0
Friday 23 Mar 2018 23:26
پاکستان میں شیعہ سنی تقسیم کی جو سازشیں امریکا نے کی ہیں، ہماری عوام کبھی بھی ان کا حصہ نہیں بنے

سعودی حکمران امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، انکے ترکی پر الزامات ٹھیک نہیں، محمد حسین محنتی

متحدہ مجلس عمل نے کسی بھی جماعت کیساتھ ملکر الیکشن لڑنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا، مولانا فضل الرحمان کو ذاتی رائے نہیں دینی چاہیئے
سعودی حکمران امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، انکے ترکی پر الزامات ٹھیک نہیں، محمد حسین محنتی
محمد حسین محنتی جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اور مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں۔ آپ 1946ء میں کاٹھیاوار، انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، تمام مذہبی اور سیاسی حلقوں میں آپ بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ 2002ء کے عام انتخابات میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ محمد حسین محنتی جماعت اسلامی کراچی کے بھی امیر رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے آئندہ عام انتخابات، متحدہ مجلس عمل، شام و مشرق وسطیٰ و دیگر موضوعات پر آپ کے ساتھ مسجد قبا گلبرگ میں قائم جماعت اسلامی سندھ کے آفس میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں آئندہ عام انتخابات بروقت ہوتے نظر آرہے ہیں۔؟
محمد حسین محنتی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
پاکستان کے حالات بہت زیادہ گھمبیر ہیں، سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی اور ملکی اداروں کے درمیان بھی بہت زیادہ تناو¿ پایا جاتا ہے، لیکن حالات کو بہتر ہونا چاہیئے، انتخابات ایک مرکزی نکتہ ہے کہ جس سے ملکی حالات کی بہتری کیلئے اقدامات ہونے کے حوالے سے امید کی جاسکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ قوتیں پس پردہ انتخابی عمل کو ڈسٹرب کرنا چاہ رہی ہیں، جبکہ کچھ یہ چاہتے ہیں کہ انتخابی عمل اس طرح سے ان کے حق میں چلا جائے۔ ملک کے حالات انتخابات کے ملتوی ہونے کے متحمل نہیں ہیں، اس وقت سپریم کورٹ بھی بہت زیادہ فعال ہے، باقی ادارے بھی فعال ہیں، مجھے امید ہے کہ آئندہ عام انتخانات بروقت منعقد ہو جائیں گے، مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی یہی بہتر ہے کہ انتخابات بروقت منعقد ہوں، وہ اقتدار نگران حکومت کو منتقل کرے اور انتخابی عمل کیلئے راستہ ہموار کرے، میرا خیال ہے کہ (ن) لیگ کا ذہن اس حوالے سے بنا ہوا ہے۔ امید ہے کہ نگران حکومت وقت پر بن جائے گی، موجودہ حکومت اور اپوزیشن بھی، سپریم کورٹ، مقتدر ادارے بھی انتخابی عمل کو خراب نہیںہونے دینگے اور اسے منصفانہ و شفاف ہونے دینگے، اسی میں ملکی ترقی بھی ہے اور عوام کی خوشحالی بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے گی، جیسا کہ مولانا فضل الرحمان صاحب کے حوالے سے بیان میڈیا پر عام ہو رہا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد حسین محنتی:
متحدہ مجلس عمل کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کا نظام قائم ہو، عدل و انصاف ہو، امن و آتشی ہو، ترقی و خوشحالی ہو، ہم انہیں مقاصد کو اولیت دینگے، ایم ایم اے نے اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کمٹمنٹ نہیں کی ہے، ابھی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، میرا خیال ہے یہ مولانا فضل الرحمان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن ان کو یہ رائے نہیں دینی چاہیئے، کیونکہ طے ہوا ہے کہ اس طرح کے تمام فیصلے ایم ایم اے میں شامل تمام جماعتیں متفقہ طور پر کرینگی۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف ایم ایم اے فعال ہوگئی ہے تو دوسری طرف اہلسنت کا بھی انتخابی اتحاد تشکیل دیا جا چکا ہے، مجلس وحدت مسلمین بھی ایم ایم اے کا حصہ نہیں، ایسے میں کیا آئندہ عام انتخابات میں دینی ووٹ تقسیم ہوتا نظر نہیں آتا۔؟
محمد حسین محنتی:
ہماری کوشش ہے کہ تمام دینی ووٹ یکسوئی کے ساتھ کاسٹ ہوں، ایم ایم اے کے قیام کے وقت بھی اور چند روز پہلے جو اجلاس ہوا ہے، اس میں بھی مولانا صاحب نے یہی کہا ہے کہ ایم ایم اے کے دروازے تمام جماعتوں کیلئے کھلے ہوئے ہیں، ہماری کوشش اور خواہش بھی یہی ہے کہ تمام دینی جماعتیں ساتھ مل کر انتخابات لڑیں، اسی لئے ہم آج آپ کے ادارے کے ذریعے بھی یہ دعوت دینا چاہتے ہیں کہ تمام دینی جماعتوں کو ساتھ مل بیٹھنا چاہیئے، دینی جماعتوں کا اپنا ووٹ بینک ہے، لیکن وہ اتنا نہیں ہے کہ وہ اسمبلی میں پہنچ سکیں، اسی لئے بہتر یہی ہوگا کہ مل کر الیکشن لڑیں، تاکہ ہم بھرپور انداز میں ایوانوں میں پہنچ بھی سکیں، نمائندگی بھی کر سکیں، ہمارا مفاد مسالک اور فرقوں سے بالاتر ہوکر دین اسلام کی نمائندگی کرنا ہے، مجھے امید ہے کہ تمام جماعتیں ہماری اس درخواست پر ضرور توجہ دینگی اور مل جل کر انتخابی عمل کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرینگی۔

اسلام ٹائمز: دینی ووٹ کو تقسیم سے بچانے کیلئے ایم ایم اے کا حصہ بننے کے علاوہ کیا حل ہے۔؟
محمد حسین محنتی:
اگر دیگر دینی جماعتیں ایم ایم اے کے اتحاد میں آجائیں تو یہ بہت اچھا ہے، اس سے عوام میں بھی مزید اعتماد پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں، مسالک کے اختلافات ختم کر چکے ہیں، لیکن اگر دیگر دینی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر نہیں آتیں، تو پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا آپشن بھی کھلا ہوا ہے، لیکن یہ ابھی طے ہو جانا چاہیئے، انتخابی عمل کے شروع ہو جانے کے وقت بہت زیادہ عوامل کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس وقت اس طرح کی کی چیزیں ممکن نہیں رہتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ کی خراب صورتحال کے باوجود پاکستان اسکے اثرات سے محفوظ نظر آیا، کیا وجہ آپ سمجھتے ہیں اسکی۔؟
محمد حسین محنتی:
دراصل کوئی بھی ملک یا عوام جزباتی ہوکر اپنے حالات خود خراب نہیں کرینگے، ویسے بھی پاکستان میں شیعہ سنی تقسیم کی جو کوششیں امریکا نے کی ہیں، ہماری عوام کبھی بھی اس امریکی سازش کا حصہ نہیں بنے ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی عوام اس سازش کا حصہ نہیں بنیں گے، اس لئے الحمداللہ پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ نہیں لگی ہے اور امید ہے کہ انشاءاللہ تمام عوامل جو ہیں، اس کیلئے یکسوئی کے ساتھ کوشش کرینگے کہ دنیا بھر میں بھی ان اختلافات کو ختم کیا جائے اور پاکستان میں بھی کسی بھی طرح یہ آگ بھڑکنی نہیں چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: شام سمیت مشرق وسطیٰ کی صورتحال کی بہتری کیسے ممکن ہے۔؟
محمد حسین محنتی:
اصل نکتہ تو یہ ہے کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے، شام کی حالت بہت بری ہے، وہاں انسانیت مر رہی ہے، وہاں پر مسلمان مر رہے ہیں، فرقہ واریت کے تحت شامی حکومت اور دیگر عناصر نے سوچ کر کام کئے ہیں، پہلے اسی طرح حلب میں ہوا، دیگر شامی شہروں میں ہوا، بہت ہی زیادہ افسوسناک صورتحال ہے، اس کا واحد حل تو یہ ہے کہ او آئی سی اس کو فعال ہونا چاہیئے، اس کے اجلاس ہونے چاہیئے، شام میں امریکا اور روس کو کوئی موقع نہیں ملنا چاہیئے، سعودی عرب، ایران و دیگر ممالک جو وہاں فعال ہیں، انہیں وہاں ٹھنڈا کیا جائے، مل بیٹھ کر فیصلہ کرایا جائے، اس حوالے سے پاکستان، ترکی، ملائیشیا جیسے ممالک کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیئے، تاکہ وہاں جلد از جلد امن قائم ہو سکے، کیونکہ اس وقت امت مسلمہ انتہائی پریشانی کا شکار ہے، روز خواتین، بچوں سمیت لوگ مر رہے ہیں، اور جن کا نام لیکر وہاں مارا جا رہا ہے، شاید ان کا وہاں وجود نہیں ہے یا وہ فرار ہو چکے ہیں، میرا خیال ہے کہ شامی حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ ہوش کے ناخن لے، جس طرح سے انہوں نے فکری انتشار پیدا کیا ہے، جس طرح مسلکی اختلافات کو انہوں نے ہوا دی ہے، اس سے بچنا چاہیئے، مجھے امید ہے کہ او آئی سی اس حوالے سے کردار ادا کریگی، اس کے ساتھ اقوام متحدہ کو بھی کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ وہ امن کا سب سے بڑا ذمہ دار ادارہ ہے، تاکہ شام میں خونریزی روکی جا سکے۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ دنوں مصر میں ایک انٹرویو کے دوران سعودی ولی عہد نے انتہاپسند گروہوں کے ساتھ ساتھ ایران اور ترکی کو بدی کی مثلث، جبکہ امریکا کو دوست ملک قرار دیا ہے، ایسی صورتحال میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال کی بہتری کیسے ممکن ہے۔؟
محمد حسین محنتی:
حالات کو خراب کرنے میں امریکا کا بہت بڑا کردار ہے، بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے سعودی حکمران بھی امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، امریکی مفادات کو تقویت دے رہے ہیں، سعودی شہزادے نے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیان دیئے ہیں، ترکی کو بھی مورد الزام ٹہرایا ہے، اسے بھی شام کے خراب حالات کا حصہ بنا دیا ہے، بہرحال ترکی نے بھی وہاں کسی نہ کسی طرح سے کردار ادا کیا ہے، امن کیلئے بھی کیا ہے، شامی مہاجرین کی سب سے زیادہ مدد بھی کی ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ترکی پر اس طرح کے الزامات لگانے ٹھیک نہیں ہیں، سعودی عرب کو سمجھنا چاہیئے کہ وہ حرم کعبہ کے خادمین و محافظ ہیں، انہیں اسلامی دنیا کے اتحاد کیلئے کوشاں ہونا چاہیئے ناکہ اختلافات کیلئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی ولی عہد شہزادے کے ہاتھ میں ساری پالیسیاں نہیں ہونی چاہیئے، ان کے بڑوں کو معاملات کو دیکھنا چاہیئے اور امریکا کی طرف پوری طرح سے اپنا جھکاؤ کرکے سعودی عرب نے مسلم امہ کیلئے جو انہوں نے مشکلات پیدا کی ہیں، اس سے نکالنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ داعش کو عراق و شام میں شکست کے بعد امریکا داعش کو افغانستان میں پروان چڑھا رہا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد حسین محنتی:
ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ کچھ مسلمان بھائیوں نے داعش بنائی، جو اسلام و خلافت کے نام پر اٹھے اور پھر امریکا، سعودی عرب و دیگر ممالک نے انہیں اپنا ہتھکنڈا بنایا، آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ انہیں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور پاکستان میں بھی حالات کو خراب کرنے کیلئے وہ فعال ہیں، اور پاکستان کو بھی اس کے خطرات محسوس ہو رہے ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ داعش پاکستان میں فعال کردار ادا نہیں کر سکے گی، داعش سے پہلے طالبان نے ہمارے ملک پاکستان میں بہت ہی خرابیاں پیدا کی ہیں، طالبان بہت ہی منظم تھے لیکن ان کے مقابلے میں داعش میں کوئی زیادہ قوت نہیں ہے، اس لئے پاکستان کو زیادہ خطرات محسوس نہیں ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ممکنہ خطرے کے تناظر میں پاکستان میں علمائے کرام کا کردار کیا ہونا چاہیئے۔؟
محمد حسین محنتی:
اس حساس صورتحال میں بہت ہی زیادہ ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے کہ ایک طرف تو وہ پاکستان میں انتشار اور فرقہ واریت پھیلنے سے بچائیں، جیسا کہ ایم ایم اے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم سب مسالک و فرقوں سے بالاتر ہوکر سب مل جل کر امت مسلمہ بن کر کردار ادا کریں، لہٰذا علمائے کرام کو اس سلسلے میں بہت زیادہ مو¿ثر کردار ادا کرنا چاہیئے، ان کے اثرات دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پائے جاتے ہیں، ان کے اثرات کو اس کیلئے بھی استعمال ہونا چاہیئے، جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل کو موقع ملا تو ہم امت مسلمہ میں بیداری کیلئے کوششیں کریں گے، تاکہ اختلافات ختم کئے جائیں اور علمائے کرام کو آگے لاکر وفود کی صورت میں آگے بھیجیں گے، امن و آتشی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 713480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش