانوں کی نفسیات پر پڑا۔ انسانوں کا قتل عام ہوا، نظروں کے سامنے اپنوں کو قتل کیا گیا اور لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے گئے، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں اس کے اثرات زیادہ تھے، اس خوف و ہراس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر گہری چھاپ چھوڑی۔ مسلمانوں کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ تھا جان و مال کا تحفظ۔ لہٰذا وہ دوسری طرف توجہ نہیں دے سکے۔ 1970ء کی دہائی کے بعد جب مسلمانوں کے دماغ سے نفسیاتی دباؤ کے اثرات کم ہوئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ احساس مسلمانوں میں تعلیم کی طرف توجہ دینے کی طرف پہلا قدم تھا لیکن کہیں نہ کہیں یہ بات ذہن میں تھی کہ تعلیم کے ساتھ دین کا تحفظ بھی لازمی ہے۔ لہٰذا انہوں نے شمالی ہندوستان میں مدارس پر مزید توجہ دی۔ انہیں ان مدارس میں دین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی مل رہی تھی۔ مگر اس میں ان کے لئے اقتصادی مسائل کا حل نہیں تھا جبکہ یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ اقتصادی اعتبار سے ابھرنا بھی ضروری ہے لیکن عصر حاضر کی تعلیم میں کمی اور نئی ٹکنالوجی سے عدم واقفیت کی وجہ سے وہ پالیسی میکنگ اور پاور شیئرنگ میں حصہ دار نہیں بن سکے اور چونکہ مسلمان چھوٹے چھوٹے پیشے سے جڑے ہوئے تھے جیسے زری، قلعی وغیرہ تو تعلیم میں کمی ہونے کی وجہ سے وہ ان میدانوں سے باہر نہیں آسکے۔

دوسرا فیکٹر ہے جمہوریت کا عملی نفاذ۔ عملی نفاذ میں سب سے بڑا مسئلہ ہے سرکاری افسروں کا متعصب ہونا۔ اس وقت افسروں کی اکثریت متعصب ہے اور اس تعصب کی وجہ سے سرکاری اسکیموں کا صحیح طور پر نفاذ نہیں ہو پاتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جو بھی فلاحی اسکیمیں آتی ہیں ان میں بہانے تلاش کرکے نافذ نہ کرنے کا جواز پیش کر دیا جاتا ہے۔ اسی تعصب کا نتیجہ ہے کہ جب بھی تعلیمی میدان میں کوشش ہوئی یا اقتصادی میدان میں کچھ کرنے کے بارے میں سوچا گیا تو اس میں رکاوٹیں پیدا کردی گئیں۔ اسی تعصب کا نتیجہ تھا کہ 1950ء یا 1951ء میں جب ریزرویشن کا معاملہ آیا تو مسلمانوں کو اس سے حذف کر دیا گیا اور یہاں بھی تقسیم کے بعد جو تعصب پیدا ہوا، اس کا اثر دیکھنے کو ملا۔ اس تعصب کی وجہ سے میڈیا ہو یا سوشل افیئر ہر جگہ مسلمانوں کی آواز دبائی گئی۔ اس تعصب نے مسلمانوں کے اقتصادی و تعلیمی پہلو کو بہت کمزور کیا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کے اندر مسائل پیدا کرنے میں افسروں کا متعصب ہونا بھی اہم وجہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر تقسیم ہند کے نتیجے میں بھارتی مسلمانوں میں احساس شکستگی کیوں حاوی ہوگئی۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
اس کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی جو تنظیمیں تھیں ان میں سے کچھ پاکستان منتقل ہوگئیں اور کچھ یہاں رہ گئیں۔ کچھ ایسی تنظیمیں تھیں جو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئیں، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں پر اس طرح اثرانداز نہیں ہوسکیں جس طرح سے ہونا چاہئے تھا۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی قوم کو ابھرنے کے لئے قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو مسلم رہنما تھے ان میں سے بیشتر پاکستان چلے گئے تھے۔ ہندوستان میں ان کا کوئی ایسا قائد نہیں بچا سوائے چند ایک کے جو ان کو خوف و دہشت کے ماحول سے بچائے رکھے اور نہ ہی مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا قائد تھا جو نہرو اور ان جیسوں سے باتیں کرسکیں سوائے مولانا ابوالکلام آزاد کے۔ اگر ہمارے پاس وافر لیڈرشپ ہوتی تو دیگر مسائل اسی وقت حل کئے جا سکتے تھے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ ماڈرن تعلیمی نظام کے بارے میں آپکی کیا رائے جاننا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
تعلیم کا مقصد ذہن میں جلا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ آج جتنی بھی ٹیکنیکل تعلیم ہے، اس نے انسان کو اقتصادیات کا غلام بنا دیا ہے۔ اس تعلیم میں انسانیت کی خدمت کے بجائے اقتصادی حصول کا جذبہ پایا جاتا ہے جبکہ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ زندگی میں ضروری وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت کے دائرے تک لایا جائے جو ٹیکنیکل تعلیم سے حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اب مدارس کی تعلیم میں انسانیت کا جذبہ پایا جاتا ہے مگر تعلیم میں صرف انسانیت نہیں بلکہ انسانی وسائل کی فراہمی کا بھی بندوبست ہونا چاہئے جس کی طرف مدارس میں دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومتی بدعنوانی کو آپ ملک کیلئے کتنا بڑا ایشو مانتے ہیں۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
بدعنوانی بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک میں اور بھی مسائل ہیں۔ اس ملک میں جہاں ہاتھ کالے ہو رہے ہیں تو وہیں ہاتھ لال بھی ہورہے ہیں یعنی اس ملک میں ہاتھ لال اور کالے دونوں ہو رہے ہیں۔ اگر بدعنوانی بڑا مسئلہ ہے تو فرقہ واریت بھی اس سے کم بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے اندر صرف بدعنوانی کو ہی مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب تک ہاتھ لال ہونے کو نہیں روکا جائے گا تو کالا ہونے کی راہیں کھلی رہیں گی۔ وہ اس طرح سے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں جن کے ہاتھ لال ہوتے ہیں یعنی وہ مجرم ہوتے ہیں اور وہ افسروں کو خریدنے کے لئے بدعنوانی کرتے ہیں اور جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو لازمی طور پر قانون مفلوج ہوجاتا ہے۔ 1997ء میں بھارتی وزیراعظم اندر کمار گجرال نے دوسری جنگ آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس دوسری جنگ آزادی کا مطلب بدعنوانی اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ لڑنا تھا۔ اس مہم کو لے کر آل انڈیا ملی کونسل آگے بڑھی اور 50 دن کا دورہ مغربی بنگال کے مرشد آباد میں نواب سراج الدولہ کے مقبرے اور دوسری طرف کرناٹک کے سرنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان کے مقبرے سے شروع کیا۔ یہ ایک اہم اور تاریخی کام تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا نے اسے اہمیت نہیں دی۔ جبکہ اتنی بڑی پریس کانفرنس ہم نے اپنی زندگی میں نہیں کی تھی، متعدد زبانوں میں پریس ریلیز دی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک مسلم تنظیم نے کانفرس کی تو اسے سوائے اردو میڈیا کے کسی اور نے کور نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ مسلم تنظیمیں مسلمانوں کے اہم مسائل و نیشنل ایشوز پر بات نہیں کرتی ہیں۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
یہ بات بالکل غلط ہے کہ مسلمان یا مسلم تنظیمیں صرف ضمنی ایشوز کی باتیں کرتے ہیں اور نیشنل ایشوز کی طرف توجہ نہیں دیتی ہیں۔ جن کو آپ ضمنی ایشو کہتے ہیں جیسے بابری مسجد، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار، گجرات فساد وغیرہ، تو یہ ضمنی نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل ان کے تحفظ اور شناخت سے جڑے ہوئے ہیں لہٰذا ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ جب یہ ایشوز اٹھائے جاتے ہیں تو بھارتی میڈیا اسے منفی انداز سے پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی ایشوز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی مسلمانوں کے اصل و بنیادی ایشوز کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر منظور عالم:
مسلمانوں کے اصل ایشوز تعلیم و روزگار میں پسماندگی، اقتصادی بدحالی اور پالیسی میکنگ میں عدم شمولیت ہیں۔ پالیسی میکنگ میں عدم شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر الیکشن کے زمانے میں نومینیشن کی بنیاد پر کمیٹی بنتی ہے۔ اس کمیٹی میں مسلمانوں کو نومینیٹ نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ اس پالیسی میں شامل ہوسکیں اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ایوان بالا سے لے کر ایوان زیریں تک مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے جو صد درجہ تشویشناک ہے۔
خبر کا کوڈ : 712671
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش